0
Saturday 20 Oct 2012 00:55

پنجاب یونیورسٹی کو فسادات کی آگ سے بچایا جائے

پنجاب یونیورسٹی کو فسادات کی آگ سے بچایا جائے
لاہور سے نمائندہ اسلام ٹائمز کی رپورٹ
اسلام ٹائمز۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک لمبے عرصے سے اسلامی جمعیت طلبہ قابض ہے۔ پنجاب یونیورسٹی ویسے تو سرکاری مادر علمی ہے لیکن اگر پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ جماعت اسلامی کا کوئی مرکز یا منصورہ کا سب آفس ہے۔ یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی آشیر باد سے سرگرم عمل جمعیت ویسے سے اسلامی ہے لیکن اس کے رویے اور جارحانہ انداز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اسلام سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام برداشت کا دین ہے لیکن جمعیت میں برداشت نام کی کوئی شئے ہے ہی نہیں۔

ایام محرم میں پنجاب یونیورسٹی کے شیعہ طلبہ نے یوم حسین (ع) منانے کا اعلان کیا تو جمعیت نے نہ صرف یوم حسین (ع)کے پوسٹر پھاڑ کر نام حسین(ع) کی توہین کی بلکہ یوم حسین (ع) کا اہتمام کرنے والے شیعہ طلبہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد جمعیت کو تو جیسے پر لگ گئے ہوں۔ جمعیت کے ہی سابق کارکنوں نے اپنے ہی ایک ساتھی کو قتل کر دیا۔ اویس عقیل نامی طالب علم کو سابق ناظم جامعہ نے کنٹین پر گولی مار دی تھی۔ مقدمہ میں بھی ملزم کو نامزد کیا گیا ہے۔ جمعیت نے الزام عائد کر دیا کہ قاتلوں کی پشت پناہی یونیورسٹی انتظامیہ کر رہی ہے جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جمعیت کے باہمی اختلافات سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا لینا دینا۔

اویس عقیل کے قتل کے بعد تو جیسے پنجاب یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو کسی کی نظر ہی لگ گئی ہو۔ آئے روز جمعیت مظاہرہ کرتی اور یہاں تک گئی کہ اساتذہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور جو اولاد اپنے باپ کی قدر نہیں کرتی اس کے مستقبل کی پیش گوئی کوئی بھی کر سکتا ہے کہ وہ فارغ التحصیل ہو کر چور ڈاکو ہی بنتے ہیں۔ خیر جمعیت کی ایک اور ’’اچھائی‘‘ یہ ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کی حدود میں اپنے علاوہ کسی کا اجتماع برداشت نہیں کر سکتے۔ اور تو اور اگر چار سے پانچ طالب علم مل کر کھڑے ہوئے جائیں تو جمعیت والوں کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے اور انہیں زبردستی منتشر کر دیا جاتا ہے۔

گزشتہ روز یونیورسٹی میں جو سانحہ ہوا وہ براہ راست ملکی سلامتی پر حملے کے مترادف ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں دوسرے صوبوں کے لئے وزیراعلیٰ پبجاب نے خصوصی کوٹہ رکھا ہے۔ یہاں پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے طلبہ کو بھی داخلہ دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز پشتون طلبہ نے اپنے بلوچ بھائیوں کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی کا اہتمام کیا۔ دونوں طبقے چونکہ دوسروں صوبوں سے تھے اور ان کی اس ٹی پارٹی کا مقصد باہمی تعلقات کو فروغ دینا تھا مگر جمعیت کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ ان کی ملکیت یونیورسٹی میں کوئی اپنا چھوٹا سا اجتماع کر لیتا۔

جمعیت کے کارکن لاٹھیاں اور ڈنڈے لے کر ہوسٹل نمبر ایک میں پشتوں طلبہ کی پارٹی پر بل پڑے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ پارٹی کے مہمان بلوچ بھی جمعیت کے تشدد سے محفوظ نہ رہ سکے اور بہت سے طالب علم زخمی بھی ہو گئے۔ جمعیت کی اس غنڈہ گردی کا دونوں صوبوں میں کیا تاثر لیا گیا اس کے تنائج تو بعد میں سامنے آئیں گے لیکن پنجاب مفت میں بدنام ہو گیا۔ سابق وزیراعظم ظفرخان جمالی نے بھی بلوچ طلبہ پر تشدد کی مذمت کی ہے اور وائس چانسلر کو خصوصی طور پر کہا ہے کہ جمعیت کے غنڈوں کو لگام دی جائے۔

جمعیت کے حملے کے بعد یونیورسٹی کا ماحول کافی کشیدہ ہے۔ جمعیت والوں نے نہ صرف مہمان طلبہ پرتشدد کیا بلکہ ان کے کمروں کو بھی آگ لگا دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یونیورسٹی کے سٹیٹ افسر کو بھی پیٹ ڈالا۔ بلوچ اور پشون طلبہ نے احتجاج یونیورسٹی روڈ بلاک کر دی۔ اس موقع پر لیاقت بلوچ حسب روایت یونیورسٹی پہنچ گئے اور انہیں صلح کروانے کے لئے اپنے ساتھ اپنے گھر واقع مسلم ٹاؤن لے گئے۔ بلوچ اور پختون طلبہ وہاں سے واپس آئے تو جمعیت والوں نے ان کے کمروں کو نذر آتش کر کے ان کے سامان کو راکھ میں تبدیل کر دیا تھا۔

پشتون اور بلوچ طلبہ اس کشیدگی کی وجہ سے اپنے ہاسٹلوں سے باہر ہیں۔ نجانے لاہور جیسے شہر میں وہ کہاں اور کیسے اپنی راتیں گزار رہے ہوں گے۔ ایک پختون طالبعلم نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کلاشنگوف ہم سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتے لیکن ہم یہاں لڑنے نہیں پڑھنے آئے ہیں لہذا ہمیں پڑھنے دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم لڑنے پر آ گئے تو جمعیت والے یونیورسٹی تو کیا منصورہ سے بھی فرار ہو جائیں گے اور انہیں کہیں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ طالبعلم نے کہا کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن جمعیت والے اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کی ذیلی برانچ تو ہے نہیں، اس لئے جماعت اسلامی اور جمعیت والوں کو اپنے ذہن سے یہ بات نکال دینی چاہیے کہ یہ ان کے باپ کی جاگیر ہے۔ یہ مادر علمی ہے تمام طالب علموں کے لئے جو جہاں سے بھی آئے ہیں خواہ وہ پختون ہیں یا بلوچ، سندھی ہیں یا پنجابی، یہ مادر علمی سب کی سانجھی ہے۔ اس میں اجارہ داری یا غنڈہ گردی جہاں یونیورسٹی کے پرامن ماحول کے لئے خطرناک ہے وہاں اس کے شعلے اگر یونیورسٹی کی حدود سے باہر نکل آئے تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، جماعت اسلامی اور جمعیت کے ذمہ داروں کے اس حساس موضوع پر غور کرنا چاہیے۔ جمعیت کے اس رویے سے صوبوں میں کدورتیں جنم لیں یہ کوئی بھی نہیں چاہیے گا اور جمعیت والے پشتوں اور بلوچوں کے ساتھ لڑائی کر کے انہیں ہی نہیں محب وطن پنجابیوں کو بھی اپنا مخالف بنا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 204915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش