0
Saturday 1 Feb 2014 22:33
اچھے طالبان برے طالبان کیساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرینگے

مذاکراتی کمیٹی میں طالبان مخالف مزاحمتی نقطۂ نظر کی نمائندگی نہیں، تجزیہ نگاروں کی رائے

مذاکراتی کمیٹی میں طالبان مخالف مزاحمتی نقطۂ نظر کی نمائندگی نہیں، تجزیہ نگاروں کی رائے
اسلام ٹائمز۔ مذاکراتی کمیٹی کے لیے نامزد کیے گئے چاروں افراد واضح طور پر طالبان کے ہمدرد ہیں اور ان کے بنیادی سیاسی مفروضات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد طالبان کے طریقہ کار ہی سے نہیں، مقاصد سے بھی اختلاف رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امن طالبان کا مقصد نہیں، گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کرسکتا۔ کمیٹی میں اس مزاحمتی نقطۂ نظر کی نمائندگی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ ان میں سے ایک صاحب نے بارہ برس پہلے یہ جھوٹ ایجاد کیا تھا کہ اسامہ بن لادن گردوں کے مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ مقصد ایک مفرور ملزم کی روپوشی میں مدد کرنا تھا۔

ایک رکن پچیس برس پہلے جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے مرتکب ہوئے اور نوبت کورٹ مارشل تک جا پہنچی۔ کمیٹی کے تیسرے رکن فرماتے ہیں کہ ’’حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر عمل درآمد کیا جائے گا اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، تب جا کر اعتماد بحال ہوگا۔‘‘ کیا اعتماد کی بحالی صرف حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ کمیٹی میں شامل وزیراعظم کے مشیر فرماتے ہیں کہ دھماکے یا دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے سے متعلق کوئی گارنٹی نہیں۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ کمیٹی تو محض رابطہ کار ہے، مذاکرات تو حکومت ہی کو کرنا ہوں گے۔

ایک اور رکن کا کہنا ہے کہ انہیں تو ذرائع ابلاغ کے ذریعے کمیٹی میں اپنی شمولیت کی خبر ملی۔ رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ طالبان کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ حکومت معاہدے کی پاسداری کرے گی۔ گویا حکومتی کمیٹی کا رکن بالواسطہ طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ کئے گئے گذشتہ معاہدے حکومت نے فسخ کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے ماضی میں معاہدے توڑے ہیں۔ کیا پاکستانی عوام کو طالبان کے اخلاص کا یقین دلانا ضروری نہیں۔ 

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ طالبان نے مذہب کے قضیے پر ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور مذاکرات کرنے والی کمیٹی میں طالبان کے ہاتھوں نشانہ بننے والے دو بڑے مسلم فرقوں کی نمائندگی موجود نہیں۔ طالبان کے ساتھ مفروضہ بات چیت میں آئینی امور زیر بحث آنا بھی ناگزیر ہے۔ کمیٹی میں آئینی امور کا ماہر کون ہے؟ بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نہایت معاملہ فہم ہیں۔ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ معاملہ فہمی کی خوبی کاروباری جھگڑوں میں مفید ہوتی ہے۔ طالبان کے زیر نگیں علاقوں سے پاکستانی ریاست کا انخلا شاید ابھی دور کی کوڑی لانا ہو، لیکن وزیراعظم صاحب کی یہ مذاکراتی کمیٹی مراجعت کا ایک اشارہ ہے۔ اس سے صرف ایک فائدہ ہوا ہے پاکستان کے لوگ کئی برسوں سے اس مخمصے میں تھے کہ انہیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا جو سبق پڑھایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ حکومت نے یہ کمیٹی بنا کے اچھے طالبان کی نشاندہی کردی ہے، اب اچھے طالبان برے طالبان کے ساتھ بیٹھ کے مذاکرات کریں گے اور یہ سوال بہرصورت باقی رہے گا کہ مذاکرات کی میز پر پاکستانی ریاست، عوام، آئین اور جمہوریت کے مفادات کی نمائندگی کون کرے گا۔؟
خبر کا کوڈ : 347501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش