0
Tuesday 15 Apr 2014 22:44

ڈرون حملوں کا پروگرام امریکی فضائیہ چلا رہی ہے، برینڈن برائنٹ کا انکشاف

معلومات کو خفیہ رکھنے اور جوابدہی سے بچنے کیلئے اس پر سی آئی اے کا لیبل لگایا گیا ہے
ڈرون حملوں کا پروگرام امریکی فضائیہ چلا رہی ہے، برینڈن برائنٹ کا انکشاف
اسلام ٹائمز۔ نام امریکی سی آئی اے کا اور کام امریکی فضائیہ نے دکھائے۔ ڈرون حملے کرنیوالے سابق اہل کار نے انکشاف کیا ہے کہ ڈرون حملے امریکی فضائیہ کا خصوصی یونٹ کرتا ہے جبکہ سی آئی اے کا نام صرف معلومات مخفی رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وڈیو گیم کے انداز میں اسکرین پر ڈرون سے اصلی انسانوں کو نشانہ بنانے والوں کے بارے میں دنیا یہی جانتی ہے کہ یہ کھیل امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کھیل رہا ہے۔ مگر حقیقت میں پوری مسلح فوج اس جنگ کا حصہ ہے۔ ڈرون پر آج ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم کیلئے دوران انٹرویو سابق ڈرون آپریٹرز نے بتایا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ائیرفورس کا یونٹ سیون ٹینتھ ری کانسنس اسکواڈرن مخصوص ہے، جس کا خفیہ مرکز لاس ویگاس کے قریب صحرا میں بنے کریچ ائیرفورس بیس کے کونے میں واقع ہے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے گذشتہ سال بریفنگ میں کہا تھاکہ ڈرون پروگرام کی سی آئی اے سے امریکی فوج کو منتقلی زیرغور ہے ، سابق ڈرون آپریٹر برینڈن برائنٹ کا کہنا ہے کہ اس جھوٹ نے اسے اصلی کرداروں کو سامنے لانے پر مجبور کیا۔ برینڈن کا کہنا ہے کہ سب سمجھتے ہیں کہ سی آئی اے کے پرائیوٹ کنٹریکٹرز ڈرون حملے کرتے ہیں جبکہ یہ پروگرام حقیقت میں امریکی فضائیہ چلا رہی ہے۔ تاہم معلومات کو خفیہ رکھنے اور جوابدہی سے بچنے کیلئے اس پر سی آئی اے کا لیبل لگایا گیا ہے۔

ایک اور ڈرون آپریٹر نے بتایا کہ ڈرون پروگرام میں شریک ائیرفورس کے اہل کار انتہائی خفیہ ہوتے ہیں اور وہ دوسرے اہل کاروں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ امریکا میں شہری حقوق کے ادارے کی رہنما حنا شمسی کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ سی آئی اے روایتی اور غیر روایتی جنگ کے میدانوں میں قوانین کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی لیکن اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکی فوج بھی سی آئی اے کی ڈھال میں قوانین کو پامال کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے دو تفتیش کار پاکستان میں بعض کارروائیوں پر سی آئی اے کو ممکنہ جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں اور ڈرون پروگرام میں فضائیہ کی شمولیت کے انکشاف کے بعد امریکی ائیرفورس کے اہل کاروں کو بھی قانونی چارہ جوئیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 373219
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش