0
Friday 26 Oct 2012 20:48

اصغر خان کیس میں شفاف تحقیقات حکومتی امتحان ہے، مولانا فضل الرحمن

اصغر خان کیس میں شفاف تحقیقات حکومتی امتحان ہے، مولانا فضل الرحمن
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے قائد اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اس پر ایف آئی اے کی تحقیقات حکومتی امتحان ہے، حکومت صاف اور شفاف تحقیقات کرا کر اپنا قد اور وقار بڑھا بھی سکتی ہے اور اس اہم کیس کی متنازعہ تحقیقات کی وجہ سے حکومتی وقار کو دھچکا بھی لگ سکتا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کیس حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے۔ وہ جمعیت علماء اسلام سندھ کے سیکرٹری اطلاعات محمد اسلم غوری کی رہائش گاہ پر ان کی والدہ کی تعزیت کے موقع پر بات چیت کر رہے تھے۔ اس موقع پر قاری محمد عثمان اور مولانا سلیم اللہ ترکی بھی موجود تھے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے مذہبی سیاسی قوتوں کا ووٹ بنک تقسیم ہونے سے بچ گیا ہے اور اس طرح سے آئندہ انتخابات میں متحدہ مجلس عمل ایک قوّت کے طور پر اُبھرے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل نے اس سے قبل امریکی یلغار کے سامنے بند باندھا تھا اور وہ وقت تھا جب امریکہ 9/11 کے بعد بدمست ہاتھی کی طرح سب کو روندتا ہوا پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا یہ دینی قوتیں ہی تھیں جن کا اتحاد اس کے سامنے ڈٹ گیا۔ پورے ملک میں اُس وقت جو فرقہ واریت کی لہر پھیلی ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی۔

اُنہوں نے کہا کہ اِس وقت حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو چکے ہیں اور ایسے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیئے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان تمام حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے تمام چھوٹے بڑے اختلافات کو نظر انداز کرکے اسے بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجلس عمل کی بحالی سے پاکستانی قوم کو ان سیکولر حکمرانوں سے نجات کا راستہ ملے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پوری قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے ڈرون حملوں میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور حکمران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے معذرت خواہانہ رویّہ اپنائے ہوئے ہیں آج ڈرون حملے کرنے والوں کے ایجنٹ خود ہی ان ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں حیران کن بات ہے کہ جو احتجاج نیویارک اور لندن میں ہونا چاہیئے وہ احتجاج آج وزیرستان میں کیا جا رہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ملالہ کے واقع کو اس طرح سے اُچھالا گیا کہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھ صاف نظر آنے لگے پورے ملک میں افراتفری پھیلا دی گئی۔ میڈیا پر آکر کچھ لوگوں نے مذہبی قوتوں اور مدارس کے خلاف ایک جنگ شروع کردی۔ اُنہوں نے کہا کہ ملالہ ہماری بیٹی ہے اور سب سے پہلے ہم نے اُس کی مذمت کی تھی لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی تو ہماری بیٹی ہے اس کے معاملے پر سب کی زبانیں خاموش کیوں ہوجاتی ہیں ایک معصوم لڑکی جسے غیر منصفانہ طریقے سے جیل میں رکھا گیا ہے اور ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے اُس پر کیوں نہیں احتجاج کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ پر ہونے والا حملہ کو جو کہ حکومتی نااہلی کا ایک مُنہ بولتا ثبوت ہے وہ صرف اور صرف وزیرستان پر حملے کا جواز پیدا کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں سے مارے جانے والے عوام کی داد رسی کیا اس طرح سے کی جاتی ہے کہ اب اُن پر آپریشن نازل کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر اگر امریکی جارحیت واضع نظر آرہی ہے تو اس میں حکومتی کوششیں بھی ناکافی نظر آرہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت قوم کی بیٹی کو واپس لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 206705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش