0
Sunday 27 Jan 2013 23:19

دریائے شگر میں پہاڑی تودہ گرنے کے باعث پانی کی سطح میں اضافہ، نواحی آبادی میں شدید خوف و ہراس

دریائے شگر میں پہاڑی تودہ گرنے کے باعث پانی کی سطح میں اضافہ، نواحی آبادی میں شدید خوف و ہراس
اسکردو شہر سے 109کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دنیا کا خوبصورت ترین اور قیمتی معدنیات سے مالا مال علاقہ شگر کی یونین کونسل برالدو میں 300فٹ اونچے اور 800فٹ چوڑے پہاڑی تودے گرنے سے علاقے میں صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ دریا کا بہاو رکنے کے باعث پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، جس کے باعث نشیبی علاقے اور پانچ پل زیر آب آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ پہاڑی تودہ گرنے کے باعث پانی کی سطح میں اب تک 30فٹ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی جانب جانے والی سڑک بھی زیر آب آ گئی ہے اور راستہ منقطع ہو چکا ہے۔ کے ٹو جسے مقامی زبان (بلتی) میں چھوغو ری یعنی بلند ترین پہاڑ جو کہ قدرتی طور پر اہرام مصر کی طرز پر ایستادہ اپنی بلندی اور عظمت کی گواہی دے رہا ہے اور جسے پوری دنیا سے سیاح اور کوہ پیما سر کرنے آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سینکڑوں جانیں بھی چلی گئی ہیں۔ دنیا میں شہرت پانے والا یہ دیو ہیکل پہاڑ پاکستان کی بزرگی کی علامت ہے، لیکن کے ٹو جس خطے میں موجود ہے وہ سرزمین ہے جسے آئین گلگت بلتستان کہا جاتا ہے۔

دریائے برالدو شگر کے حادثے کے حوالے سے پاک فوج کے ماہرین نے صورتحال کا جائزہ لینے علاقے کا فضائی معائنہ بھی کیا۔ فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل حافظ مقصود احمد نے کہا ہے کہ ممکنہ خطرات سے نمٹا جائے گا اور متاثرہ علاقے کو عطاآباد کا سانحہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ 2010ء میں گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر میں بھی اسی نوعیت کے واقعے سے کافی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شاہراہ قراقرم میں مصنوعی جھیل بننے کے سبب چین سے درآمد ہونے والی اشیاء کی قیمت بھی کافی بڑھ گئی تھی اور تجارت بھی کافی حد تک متاثر ہوگئی تھی۔ عطاآباد کے رہائشیوں کی نقل مکانی کی صعوبتیں اپنی جگہ، لوگوں کے قابل کاشت رقبے بھی تباہ و برباد ہو گئے تھے۔

برالدو دریا میں کے ٹو سمیت دیگر بلند ترین پہاڑوں اور گلیشیروں سے برف پگھل کر پانی دریا کا حصہ بنتا ہے اور یہ دریا دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ دریائے برالددو میں روزانہ تقریبا اڑھائی سے تین ہزار کیوسک فٹ پانی دریا میں گرتا ہے۔ کے ٹو اور دیگر گلیشرز سے نکلنے والے پانی کی مقدار گرمیوں میں تقریبا چار گنا بڑھ جاتی ہے، البتہ پانی کا یہ سلسلہ سارا سال جاری و ساری رہتا ہے۔ آخری اطلاع تک اسکردو انتظامیہ کے اہلکار بھی عوام کو ریلیف دینے اور مصنوعی طور پر بننے والی جھیل کو توڑنے کے لیے ماہرین کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں۔ متاثرہ علاقے میں اسوقت درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ ہونے کے سبب ریسکیو ٹیم کو بھی شدید مشکلات پیش آئیں گی جبکہ پانی کی بڑھتی ہوا سطح کئی کلومیٹر پر مشتمل  سڑک، پانچ پل اور سینکڑوں کنال قابل کاشت اراضی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
خبر کا کوڈ : 235239
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش