0
Thursday 31 Jan 2013 21:51

پشاور میں ٹارگٹ کلنگ اور وزیراعلیٰ کا طلب کردہ جرگہ

پشاور میں ٹارگٹ کلنگ اور وزیراعلیٰ کا طلب کردہ جرگہ
پشاور میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران پے در پے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور اہم شخصیات پر قاتلانہ حملوں پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے شیعہ سنی عمائدین اور صوبہ کے انتظامی افسران پر مشتمل ایک جرگہ طلب کیا۔ وزیراعلیٰ ہاوس میں منعقدہ اس جرگہ کی صدارت امیر حیدر خان ہوتی نے خود کی۔ اس موقع پر صوبائی وزراء میاں افتخار حسین، امجد آفریدی، ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب ایم پی ایز سید مرید کاظم اور کالعدم سپاہ صحابہ کے خلیفہ عبدالقیوم، ہنگو سے عتیق الرحمان، ہوم سیکرٹری، پشاور، مردان، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان کے کمشنرز، ڈی آئی جیز، ڈپٹی کمشنرز، سی سی پی اوز، ڈی پی اوز کے علاوہ علمائے کرام اور عمائدین بھی موجود تھے۔ جرگے سے صدارتی خطاب امیر حیدر خان ہوتی نے کیا جبکہ سید احمد شاہ، حسین احمد مدنی، عبدالواحد قادری، مولانا یونس، سید نفیس احمد، علامہ رمضان توقیر اور سابق ایم این اے جاوید ابراہیم پراچہ نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے مختلف تجاویز اور آرا بھی پیش کیں اور بعض مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔

وزیراعلیٰ ہاوس سے جاری ہینڈ آوٹ کے مطابق امیر حیدر ہوتی نے جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے موقع پر موجود پولیس حکام کو ہدایت کی کہ جلد از جلد پشاور میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گروپوں پر ہاتھ ڈالا جائے تاکہ انہیں بےنقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے اس سلسلے میں جرگے میں موجود علمائے کرام سے تعاون کی بھی اپیل کی۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ پشاور خیبر پختونخوا کا دل ہے، یہی وجہ ہے کہ صوبے کے حالات کو خراب کرنے کی سوچ رکھنے والے اپنے مذموم مقاصد کیلئے پہلا وار پشاور پر ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت جلد پشاور کے شیعہ علمائے کرام اور عمائدین کے ساتھ الگ ملاقات کریں گے اور انہیں ہر حالت میں مطمئن کیا جائے گا۔ امیر حیدر ہوتی نے علمائے کرام کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان تجاویز سے ضرور رہنمائی حاصل کی جائے گی۔

امیر حیدر ہوتی نے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کیلئے متحد ہو جائیں۔ سیاسی وابستگیوں، انتخابات کی تیاریوں، انتخابات کے نتائج، مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی سے قطع نظر امن کا قیام ہم سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی کی جانب سے پشاور میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر نوٹس لیتے ہوئے جرگہ طلب کرنا ایک بروقت اور خوش آئند اقدام ہے، تاہم یہاں تشویش ناک امر یہ ہے کہ یہ جرگہ جس کو صوبائی حکومت کی جانب سے ’’شیعہ سنی عمائدین کا جرگہ‘‘ کا نام دیا گیا، میں محض ایک شیعہ عالم دین یعنی شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ رمضان توقیر نے شرکت کی۔ جو میزبانوں کیلئے بھی باعث تشویش تھا، جس کا اظہار وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے بھی دوران جرگہ کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’’جرگے میں پشاور کے اہل تشیع علمائے کرام اور عمائدین کی عدم موجودگی اطمینان کی نہیں پریشانی کی بات ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ انہیں تکالیف اور آزمائش سے نکالا جائے‘‘۔

سوائے ایک عالم دین کے شیعہ عمائدین اور علمائے کرام کی اس جرگہ میں عدم شرکت نے صوبائی حکومت کے اس خوش آئند اقدام کو کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دیا۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اس حوالے سے پشاور کی اہم شیعہ شخصیات، علمائے کرام اور تنظیموں کے رہنماوں سے رابطہ کیا تو مختلف قسم کے خیالات کا اظہار سننے کو ملا۔ معروف عالم دین اور سابق سینیٹر علامہ سید جواد ہادی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے اس جرگہ میں شرکت کی کوئی دعوت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی حکومتی شخصیت نے ان سے رابطہ کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پشاور میں قائم شیعہ مساجد کے خطیب جامعہ عارف حسین الحسینی سے منسلک ہیں تو اس سلسلے میں ہمارے کسی بھی خطیب سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار جامع مسجد شہید عارف حسین الحسینی کے امام جمعہ علامہ عابد حسین شاکری نے بھی کیا۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمیں کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔

مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ سبیل حسن مظاہری نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ انہیں غیر رسمی طور پر ایک حکومتی شخصیت نے اس جرگہ کے حوالے سے آگاہ کیا تھا تاہم باقاعدہ طور پر کوئی کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کے مسئلہ پر اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور دیگر شیعہ جماعتوں کیساتھ بھی مشاورت کی جائے گی۔ ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والے علامہ خورشید انور جوادی کو بھی صوبائی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ امامیہ جرگہ خیبر پختونخوا کے رہنماء مظفر علی اخونزادہ نے ’’اسلام ٹائمز’’ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے ہمیں دعوت موصول ہوئی تھی تاہم ہم نہیں سمجھتے کہ اس قسم کی ملاقاتوں سے مسائل حل ہو جائیں گے، پشاور میں مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے، اہل سنت تو ہمارے بھائی ہیں وہ ہماری مجالس میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان کیساتھ ملاقاتوں کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ دہشتگردوں پر ہاتھ ڈالنے سے حل ہو گا۔

مختلف شیعہ تنظیموں اور علمائے کرام کی صوبائی حکومت کی جانب سے طلب کردہ جرگہ میں عدم شرکت نے اس حکومتی کوشش کو ناکام ثابت کیا ہے، تاہم صوبائی حکومت کو اب اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس مسئلہ کے فوری حل کیلئے صوبہ کے تمام اہم شیعہ علمائے کرام اور عمائدین کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کی جانب سے پشاور میں اہل تشیع شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گروہ کو بےنقاب کرنے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایات خوش آئند ہیں تاہم اس پر عملدآمد ہونا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری جانب شیعہ تنظیموں اور علمائے کرام کو سب سے پہلے باہمی مشاورت کیساتھ مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا، اور تاحال اس قسم کا کوئی اجلاس یا مشترکہ ملاقات کا ہونا نہ پشاور کی ملت تشیع کیلئے باعث تشویش ہے، اگر اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ مزید گھروں کے چراغ بجھا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 236049
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش