0
Friday 29 Jan 2010 15:11

کوئی سمجھتا ہے کہ صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں تو وہ عدالت سے تشریح کرا لے،وزیراعظم گیلانی

کوئی سمجھتا ہے کہ صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت  استثنیٰ حاصل نہیں تو وہ عدالت سے تشریح کرا لے،وزیراعظم گیلانی
اسلام آباد:وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ فوج اور ججز کا احتساب پارلیمنٹ نہیں کر سکتی،ان کا اپنا طریقہ کار ہے،ہم سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے،پارلیمنٹ کسی ادارے میں مداخلت نہیں کرتی تو کوئی ادارہ بھی پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے،میں نے پارلیمنٹ کے حقوق کے دفاع کا حلف لیا ہے،ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کی حفاظت کریں گے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی جانب سے ان کے گذشتہ روز کے ایوان سے خطاب کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کریں گے،آرٹیکل 248 کی تشریح کر کے مجھے بتایا جائے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے اگر کسی کو اعتراض ہے کہ صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں ہے تو وہ عدالت میں جائے اور مقدمہ دائر کرے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے مگر وزیراعظم اس پر عمل نہیں کر رہے،وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے فیصلہ لے آئیں۔اس حوالے سے عدالت جو وضاحت کرے گی اس پر عمل کریں گے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا بیان خوش آئند ہے کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیں گے،میں ان کے ا س بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے جو چیزیں تشریح طلب ہیں سپریم کورٹ ان کی تشریح کر دے،سپریم کورٹ کے فیصلے پر آئین اور قانون کے تحت عمل کریں گے۔ ”یہ موج ہے دریا میں اور بیرون دیا کچھ بھی نہیں“ صدر کو استثنیٰ آئین اور قانون کے تحت حاصل ہے اسے میں ختم نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا ہے کہ سابق اٹارنی جنرل میری جماعت سے ہیں نہ حزب اختلاف سے،سابق اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی ہے جب تک اٹارنی جنرل کی نظرثانی کورٹ میں ہے میں کیسے کارروائی کر سکتا ہوں؟ عدلیہ کا احتساب کا اپنا علیحدہ طریقہ ہے،ہمارے احتساب کے لئے لیڈر آف دی اپوزیشن ہی کافی ہیں،ججوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں،فوج کے احتساب کا اپنا طریقہ کار کورٹ مارشل ہے،عدلیہ کا احتساب پارلیمنٹ نہیں کر سکتی نہ ہی پارلیمنٹ کورٹ مارشل کر سکتی ہے کیونکہ ہم ان کے ”ڈومین“ میں مداخلت نہیں کر سکتے،پارلیمنٹ کے ارکان کے حقوق کا تحفظ میری ذمہ داری ہے،ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کرے،کیا میں اپنی کلاس کے حقوق کی بات نہیں کروں گا،میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے آج کے تبصرے کو سراہتا ہوں،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈومین میں بھی کوئی مداخلت نہ کرے۔ آٹھ ہزار 34 میں سے صرف ایک کیس ڈسکس ہوتا ہے،یہاں صرف صدر کے کیسز کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ یہ کوئی چاہتا ہے کہ میں صدر سے کہوں کہ وہ ہٹ جائیں،انہیں ہٹانے کا آئینی طریقہ موجود ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے کنٹریکٹ ملازمین مستقل کئے ہیں،قومی اسمبلی کے ملازمین اور ڈاکٹر بھی مستقل کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ فوج کے ادارے کا احتساب ان کی اپنی عدالتیں کرتی ہیں جبکہ عدلیہ کے اس نظام میں مداخلت نہیں کر سکتے جبکہ ہمارے معاملے میں سب سے پہلے پبلک اکاونٹس کمیٹی پھر احتساب عدالتیں اس کے بعد پتہ نہیں کون کون سی عدالتیں ہیں جو ہمارے خلاف ٹرائل کرتی ہیں،میں بھی پارلیمنٹ کا رکن ہوں اور اپنی کلاس کے حقوق کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری ہے،میں پارلیمنٹ کا محافظ ہوں،میں یہ چاہتا ہوں کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے اور جب ہم کسی دوسرے ادارے کے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کرتے تو کسی اور ادارے کو بھی چاہئے کہ وہ ہمارے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔عدالت کے فیصلے کے بعض نکات وضاحت طلب ہیں جب ان کی وضاحت آ جائے گی تو ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔آج ہر طرف ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے۔یہ سوال تو تب پیدا ہونا چاہئے تھا کہ اگر میں کہتا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کریں گے،کچھ لوگ یہ کہتے ہیں میں یہ کہوں صدر کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے تو یہ ان کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گا۔ساری بحث ایک شخص صدر زرداری پر آ کر ہی کیوں رک گئی ہے،این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں 8400 سے زیادہ افراد بھی شامل ہیں۔باقی لوگوں کی چھوڑ کر صرف صدر کی ہی بات کیوں کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جہاں کہیں تناو ہے اسے کم کرنا چاہئے اور اس کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ 
بھارتی ٹی وی سے انٹرویو میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان اور بھارت جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے،دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں،پاکستان بھی ممبئی جیسے دہشت گردی کے حملوں سے متاثر ہے،مذاکرات ایک واقعہ کی وجہ سے بند نہیں ہو سکتے،انہیں مذاکرات کرنا ہوں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی بڑھنے میں ملوث نہیں۔حافظ سعید کے خلاف عدالتی کارروائی کے لئے مزید معلومات کی ضرورت ہے،پاکستان اور بھارت کو آئی پی ایل کو بھول کر آگے بڑھنا چاہئے،عالمی کپ میں شرکت کے لئے پاکستان کی ہاکی ٹیم بھارت بھیجنے کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوا۔
خبر کا کوڈ : 19473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش