0
Saturday 28 Sep 2013 18:02

خیبر پی کے میں جس انقلابی تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی تھی دیکھنے میں نہیں آئی، سپریم کورٹ

خیبر پی کے میں جس انقلابی تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی تھی دیکھنے میں نہیں آئی، سپریم کورٹ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ میں ایبٹ آباد سے فاسفیٹ نکالنے کے ٹھیکوں میں اربوں روپے کی بدعنوانی کے کیس میں عدالت نے ڈی جی منرلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ خیبر پی کے سے اب تک نکالے گئے فاسفیٹ کے ذخائر، اکاﺅنٹس اور لیز پر دینے سے متعلق مکمل ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ محکمہ کے 2 سابق اور ایک موجودہ ڈی جی کو 10اکتوبر کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوکر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ خیبر پی کے کے ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس معاملہ میں اربوں روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے، جس میں سابقہ حکومت کے وزراء اور مائنز اینڈ منرلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں جن میں سے بعض کیخلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے، عدالت نے معاملے پر حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی تاہم دوسرے بنچ میں اسی حوالے سے زیر التواءدو درخواستوں کو اس درخواست کے ساتھ یکجا کر نے کی استدعا منظور کر لی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوید اختر نے بتایا کہ معاملہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی زیرسماعت ہے مگر اس کے باوجود فاسفیٹ نکالا اور بیچا جا رہا ہے جس سے صوبے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ دولت تو صوبے کی ہے اور افسران اس لئے بیٹھائے جاتے ہیں کہ وہ قومی دولت کی حفاظت کریں نہ کہ اپنے ہی گھر والوں کو اربوں روپے کے ٹھیکے الاٹ کرتے رہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اس غیرقانونی کام کو کون روکے گا؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ خیبر پی کے میں کوئی انقلابی تبدیلی آرہی ہے مگر وہاں بھی غیرقانونی کام جاری ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے مقدمہ کے فیصلے تک حکم امتناعی جاری کر نے کی استدعا کی تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو نقصان ہو گا، بادی النظر میں یہ کرپشن کا بہت بڑا کیس ہے ہم جواب اور ریکارڈ منگواتے ہیں پھر اس کو دیکھیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 10اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ آئی این پی کے مطابق ریمارکس دیتے ہوئے کہا گیا کہ خیبر پی کے میں جس انقلابی تبدیلی کی بازگزشت سنائی دے رہی تھی ایسی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی، صوبے کو اپنے اثاثوں کا فائدہ پہنچنا چاہئے، سرکاری ادارے اگر خود کام کریں تو اربوں روپوں کے اثاثے اونے پونے داموں لیز پر دینے کی ضرورت پیش ہی نہ آئے۔ سرکار کو ماسوائے کاغذی معاہدے کے ایک دھیلا بھی نہیں حاصل ہوا، عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
خبر کا کوڈ : 306300
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش