0
Thursday 22 Nov 2012 09:54

دشمن شناسی اور مکتب قرآن!

دشمن شناسی اور مکتب قرآن!
رپورٹ: نذیر علی ناظر

اسلام ٹائمز۔ جامعہ عروة الوتقٰی لاہور کے پرنسپل معروف عالم دین حجتہ الاسلام علامہ سید جواد نقوی لاہور میں تین مقامات پر عشرہ محرم الحرام کی مجالس عزا سے خطاب کررہے ہیں۔ وہ اپنی انقلابی مجالس اور دروس کے باعث عوام میں جاذبیت پاتے جا رہے ہیں۔ گذشتہ 4 سال سے محرم الحرام اور مخصوص ایام میں مجھے ان کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے ۔ یہ غلط نہیں ہو گا کہ ان مجالس کے ذریعے وہ انقلاب کا درس اور ملی اصلاح کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ وہ درحقیقت اپنے جد امجد کے منبر کا خیال رکھتے ہوئے اور منبر رسول (ص) سے لوگوں کو گمراہی کے راستے سے نکال کر قرآن و اہل بیت (ع) کے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔ جو کہ دراصل علمائے حق کی ذمہ داری بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی ۔
 
کوئی بھی ذی شعور شک و شبے کا شکار نہیں کہ منبر حسینی سے ملی رہنمائی کا وہ حق ادا نہیں ہو رہا۔ جو آج کے دور کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ واجبات میں سے بھی۔ سنت رسول (ص) سے دور لوگ منبر رسول (ص) پر براجمان ہیں جو لوگوں کو اتحاد و وحدت کا درس دینے کی بجائے علماء حق کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ۔ لادینیت کو دین بنا کر خرافات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اجتہاد اور مجتہدین کے خلاف بھی سٹیج حسینی کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ تو اس صورتحال میں عوام کا علماء سے مربوط ہونا اور ولایت فقیہہ کے موضوع پر خطابات سننا یقینا ملکی حالات حاضرہ کے ساتھ عالمی حالات اور ایشوز شام، ترکی، ایران اور خود پاکستان میں جاری حکومت کے بارے میں دینی اور اسلامی نقطہ نظر بیان کرنا اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا علامہ جواد نقوی صاحب کا خاصہ ہے۔ وہ اپنی کم از کم دو گھنٹے کی طویل مجلس میں سامعین کو بور نہیں ہونے دیتے ۔ لطیفے بھی سنا دیتے ہیں تو حالات حاضرہ کے تحت ایران کی اسلامی حکومت کے اقدامات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔

تنظیم غلامان آل عمران لاہور کے زیر اہتمام العمران کمیونٹی سنٹر فیصل ٹاﺅن لاہور میں ہونے والی مجالس میں علامہ جواد نقوی نے جو اسلوب اور موضوع اختیار کیا ہے، قابل تعریف ہے۔ اللہ کرے کہ باقی علما بھی یہی طریقہ کار اختیار کریں تو ملت جہالت کی گھٹاوں سے نکل جائے گی۔ 

انسان دشمن دار:
ایک مجلس عزا کا حال کچھ یوں ہے جو میں نے سنا تھا کہ جواد نقوی صاحب نے کہا کہ خدا نے انسان کو دنیا میں پیدا کیا تو ساتھ دشمن بھی شیطان کی صورت میں پیدا کر دیا۔ پھر اسے بتا دیا اور رہنمائی کی کہ دشمن کو پہچانوں اور اس کا مقابلہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے انسان کو دشمن دار پیدا کیا ہے مگر یہ پہچانتا نہیں کہ شیطان اس کا دشمن ہے اور اس کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کم و بیش 1500 آیات کریمہ قرآن مجید میں دشمن شناسی پر تاکید کرتی ہیں۔ 

قرآنی آیات کی تعداد:
علامہ جواد نقوی نے یہاں اس ابہام کی بھی تصحیح کی کہ قرآن مجید کی آیات کتنی ہیں۔ سامعین سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ قرآن کی آیات کتنی ہی ۔ 6666 یا اس سے مختلف؟ تو قبل اس کہ مجمع میں سے کوئی اس کا جواب دیتا۔ وہ خود ہی گویا ہوئے کہ اس کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ کوئی صحیح تعداد نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے محققین میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورہ کا حصہ ہے یا نہیں۔ پھر کچھ آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ دو آیات ہیں یا ایک۔ اس وجہ سے 6333، 6336، 6348 اور 6332 آیات کے بارے میں ہے۔ 

قرآنی تدوین:
علامہ جواد نقوی نے واضح کیا کہ قرآن شیعہ سنی دونوں فرقوں کے پاس ایک ہی ہے ۔ متن بھی وہی ہے ۔ اور اس کتاب خدا کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے اٹھائی ہے ۔ اس کی موجودہ تدوین بھی وہی ہے جو حکم خدا سے رسول اللہ (ص) نے اپنی زندگی میں ہی کروادی تھی ۔ اور اس کے مطابق پہلے اترنے والی آیات آخر میں اور آخری آیات قرآن حکیم کے پہلے حصے میں رکھی گئی ہیں۔ تو یہ حکم خدا کے مطابق ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں کسی مسئلے پر آیات کی تعدا د کا زیادہ ہونا۔ اس کی اہمیت کی دلیل نہیں بلکہ یہ اس کی تشریح ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں مسئلے پر قرآن مجید میں 1500 مرتبہ ذکر آیا ہے۔ تو وہ زیادہ اہم ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں بلکہ ایک مرتبہ ذکر یا 400 مرتبہ ہو سب پر عمل ضروری ہے۔ صرف یہ کہ اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کی تشریح اور مختلف پہلوﺅں کا ذکر کیا ہے۔ 

خمس اور ذکٰوۃ:
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اب ہمارے ہاں شیعہ خمس زیادہ دیتے اور زکوة کم دیتے ہیں۔ حالانکہ خمس کی آیت ایک بار قرآن مجید میں موجود ہے جبکہ ذکٰوة کے بارے میں آیات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور اس کی تکرار کی گئی ہے۔ لیکن کچھ خوش ہوئے ہیں کہ وہ تو زکٰوة دیتے ہیں نہ خمس دیتے ہیں۔ کتنی آیات، نماز، روزہ اور جہاد کے بارے میں ہیں۔ اور کتنی پر عمل ہوتا ہے۔

ولایت عمومی:
علامہ جواد نقوی اپنی گفتگو کی طرف پلٹے اور کہنے لگے کہ دشمن شناسی پر قرآن مجید کی 1500 آیات اس کی تاکید نہیں کر رہیں بلکہ تشریح کر رہی ہیں۔ کہ دشمن کو پہچاننا کیسے ہے؟ اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اور اس طرح کسی بھی موضوع کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کا دشمن شیطان، کفار اور منافق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ولایت قرب اور عداوت دوری کا نام ہے اور قرآن میں ولایت عمومی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے ولی یعنی دوست ہیں جبکہ شیطان خود بھی خدا سے دور ہے اور انسانوں کو بہکا کر اللہ سے دور کرتا ہے ۔

مکتب تشیع کے دشمن:
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ہم اگر اپنے دشمن نہیں پہچانتے تو اس میں جہاں ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں وہیں دشمن کی چالیں بھی ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں مگر دشمن کو نہیں پہچانتے کہ ان کا مشترکہ دشمن کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ عاشور اور کربلائے معلٰی میں مرقد امام حسین علیہ السلام کی موجودگی واضح کرتی ہے کہ مکتب تشیع کے دشمن ہیں۔ جبکہ حرملہ اور شمر اس وقت کے دشمن اور دہشت گرد تھے لیکن ہم اپنی مجالس میں ان کا ذکر کر کے مومنین کو بتائیں، روئیں اور افسوس کریں لیکن شناخت نہ کریں تو کیا کافی ہو گا ایسا ہر گز نہیں ہے۔
 
کربلا دشمن کی شناخت کا مکتب:
انہوں نے کہا کہ آج کے دشمن کی شناخت نہ کریں اور فقط ظلم کا تذکرہ کریں تو پیغام کربلا پوری طرح لوگوں تک نہیں پہنچتا۔ اس لئے واضح رہے کہ کربلا دشمن کی شناخت کا مکتب ہے۔ دشمن کو پہچان لو ورنہ دشمن سے غفلت کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ ملت جب بھی دشمن سے غافل رہی ۔ اس نے بڑا نقصان اٹھایا ۔ اس لئے دشمن کی شناخت بیداری کا اہم شعبہ ہے ۔ حقیقی دشمن کی پہچان نہ ہوتو وہ چھپ جاتا ہے لیکن آگاہ لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے۔

دشمن بے رحم:
علامہ جواد نقوی نے واضح کیا کہ محض رونے سے دشمن کو آپ پر رحم نہیں آئے گا بلکہ وہ زیادہ طیش میں آئے گا۔ جس سے قوم پر مایوسی طاری ہو جائے گی ۔ اس لئے اس قوم کو امیدوار آزادی کا راستہ دکھانے والے بشیر ( )کی ضرورت ہے۔ اور مختلف اوقات میں حضرت موسیٰ (ع)، حضرت ابراہیم(ع)، حضرت عیسی (ع) اور دیگر انبیاء انسانوں کی بشیر بن کر رہنمائی کرتے رہے کہ وہ نجات پائیں اور آزادی حاصل کر سکیں۔
خبر کا کوڈ : 214196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش