0
Friday 17 Feb 2012 18:05
خودکش حملے کے خدشات پر مبنی اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے باوجود حکام کی چشم پوشی

پاراچنار، خودکش حملہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 28 ہو گئی

پاراچنار، خودکش حملہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 28 ہو گئی
اسلام ٹائمز۔ اسلام ٹائمز کی خدشات پر مبنی رپورٹ پر حکام کی چشم پوشی، جمعتہ المبارک کے مبارک دن پاراچنار شہر میں بدنام دہشتگرد طالبان اور ان کے سرپرستوں کی طرف سے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ پاراچنار شہر کے کرمی بازار میں خودکش حملے میں 28 افراد شہید جبکہ کئی زخمی ہو گئے۔ عوامی و سماجی حلقوں اور طوری بنگش قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار سالوں میں پاراچنار شہر اور گردونواح کی سکیورٹی جب طوری و بنگش اہل تشیع رضا کاروں کے حوالے تھی تو کوئی خودکش حملہ یا دھماکہ نہیں ہوا لیکن چار ماہ پہلے پاراچنار کی سیکورٹی رضا کاروں سے لے کر سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دی گئی، جگہ جگہ ناکے اور چیک پوسٹس قائم کی گئیں، ان تمام اقدامات کے باوجود اس طرح کا واقعہ شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں پاراچنار شہر میں طالبان نواز بےدخل مقامی افراد کو کرمی بازار میں واقع فاروقیہ ہوٹل میں سرکاری سرپرستی میں ٹھرایا گیا تاکہ انہیں دوبارہ پاراچنار شہر میں آباد کیا جائے، یہ واقعہ انہی کے نتیجے میں رونما ہوا۔

پارا چنار میں اسلام ٹائمز کے نامہ نگار کے مطابق، ایک طرف خودکش حملہ اور دوسری طرف سیکیورٹی فورسز کی جانب بھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پانچ سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ پارا چنار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ریاستی دہشت گردی کی اس سے بدترین مثال اور کہیں نہیں ملتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز خودکش حملہ آور کو روکنے کی بجائے مظلوم عوام پر فائرنگ کر رہی تھیں، جو ظلم و جبر کی انتہا ہے۔ 

13 فروری کو اسلام ٹائمز کی طرف لگائی گئی رپورٹ قارئین کے استفادہ کے لئے دوباہ ساتھ لگائی جا رہی ہے اس رپورٹ میں اس ممکنہ حملے کا خدشہ بیان کیا گیا تھا: 

اسلام ٹائمز۔ پاراچنار شہر میں چار سال تک طوری بنگش اہل تشیع رضاکاروں کی سکیورٹی اور چیک پوسٹوں پر تعیناتی میں کوئی خودکش حملہ نہیں ہوا اور اب فوج کی تعیناتی کے فوراً بعد خودکش حملے کی اطلاع، دال میں کچھ کالا ہونے کے مترادف ہے۔ جنت نظیر وادی پاراچنار کے باسی اپنے علاقے کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں دوسرا وزیرستان بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق حساس اداروں نے پولٹیکل ایجنٹ آفس میں بھیجی جانے والی اپنی ایک رپورٹ بھیجی، جس میں آنے والے چند دنوں میں پاراچنار شہر یا اس کے مضافات میں اہل تشیع کو نشانہ بنانے کے لئے خودکش حملہ یا بڑی تخریبی کارروائی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس  کے بعد اہلیان پاراچنار، طوری بنگش اہل تشیع قبائلی مشران، علمائے کرام عوامی و سماجی اور سیاسی تنظیموں کے نمائندوں نے اس رپورٹ کو پاراچنار کے عوام کے خلاف ایک نئی سازش اور ریاستی دہشت گردی سے تشبیہ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چار سال کے دوران جب پاراچنار شہر اور گردونواح کی سکیورٹی طوری بنگش اہل تشیع رضا کاروں کے ہاتھ میں تھی تو مثالی امن کے علاوہ عوام، حکومت اور سکیورٹی فورسز سب امن میں تھیں اور گذشتہ چار سال کے دوران کوئی بھی خودکش حملہ نہیں ہوا۔ اب جبکہ پاراچنار شہر اور گردونواح میں سکیورٹی فورسز نے سنبھال لی ہے اور شہر فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوا ہے ایسے میں انٹیلی جنس اداروں کا پاراچنار شہر میں ممکنہ خودکش حملے کی پیشن گوئی اور رپورٹ مضحکہ خیز ہے۔

اہلیان پاراچنار، طوری و بنگش اہل تشیع قبائلی مشران، علمائے کرام عوامی و سماجی اور سیاسی تنظیموں کے نمائندوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ دراصل خودکش حملے ان ہی حساس اداروں اور سکیورٹی فورسز کا ایک کھیل ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاراچنار شہر میں چار سال تک طوری بنگش اہل تشیع رضاکاروں کی سکیورٹی اور چیک پوسٹوں پر تعیناتی میں کوئی خودکش حملہ نہیں ہوا اور اب فوج کی تعیناتی کے فوراً بعد خودکش حملے کی اطلاعات ہیں۔ جنت نظیر وادی پاراچنار کے باسی اپنے علاقے کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں دوسرا وزیرستان بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔ اسلئے جس طرح حساس اداروں نے ممکنہ خودکش حملے کی اطلاع دی ہے اسی طرح اسے روک بھی سکتی ہے وگرنہ خودکش حملے کی صورت میں حالات کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 138485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش