1
Thursday 13 Jul 2023 22:16

امسال ایران نے امریکی یوم آزادی پر نئے عالمی نظام کی پیدائش کا جشن منایا ہے، امریکی میڈیا

امسال ایران نے امریکی یوم آزادی پر نئے عالمی نظام کی پیدائش کا جشن منایا ہے، امریکی میڈیا
اسلام ٹائمز۔ امریکی کانگریس کے قریبی مجلے دی ہل نے عین امریکی یوم آزادی کے موقع پر "شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت'' کو ''عالمی نظام کی تبدیلی'' اور ''کثیر قطبی دنیا کی جانب اولین قدم'' کے حوالے سے ''ایران کے جشن'' کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ دی ہل نے لکھا ہے کہ 4 جولائی کے روز، عین اسی وقت کہ جب امریکہ اپنی 247ویں سالگرہ میں مصروف تھا، ایران اس نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی پیدائش کا جشن منا رہا تھا کہ جو عنقریب ہی  موجودہ یک قطبی نظام کی جگہ لے لے گا! ہل نے لکھا کہ جیسا اسپتنک نیوز ایجنسی کے شعبہ فارسی کا لکھنا تھا؛ عین امریکی یوم آزادی کے روز شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت کا اعلان حادثاتی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوا! امریکی ای مجلے نے یاد دہانی کروائی کہ ایران 4 جولائی کے روز ہی، چین کی قیادت میں، اس اہم سکیورٹی و اقتصادی بلاک کا مستقل نواں رکن بنا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق گذشتہ برسوں کے دوران چین، روس و ایران نے مغرب کی مخالفت میں ایک سیاسی، سکیورٹی و فوجی اتحاد تشکیل دیا ہے جسے ٹرپل الائنس کہا جاتا ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اس گروپ کی پوزیشن کو مزید بہتر بنائے گی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین، اس سہ فریقی بلاک کا اقتصادی پاور ہاؤس ہونے کے ناطے ایرانی تیل کو 25 فیصد تک کی رعایتی قیمت پر ''غیرقانونی طور پر'' خرید کر پابندیوں کا شکار اسلامی جمہوریہ ایران کی معیشت کو ''مضبوط'' بنا رہا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت کے باعث اب عالمی معاملات میں ایران کی اقتصادی و سفارتی تنہائی کم، ایران کے خلاف امریکی پابندیاں غير موثر اور ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی واشنگٹن کی پالیسی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

امریکی مصنف نے مزید لکھا کہ ''شنگھائی تعاون تنظیم'' پابندیوں کا شکار دونوں ممالک؛ ایران و روس کے لئے ایک دوسرے کی حمایت کا ایک "اہم وسیلہ" ہے جبکہ یہ (شنگھائی تعاون تنظیم) ایران و روس کو مغربی پابندیوں کے نتائج کو بھی کم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جیسا کہ 24 فروری 2022ء کے روز یوکرائن پر روسی حملے کے بعد سے ایران و روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہل نے لکھا کہ ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت نے چین کی قیادت میں چلنے والے اس بلاک کو امریکہ کے لئے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کا ایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے جبکہ اس وقت پورے کا پورا جیوپولیٹیکل منظر ہی چین کے حق میں بدل رہا ہے اور امریکہ کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اس عمل کو روکنے یا اسے سست کرنے کے لئے مزید جامع حکمت عملی کی تلاش کرے۔ ہل کے مطابق، چین کا مقابلہ کرنے کے لئے واشنگٹن کو اپنی مختلف ڈیٹرنس صلاحیتوں کو مضبوط کرنا چاہیئے کیونکہ ''یوکرائن پر قبضے'' کی چینی خواہش و صلاحیت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اس کالم میں دعوی کیا گیا ہے کہ مشرق وسطی میں چین کی پالیسی؛ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات سمیت خلیج تعاون کونسل کے اراکین کو امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکتداری قائم رکھتے ہوئے روس-چین بلاک میں آ شامل ہونے پر ترغیب دینا ہے۔ اس کالم کے مطابق سال 2022ء کے اواخر میں چین و خلیج تعاون کونسل کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات ایک تاریخی سنگ میل اور امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اپنے مقالے کے آخر میں امریکی مصنف نے تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو اس بات کا یقین دلوانے کی ضرورت ہے کہ واشنگٹن خطے کو چھوڑنے اور ''خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے اپنے 50 سالہ عزم سے پیچھے ہٹنے'' والا نہیں ہے۔

واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد سال 2001ء میں روس و چین نے رکھی تھی جو اس وقت یوریشیا کے پورے خطے میں ایک موثر سیاسی و اقتصادی گروپ میں بدل چکی ہے اور اس کے اراکین میں چین و روس کے ساتھ ساتھ پاکستان، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان، بھارت اور ایران شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1069434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش