0
Wednesday 19 Feb 2014 01:46

دہشتگردی کے سرچشمے

دہشتگردی کے سرچشمے
رپورٹ: ایس این حسینی

دنیا کا کوئی بھی نقطہ ہو، جس جس طریقے سے ہو اسلام کے آج کل کے ان نئے ٹھیکداروں نے اسلام کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کا طویل المیعاد ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اور اسلام کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ اسلام کی بزعم خود اس خدمت میں سب سے زیادہ جو ادارے سرگرم نظر آرہے ہیں ان میں مدارس دینیہ سب سے آگے ہیں۔ جو دہشتگردوں کے سرچشمے کہلانے کے مستحق ہیں۔

خودکشوں کی درجہ بندی اور اہم منابع:
اسلام کے ان کرم فرماؤں کی تقسیم بندی کچھ یوں کی گئی ہے کہ مولوی حضرات نے پہلے مرحلے میں تخم ریزی کے لئے دینی مدارس کے نام سے کچھ مراکز کھلے ہیں، جن میں دینی تعلیم کے مقدس نام سے دہشتگردوں کی ایک نرسری تشکیل دی جاتی ہے اور خالص دینی تعلیم کے حصول کے لئے آنے والے اکثر بےخبر، بے قصور بچوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ جہاد کے مقدس نام پر انہیں دہشت گردی کی جانب مائل کیا اور کرایا جاتا ہے۔

اگلے مرحلے میں بچوں کی ظرفیت اور ان میں جنت اور حوروں کی تڑپ کو جانچ کر نمبر وار ترتیب دی جاتی ہے، حوروں کے وصال کا جو سب سے زیادہ مشتاق ہوتا ہے، اسے دوسرے مرحلے کے لئے کسی بھی دہشتگرد گروہ کے رابط یا رہنما کے حوالے کرکے انکے کیمپ منتقل کرایا جاتا ہے۔ جن بچوں میں جنت جانے کی توفیق نسبتاً کم ہوتی ہے، ان پر مزید کام کیا جاتا ہے اور پھر دو یا تین ماہ میں سو نہ سہی، 80 فیصد بچوں کو جنت بھیجنے اور حوروں سے ملانے کے قابل بنا کر اپنے پیشرؤوں کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے دوسرے مرحلے کے لئے ایک رہنما کے حوالے کرکے وزیرستان میں موجود طالبان کے کسی بھی ٹریننگ کیمپ منتقل کرایا جاتا ہے۔

دوسرے مرحلے میں بھی سب سے پہلے جنت کا شوق دلایا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اسلام بچانے کے لئے خدا نے تم ہی کا اتنخاب کیا ہے۔ تیری ہی قربانی سے اسلام بچ سکتا ہے اور خدا کے پسندیدہ بندے اور ولی کے طور پر تمہارا ہی انتخاب ہو چکا ہے۔ بس بٹن دبانے کی دیر ہے، بٹن دباتے ہی 70 حوریں آپ کا استقبال کریں گی۔ اسکے بعد ان میں سے اکثر کو اسپیشل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ جن میں گاڑی چلانا، موٹر سائیکل چلانا، رش اور بھیڑ کے مقامات کو ڈھونڈنا، پکڑے جانے سے خود کو بچائے رکھنا، کسی بھی خطرے یا گرفتاری کی صورت میں خود کو فوری طور پر اڑا دینا، الیکٹرانک ڈیوائس کی تربیت دینا وغیرہ۔

اغوا شدہ بچوں کو خودکش بنانا:
دینی مدارس کے طلاب کے علاوہ خودکشی کے لئے رہی سہی کسر مغوی بچوں سے پوری کی جاتی ہے۔ اسلام کی اس انوکھی خدمت کے لئے معصوم ماؤں کے معصوم بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے اور ان پر کئی ماہ کام کرکے انکو برین واش کیا جاتا ہے۔ جسکے بعد اسے مطلوبہ ہدف بتاکر قربانی کا بکرا بنا لیا جاتا ہے اور قربانی کے بعد انکے والدین کو اپنی اولاد کی قربانی کی قبولیت سے متعلق خوشخبری دی جاتی ہے، اور کبھی کبھار ایک خط کے ہمراہ ایک، ڈیڑھ لاکھ روپے بھی بھیج دیئے جاتے ہیں اور ساتھ انہیں یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ آپ کے بیٹے کی قربانی قبول ہو گئی۔ لہذٰا اپنے بیٹے کے لئے تعزیت اور فاتحہ کا پروگرام اور کھانے پینے وغیرہ کا بندوبست اسی رقم سے کریں۔

خودکشوں کے اقسام:
خودکشوں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ بچوں کی طبیعت اور ظرفیت کے مطابق متعلقہ کام میں انہیں مہارت فراہم کی جاتی ہے۔ مثلا بعض بچوں کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ وہ صرف بارود کی جیکٹ پہن کر خود کو اڑا سکتے ہیں، جبکہ بعض کا حوصلہ ان سے کچھ زیادہ اور طبیعت کچھ زیادہ ہولناک ہوتی ہے، چنانچہ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ بندوق لے کر کسی اہم سرکاری یا مذھبی مقام میں داخل ہوکر فائرنگ کرتے ہیں اور ہر مرد و زن اور پیر و جواں کے علاوہ کسی بھی چھوٹے بڑے پر رحم نہیں کرتے۔ اسکے علاوہ کچھ کو اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ کسی خود کش کو مطلوبہ مقام تک رسائی فراہم کرتے ہیں، یعنی خودکش حملہ آور کو مطلوبہ ھدف تک پہنچانے کے لئے راستے میں حائل روکاوٹوں اور حفاظتی مامورین کو راستے سے ہٹانا اسکے ذمے ہوتا ہے۔ اسے یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ خودکش کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں حائل کسی بھی روکاؤٹ یا شخص کو نہ چھوڑا جائے۔

ایسے بچے اس وقت تک زندہ رہنے کے مستحق ہوتے ہیں جب تک انکے پاس اسلحہ اور ہتھیار ہو، نیز یہ کہ زیر ھدف مقام کے مامورین کا خود ھدف نہ بنے۔ پھر خود کشوں کے ان رکھوالے خود کشوں کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرکے خود جان دے دیتے ہیں، اپنے مذموم مقصد میں کامیابی کے ساتھ ساتھ خود بھی بچ کر نکل سکتے ہیں یا یہ کہ مقصد میں ناکامی کے علاوہ خود بھی شکار بن جاتے ہیں۔ بہرصورت خودکش بچوں کو سپیشل اور فنی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں بنی بنائی جیکٹ فراہم کی جاتی ہے، جبکہ انہیں صرف ایک بٹن تھمایا جاتا ہے، صرف حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلوبہ مقام تک پہنچنے پر صرف بٹن کو دبایا جاتا ہے۔

دہشتگردی کے دیگر ذرائع:
دہشتگردی کے لئے کئی ایک اور حربے بھی استعمال کئے جاتے ہیں، جن کے لئے اسپیشل ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن میں بارودی سرنگ، ٹائم ڈیوائس اور ریموٹ کنٹرول بم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بارودی سرنگ دشمن کے راستے میں زیر زمین بچھائے جاتے ہیں۔ پیدل یا کسی گاڑی میں دشمن اس راستے سے گزرتے وقت جب بم پر پاؤں رکھتا ہے یا گاڑی کے ٹائر کے نیچے آ جاتا ہے تو دھماکے سے اڑ کر تباہی پھیلاتا ہے جبکہ ٹائم ڈیوائس ایک مخصوص ٹائم کے لئے سیٹ کیا جاتا ہے۔ مقررہ وقت پر ڈیوائس فعال ہوکر اپنے ساتھ لگے مواد کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے اور اس وقت موجود افراد یا اشیاء کو ختم کر دیتا ہے۔ اس میں ایک خامی ہوتی ہے کہ اگر مذکورہ وقت زیر ہدف شے کے علاوہ کسی اور کا اسی راستے سے گزر ہوا تو وہی نشانہ بن جائے گی جبکہ تیسری قسم ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کی ہے۔ اس میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس لگا دیا جاتا ہے۔ جسے کنٹرول کرنے کے لئے مناسب فاصلے پر ایک آپریٹر موجود ہوتا ہے، آپریٹر اپنے شکار کا انتظار کرتا ہے۔ شکار پہنچتے ہی بٹن دبا کر دھماکہ کرتا ہے اور اپنے مقصد تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

روزمرہ استعمال کی اشیاء کا بطور بم استعمال:
ٹائم بم، زیر زمین بچھائے گئے بارودی سرنگ یا ریموٹ کنٹرول بم کے استعمال میں دہشتگرد آئے روز نت نئے طریقے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بارودی مواد کو کبھی گاڑی میں رکھا جاتا ہے، کبھی پھل سبزیوں میں رکھا جاتا ہے، اور گھریلو استعمال کی کسی چیز حتی کہ بچوں کے کھلونوں وغیرہ میں بھی سیٹ کرلیا جاتا ہے۔ ایک امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق دہشتگرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے مقدس چیزوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً دعاؤں، حدیث کی کتاب یا قرآن مجید کو بھی معاف نہیں کیا جاتا ہے۔ ایسی کاروائیاں عراق، شام اور افغانستان میں تو کئی سالوں سے جاری ہیں جبکہ پاکستان بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

کلام مقدس کو بم بناکر اسلام کی خدمت:
عالمی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شمالی علاقوں میں دہشتگرد گروپس کی جانب سے پاکستانی مسلح افواج کے خلاف بھی دیسی بموں اور آئی ای ڈیز کی مدد سے ویسی ہی کارروائیاں کی جارہی ہیں جیسی کاروائیاں عراق اور افغانستان کی جنگ میں کی گئی تھیں۔ جریدے کا کہنا ہے کہ بنوں، وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں ایسے کئی واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں کہ جن میں دہشتگردوں کی جانب سے بچوں کی سائیکلوں کے اندر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا، جبکہ کئی واقعات ایسے بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ جن میں بچوں کے کھلونوں اور رنگ برنگے ڈبوں میں بارودی مواد بھر کر انہیں الیکٹرانک یا ریموٹ کنٹرول سے منسلک کردیا تھا اور جیسے ہی بچوں نے اسے چھوا، وہ زوردار دھماکے سے پھٹ گئے۔

جریدہ مزید لکھتا ہے، حال ہی میں بنوں میں ایک ہی گھر کے 6 بچوں کی موت بھی ایسے ہی ایک کھلونا بم سے کھیلنے کے دوران واقع ہوئی تھی۔ نیز ہنگو کے علاقے بابر میلہ میں ایک آفریدی خاندان کے ایک ہی گھر کے سات بچے ایسے ہی کھلونا بم کا نشانہ بن کر جان بحق ہوگئے جبکہ ایک پاکستانی فوجی بھی وزیرستان میں ایک ایسے بوبی ٹریپ بم کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوا جسکی ظاہراً شکل و صورت قرآن مجید کی تھی، لیکن اندر کے صفحات کو الگ کرکے کھوکھلے حصے میں دھماکہ خیز مواد بھر دیا گیا تھا اور جیسے ہی فوجی نے عمارت کی دیوار پر رکھی جانے والی اس کتاب نما بم کو قرآن مجید سمجھ کر احتراماً اٹھایا، دھماکے سے پھٹ گیا اور مذکورہ فوجی جاں بحق ہو گیا۔ یہاں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ قرآن مجید کو دہشت اور دہشتگردی کا نمونہ بنا کر اسلام کی وہ کونسی خدمت کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں تو، اب لوگ جب بھی قرآن یا کسی بھی مقدس کتاب کو کہیں غیر مناسب جگہ پر دیکھیں گے تو اسے قرآن نہیں بلکہ بم سمجھ کر جوں کہ توں چھوڑ دیں گے کیونکہ آج کے مسلمان خود ہی قرآن مجید کو ایسے انداز میں پیش کررہے ہیں کہ اس کے قریب جانے کی بجائے دور بھاگنا پڑرہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 353091
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش