1
0
Thursday 6 Mar 2014 18:07

انصاف کی تلاش میں "بلوچ" اسلام آباد پہنچ گئے

انصاف کی تلاش میں "بلوچ" اسلام آباد پہنچ گئے

رپورٹ: این ایچ حیدری

اسلام آباد یا جی ایچ کیو کے قریب رہنے والے کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کوئی بلوچ یا بقول ان کے "بلوچی" نہیں دیکھا ہے، واجہ قدیر کی وفاقی دارالحکومت میں آمد بہت سارے پاکستانیوں کے لئے غنیمت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی بلوچ سے ملیں۔ لیکن واجہ سے ملنے کے بعد لگتا ہے کہ ان کی کنفیوژن میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسلام آباد میں تو لوگ سمجھتے تھے کہ بلوچستان کے سارے رہنماء صرف سردار اور نواب ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ واجہ قدیر کہاں سے آ گئے۔؟ وہ تو کوئی سردار، نواب، میر، معتبر اور ٹکری تو ہیں ہی نہیں۔ یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے کہ اسلام آباد میں ایک بلوچ "لیڈر" آیا ہے۔ لیکن اس کا کوئی سکیورٹی گارڈ ہے اور نہ ہی گاڑیوں کا قافلہ۔ یہ شخص ایک ایسا عام بلوچ ہے کہ اگر اسے احتراماً "ماما" کہنا چھوڑ دیں تو وہ بس"قدیر" ہی بن کہ رہ جائے گا۔ اسلام آباد میں تو لوگ سمجھتے تھے کہ بلوچ مرد ترقی مخالف ہوتے ہیں اور اپنی عورتوں کو گھروں سے باہر نکلنے نہیں دیتے لیکن واجہ قدیر کے ساتھ تو بلوچ خواتین نے دو ہزار کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ اور تو اور واجہ قدیر بلوچ نے ایک عورت (فرزانہ مجید) کو اپنا دستِ راست بنایا ہوا ہے۔ ہم نے کبھی نواز شریف کو کسی عورت کو اپنا دست راست بناتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی افتخار چوہدری کو وکلاء تحریک کے دوارن۔

واجہ قدیر بلوچ کیسے بلوچ مرد ہیں، جو جہاں تقریر کرتے ہیں وہاں فرزانہ کو بھی بولنے کا برابر موقع دیتے ہیں۔؟ پریس کانفرنس میں بھی بلوچ خواتین ان کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں۔ کبھی سید منور حسن نے کسی عورت کو یہ رتبہ دیا اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن نے۔ یہ وہ بلوچ تو نہیں ہیں جن کے بارے میں اسلام آباد والوں نے سوچا تھا۔ اسلام آباد والوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا ہے کہ مرد اور عورت کسی تحریک میں اتنے دنوں، بلکہ مہینوں تک ہزاروں میل کے سفر میں دن رات قدم بہ قدم چلیں اور جب مرد و عورت کی برابری کا یہ مظاہرہ بلوچوں کی طرف سے کیا جائے تو یہ اہلیانِ اسلام آباد کے لئے مزید ناقابل یقین بات بن جاتی ہے۔ واجہ قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید سمیت ان کے ساتھی ان بلوچوں سے تو سرے ہی سے مختلف ہیں۔ جن کا ہر روز تذکرہ پاکستانی میڈیا کرتا ہے کہ بلوچ بڑے ترقی مخالف، ظالم اور جابر ہوتے ہیں۔

اسلام آباد میں تو سب لوگ سمجھتے تھے کہ بلوچ دہشت گرد ہیں اور صرف لڑائی کے ذریعے اپنی بات منواتے ہیں۔ لیکن واجہ قدیر کیسے بلوچ ہیں جنھوں نے ایک ایسے پرامن لانگ مارچ کی قیادت کی، جس کی نظیر پاکستان تو کیا جنوبی ایشیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسلام آباد والے تو سمجھتے تھے کہ بلوچ رہنماؤں کے بچے تو لندن اور امریکہ میں عیاشیاں کر رہے ہیں لیکن واجہ قدیر بلوچ کیسے بلوچ رہنماء ہیں، جن کے جوان سال بیٹے جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش تربت سے ایسی حالت میں ملی، کہ خود واجہ کو فرزند شناسی میں تھوڑا وقت لگا۔ اسلام آباد والے تو سمجھتے تھے کہ بلوچ رہنماؤں کو امریکہ، بھارت اور اسرائیل سے امداد مل رہی ہے لیکن واجہ قدیر تو اسلام آباد میں محض ایک ریڑھی کے ساتھ تشریف لائے۔ ایسی ریڑھیوں سے تو راجہ بازار بھرا ہوا ہے۔ کیا پتہ، شاید واجہ قدیر کو بلوچی "پھاگ" (پگڑی) بھارت یا امریکہ کی طرف سے امداد میں ملی ہوئی ہے۔ واجہ قدیر بلاشبہ بلوچستان کے پہلے لیڈر ہیں۔ جنھوں نے اپنے لانگ مارچ کے دوران سندھ اور پنجاب کے گاؤں گاؤں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچ کر باقی پاکستانیوں پر یہ بات واضح کی کہ بلوچ ان سے ہمدردی مانگنے نہیں آئے، بلکہ انہیں بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی اس جنگ سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگے۔ اس تاریخ ساز لانگ مارچ میں ایک پرندے کو نقصان پہنچا اور نہ ہی کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

ساٹھ سال کی تاریخ میں کوئی بلوچ رہنما اتنی شان و شوکت سے اسلام آباد میں داخل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی نے اسلام آباد کے وسط میں آزاد بلوچستان کی بات کی۔ جو کام نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، سردار عطاءاللہ مینگل، سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک اسلام آباد میں جا کر نہ کرسکے۔ وہ واجہ قدیر نے بڑی بہادری سے کر دیا کہ بلوچ قیام ِ پاکستان سے پہلے آزاد تھے اور آج بھی خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ واجہ قدیر نے اپنے عمل سے خود کو بلوچستان کا سب سے بڑا اور غیر متنازعہ لیڈر ثابت کیا ہے۔ واجہ قدیر نے اسلام آباد میں جو باتیں کی ہیں، وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور انہوں نے نواب یوسف عزیز مگسی کے بعد پہلے بلوچ رہنماء ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ جنہوں نے پنجاب ہی کی سرزمین پہ بڑی دیدہ دلیری سے یہ بات واضح کی کہ ریاستی جبر سے بلوچوں کو جُھکایا نہیں جا سکتا۔ واجہ قدیر بلوچ نے یہ تاثر بھی غلط ثابت کردیا کہ بلوچستان میں صرف مسلح تنظیمیں اور چند سردار آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ واجہ قدیر کے کاروان میں جو لوگ شامل ہیں، وہ سب کے سب ریاستی پالیسوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو ریاستی جبر کا شکار نہیں رہا۔

خبر کا کوڈ : 358711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
no doubt punjab is doing wrong with baloch ppl. the establishment shud solve this burning issue on urgent note.
ہماری پیشکش