0
Wednesday 2 May 2012 08:15

شیعہ ہزارہ کا لاہور میں احتجاج، دہشتگردوں کیخلاف کریک ڈاون اور فوج سے تحفظ کی اپیل

شیعہ ہزارہ کا لاہور میں احتجاج، دہشتگردوں کیخلاف کریک ڈاون اور فوج سے تحفظ کی اپیل

رپورٹ: نذیر علی ناظر 

اس وقت شام ہونے کو تھی شملہ پہاڑی چوک میں واقع لاہور پریس کلب کے سبزہ زار میں بیٹھا خبر بنانے میں مصروف تھا کہ ٹریفک کے شور شرابے کے ساتھ ۔۔۔ ہمیں انصاف دو، ہزارہ قوم کا قتل عام بند کرو، فرقہ واریت مردہ باد، دہشتگردی مردہ باد ۔۔۔۔ کے نعروں کی آواز میرے کانوں میں پڑی تو صحافی ہونے کے ناطے خبر کی تلاش میں جنگلے کے پار دیکھا تو ایک مظاہرہ جاری تھا۔ مظاہرین کی شکلیں دیکھ کر انداز ہ ہوا کہ یہ لوگ ہزارہ قبیلے کے ہیں، جو کوئٹہ سے لاہور مظاہرہ کرنے آئے ہیں۔ 

خبر کی تلاش میں فوری اپنا سامان سمیٹا اور پریس کلب کے باہر سست روی سے چلتی ٹریفک میں سے ہوتا ہوا۔ مظاہرین کے پاس پہنچا، جنہوں نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ ان میں کچھ بچے بھی تھے اور خواتین بھی۔ ہزارہ خواتین نے اپنے سر اسکارف سے ڈھانپ رکھے تھے اور مکمل اسلامی حجاب میں تھیں، لیکن کچھ مجھے ننگے سر بھی نظر آئیں۔ جو ماڈرن لگ رہی تھیں اور وہ ہزارہ پر ہونے والے مظالم اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف انگریزی اور اردو میں پمفلٹ تقسیم کر رہی تھیں۔ 

سڑک کنارے کھڑے ان مظاہرین کی میں نے تصاویر بنائیں۔ اور اس کے بعد ایک نوجوان سے میں نے پوچھا کہ آپ میں سے لیڈر کون ہے، جس سے مظاہرے کے حوالے سے بات چیت ہو سکے۔ تاکہ میں اپنی خبر مکمل کر سکوں تو وہ نسبتاً پیچھے تیسرے رو میں کھڑے باریش نوجوان کے پاس لے گئے۔ ان سے بات چیت کا آغاز ہوا اور میں نے اپنا تعارف کروایا، بات شروع ہوئی۔ انہوں نے اپنا نام صحیح بتانے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف کوئٹہ سے باہر احتجاج کے لئے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ لاہور میں کوئی تین ہفتے سے موجود ہیں۔ وہ پہلے لبرٹی چوک میں احتجاج کرتے رہے ہیں، لیکن میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی۔ 

اس ہزارہ لیڈر نے اپنا فرضی نام احمد علی ہزارہ بتایا اور میں نے ان سے بات چیت شروع کی۔ احمد علی ہزارہ نے کہا کہ 70 کی دہائی میں افغانستان اور ایران میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ امریکہ کے مفادات اس خطے میں زیادہ ہوئے اور مذہبی جنونیت کو ابھار کر جہاد افغانستان کے لئے لوگوں کو تیار کیا گیا۔ پھر انقلاب اسلامی ایران کا راستہ روکنے کے لئے انتہا پسند تنظیموں کو تیار کیا گیا، جنہوں نے پاکستان میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا۔ 2000ء کے بعد سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں ان 12 سالوں میں 700 ہزارہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا۔
 
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 95 فیصد شرح خواندگی ہزارہ قبیلے میں ہے اور زیادہ تر لوگ کاروباری یا نوکری پیشہ ہیں۔ لیکن ظالموں نے ہزارہ قوم کے نوجوانوں، بچوں اور عورتوں کو بلا دریغ قتل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ایجنسیوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ہزارہ رہنما نے بلوچ رہنما اختر مینگل کے موقف سے اتفاق کیا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک سے توجہ ہٹانے کے لئے ٹارگٹ کلنگ شروع کروائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قبائلیوں کے درمیان لڑائی اور قتل وغارت جاری رہتی ہے اور 150 سال سے ہزارہ بلوچوں اور پختونوں کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن کسی قسم کے لڑائی جھگڑ ے نہیں ہوئے، اور فرقہ پرستی ہمیشہ دب کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے شروع ہونے والا ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو پایا۔ 

بلوچستان کی بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے پو چھے گئے سوال کے جواب میں احمد علی ہزارہ نے مطالبہ کیا کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہیں تو حکومت کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ قبیلے میں 95 فیصد شیعہ اور 5 فیصد سنی ہیں، لیکن سب پڑھے لکھے ہیں۔ ملازمت پیشہ یا کاروباری ہیں۔ ہزارہ رہنما کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے کے لئے کریک ڈاون کیا جائے۔ پولیس اور ایف سی ناکام ہو چکی ہیں۔ ہزارہ کی حفاظت کے لئے فوج تعینات کی جائے۔ انہیں افواج پاکستان پر اعتماد ہے۔ 

احمد علی ہزار نے بتایا کہ صدر مملکت، وزیراعظم، وزیر داخلہ، چیف آف آرمی سٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سب کو درخواستیں دے چکے ہیں۔ کہیں کوئی شنوائی ہوئی اور نہ ٹارگٹ کلنگ میں کوئی وقفہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ عدم تحفظ کے باعث ہزار ہ قبیلے کے افراد بیرون ممالک نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی عدم توجہی کے باعث وہ مایوسی کی طرف جا رہے ہیں۔ اور انہیں کوئی حل نظر نہیں آتا کہ ہزارہ قوم کو تحفظ کیسے ملے گا۔ 
احمد علی کا کہنا تھا کہ تھا کہ بلوچستان میں مذہبی جماعتیں اتنا اثر و رسوخ نہیں رکھتیں۔ وہاں عوام زیادہ تر قبیلوں میں تقسیم ہیں۔ انہوں نے اتفاق نہیں کیا کہ کوئٹہ میں ہزارہ خود کو سیکولر کہیں یا نہ کہیں ان کا قتل شیعہ ہونے کی وجہ ہی سے ہو رہا ہے۔

احمد علی سے محو گفتگو ہی تھا کہ مظاہرے کی آرگنائزر اور ہزارہ مظاہرین کی میزبان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ سیکولر سٹڈیز کی سربراہ سیدہ دیپ وہاں آگئیں۔ انہوں نے بتایا کہ پریس کلب کے باہر ان کا پہلا لیکن لاہور میں چوتھا مظاہرہ ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ میڈیا اور ارباب اختیار ہزارہ قوم کے قتل عام کی طرف متوجہ ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ قبیلے میں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے، اور اسی وجہ سے لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی اس خاتون رہنما نے استفسار کیا کہ کشمیر اور فلسطین میں قتل ہونے پر تو امت مسلمہ احتجاج کرتی ہے مگر انہیں کوئٹہ میں ہونے والی قتل و غارت نظر کیوں نہیں آتی۔
پھر مظاہرین نے پریس کلب کے گرد شملہ پہاڑی کا چکر لگایا اور احتجاج ریکارڈ کروایا، انہوں نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

خبر کا کوڈ : 158233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش