0
Sunday 15 Apr 2012 20:19

فرقہ وارانہ بنیاد پر ملک توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین

فرقہ وارانہ بنیاد پر ملک توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین
اسلام ٹائمز۔ اس وقت مملکت خداداد پاکستان بہت سے داخلی اور خارجی مشکلات مسائل اور بحرانوں سے نبرد آزما ہے اور پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ کہیں نسلی بنیاد پر تقسیم کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کہیں لسانی بنیادوں پر اور کہیں فرقہ وارانہ بنیاد پر ملک توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں شیخ حافظ حسین نوری، آغا کاشانی (وارث شہید روح اللہ)، عبدالکریم قاسمی، فدا حسین ترجمان ایم ڈبلیو ایم بلتستان اور آغا نوری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں اور شخصیات پر بھی حملے ہوئے اور ہو رہے ہیں، پاکستان کا پانچواں صوبہ اللہ کے فضل و کرم سے اس قسم کے بحرانوں سے پاک تھا، لیکن حالیہ سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دہشتگردوں نے اس علاقے میں بھی پاؤں جما لئے ہیں اور اس حساس سرحدی، سیاحتی اور قدرتی ذخائر سے مالا مال علاقے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے درج ذیل عزائم ہو سکتے ہیں:
1۔ شاہراہ ریشم کو غیر محفوظ بنا کر پاک چین روابط کو سبوتاژ کرنا۔ جس طرح بلوچستان میں ہوا، سانحہ کوہستان میں نام نہاد تنظیم جنداللہ نے ذمہ داری قبول کرکے بتا دیا ہے کہ دہشتگرد ادھر منتقل ہوئے ہیں۔
2۔ پاکستان کے سب سے اہم سیاحتی علاقے کو ناامن بنا کر پاکستان کے زرمبادلہ کمانے کے اہم ذریعے کو ختم کرنا۔
3۔ علاقہ کو ناامن بنا کر یہاں بننے والے ڈیموں کی تعمیرات کا راستہ روکنا، تاکہ وطن عزیز کے مستقبل کو تاریک بنایا جائے۔
4۔ مسلسل دہشتگردی کے واقعات، راستوں کی بندش اور 15 لاکھ عوام اور محب وطن عوام کو ذرائع رسل و رسائل سے محروم کر کے احساس عدم تحفظ کا شکار بنانا اور سازشوں کے ذریعے عوام کے اندر باغیانہ جذبات پیدا کر کے گلگت بلتستان کو بنگلہ دیش بنانا۔
5۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں کامیاب ملٹری آپریشن کے بعد فرار ہونے والے دہشتگردوں، ملک دشمن عناصر اور بھارت ایجنسی (را) کے ایجنٹوں کے لیے گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلے کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا۔
6۔ پاکستان کے حساس ترین علاقے دنیا کے سیاحوں کی جنت اور قدرتی ذخائر سے مالا مال علاقے پر قبضہ کر کے طالبان طرز کی حکومت قائم کرنا۔

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان مقاصد کے تحت دہشتگردوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت گلگت بلتستان کے اکثریتی مذہبی طبقے کے لوگوں کو خاص طور سے ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کا نشانہ بنایا، غیر انسانی طریقوں سے انہیں ٹارچر دے دے کر شہید کیا، تکفیر کے نعرے لگائے، چھریوں سے بے گناہوں کو ذبح کیا، پتھروں سے ان کے سروں کو کچل دیا، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا، زیورات اور چادریں چھینی گئیں، اموال کو لوٹا گیا، شہیدوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے بے دردی سے قتل کیا گیا، بسوں کو آگ لگا دی گئی، درندگی اور بربریت کی مثال قائم کر کے ہٹلر اور چنگیز خان کو بھی مات دے دی۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے نوعمر بچوں کو بھی اس قدر ورغلایا تھا کہ ان بچوں نے شہداء کے خون کے ساتھ کھیلنا شروع کیا، بقول حفیظ الرحمان صاحب پست ترین حیوانیت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے مقابلے میں نگر اور بلتستان کے عالی ظرف اہل تشیع نے اعلٰی انسانی اصولوں کی پاسداری کا مثالی نمونہ پیش کیا۔

رہنماؤں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ اس قدر عظیم بربریت کے باوجود ابھی تک ایک دہشتگرد بھی گرفتار نہیں ہوا۔ جبکہ یہ سارا واقعہ چلاس پولیس کے سامنے رونما ہوا ہے اور وہاں کی پولیس ان دہشتگردوں کے ہر ایک فرد کو مکمل طور پر جانتی ہے۔ وہاں کی پولیس نے عمداً گھنٹوں تک ان بسوں کو روکے رکھا اور دہشتگردوں کو پوری طرح جمع ہو کر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ابھی تک نہ صرف فوج خاموش تماشائی بلکہ پوری حکومت بے بسی کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ سانحہ کوہستان کے دہشتگرد فوجی وردی میں کارروائی کر کے چلے گئے۔ شمالی علاقے کی صحافت نے کافی حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ظلم و بربریت کے خلاف مظلوموں کا ساتھ دیا ہے، لیکن ملکی سطح پر الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے اس عظیم سانحے کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی، جو ان کے باطل نوازی اور پاکستان دشمن دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی کا ثبوت ہے۔

رہنماؤں نے حکومت سے مطالبات کئے جو درج ذیل ہیں:
*ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستانی عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر ملک میں انارکی پھیلانے اور ملک توڑنے والوں کے عزائم کو ناکام بنائیں۔
*ہم پاکستانی میڈیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ سانحہ کوہستان اور چلاس کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرے اور دہشتگردوں کے عزائم کا پردہ چاک کرے۔
*ہم سول حکومت کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ چند دنوں کے اندر تحقیقی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرکے دہشتگردوں کو گرفتار کرے اور سخت ترین کارروائی کرے۔
*ہم فوج کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ چلاس میں فی الفور سوات اور وانا آپریشن کی طرز کا فوجی آپریشن کر کے پاکستان اور فوج کے دشمنوں کا صفایا کرے اور شاہراہ ریشم کو اپنی تحویل میں لے کر امن قائم کرے۔
*ہم صدر پاکستان اور وزیراعظم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ خاموش تماشائی بن کر گلگت بلتستان کے عوام کو حکومت سے مزید متنفر نہ بنائیں اور اس علاقے کا فوری دورہ کر کے اصلاح احوال کی کوشش کریں۔
*ہم ارباب اقتدار، فوج، عدلیہ اور پاکستان کے محب وطن عوام کو یہ حقیقت بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر بروقت ملٹری آپریشن کر کے ننگ انسانیت، ملک دشمن عناصر کو لگام نہ دیا گیا، ان کی سرکوبی نہیں کی گئی تو را کے یہ ایجنٹ مرحلہ وار آپ کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنائیں گے اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔
*ہم عدلیہ سے یہ سوال کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ آپ انفرادی چھوٹے چھوٹے مسائل اور کسی پر ایک تھپڑ لگنے پر سوموٹو ایکشن لیتے ہیں جبکہ ملکی سلامتی کو للکارنے والی دہشتگردی، تاریخ کی بدترین بہیمیت، حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی اور درجنوں انسانوں کے سفاکانہ قتل کے حوالے سے چپ سادھ لیتے ہیں؛ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ارض شمال کے باسی آپ کی نگاہوں میں انسان نہیں یا آپ ان دہشتگردوں سے مرعوب اور خوف زدہ ہیں؟ اور یا ان کے ہم خیال ہیں؟
* 6 اپریل کی رات مرکزی امامیہ جامع مسجد سکردو کے دھرنا ختم کر کے واپس جانے والے نہتے جوانوں پر مرکز اہلحدیث کے قریب فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں اور اس فائرنگ میں ملوث ذمہ دار افراد کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کرتے ہوئے قرار واقعی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔
*ہم کوئٹہ میں نو سے زائد مومنین کی المناک شہادت پر بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت کی خاموشی اور آئے روز مومنین کی تسلسل کے ساتھ شہادتوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر کی طرح کوئٹہ میں جاری منظم شیعہ نسل کشی کی روک تھام کے لیے عملی اقدام کیا جائے۔
* ہم ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا اصل سبب تکفیری ملاؤں کو قرار دیتے ہیں، جو ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے نام نہاد مفتیوں کو لگام دیں اور ملک بھر میں جاری تکفیری سلسلوں کو روکیں۔
* ہم ہفت روزہ سیاچن میں ابراہیم خلیل کے افسوسناک بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس میں انہوں نے بلتستان کو اہلسنت کے لیے غیر محفوظ قرار دے کر فرقہ واریت کو ہوا دی۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قانونی طور پر ایسے بیانات کے خلاف کارروائی کریں جو کہ سانحہ کوہستان اور چلاس جیسے غیر انسانی اور شرمناک واقعات کا سبب بن جائے۔
*ہم مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دیئے گئے کامیاب دھرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ مقررہ تاریخ تک مطالبات پورے نہ ہوئے تو ایم ڈبلیو ایم مرکز کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے ہوئے بلتستان بھر میں احتجاجی پروگرام شروع کریں گے۔
*ہم گیاری میں پاک فوج کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان پر دل کی گہرائیوں سے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اس سانحہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعاگو ہیں ہمارے جوانان سلامتی کے ساتھ بازیاب ہوجائیں۔
خبر کا کوڈ : 153555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش