0
Tuesday 12 Oct 2010 11:23

پاکستان کی فضائیں ہماری ہیں،3 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں،سابق ڈائریکٹر سی آئی اے

پاکستان کی فضائیں ہماری ہیں،3 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں،سابق ڈائریکٹر سی آئی اے
واشنگٹن:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق باب ووڈ ورڈز نے اپنی حالیہ کتاب"اوباما کی جنگیں“ میں پاکستانی قیادت سے متعلق ایسے ایسے انکشافات کئے ہیں،جنہیں دیکھ کر یہ جاننا مشکل ہے آخر اسے صرف چند ماہ پرانے واقعات کے بارے میں عہدیداروں کے بیانات کا حوالہ دینے کی اجازت کیسے مل گئی،ان معاملات پر کام تاحال جاری ہے اور انہوں نے ایسے ایسے راز افشاء کئے ہیں جو پاکستان کی سیاسی قیادت کیلئے غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتے ہے۔مثال کے طور پر اپنی کتاب میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ 3 ہزار امریکی فوجیوں پر مشتمل امریکا کا ایک خصوصی فوجی دستہ افغانستان کے اندر سے پاکستان کے علاقے میں کارروائیاں کر رہا ہے۔پاکستانی ہوائی اڈے تاحال ڈرون حملوں کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں اور یہ کہ امریکا آئی ایس آئی پر اعتبار نہیں کرتا۔ 
زرداری نے سی آئی اے کے سربراہ سے واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں شہریوں کی ہلاکتوں سے ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہے۔امریکا پر اگر ایک اور حملہ ہوا تو امریکا پاکستان کے اندر 150 کیمپوں پر حملہ کریگا،اس کے علاوہ بھی بہت سی دیگر ایسی تفصیلات ہیں،جو پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں۔ووڈ ورڈز نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 52 پر لکھا ہے کہ 9 دسمبر کو صدارتی حلف لینے سے پہلے اوباما کو ڈی این آئی اور سی آئی اے کے چیف نے 14 بڑی اور خفیہ ترین کارروائیوں پر انہیں بریفنگز دیں،یہ کارروائیاں دنیا کے 60 ملکوں میں کی گئی تھیں،ان میں کسی بھی جگہ پر کیمپوں پر ہونے والے ڈرون حملوں سمیت دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف خفیہ اور ہلاکت خیز آپریشنز شامل تھے۔
پاکستان میں آپ کیا کچھ کر رہے ہیں،اس موقع پر اوباما نے سوال کیا،اس کے جواب میں ہیڈن کی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے ووڈ ورڈز نے کہا ہے ” ہیڈن نے کہا کہ دنیا بھر میں امریکا کی ہونیوالی80 فیصد کارروائیاں پاکستان میں ہوتی ہیں۔ان کے الفاظ تھے” فضائیں ہمارے تصرف میں ہیں“۔انہوں نے مزید کہا کہ ” ڈرون پاکستان سے ہی آتے ہیں اور پاکستان کے اندر ہی خفیہ اڈوں پر اترتے ہیں۔القاعدہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو تربیت دے رہی ہے،اور اگر آپ انہیں واشنگٹن ایئر پورٹ پر ویزا والوں کی قطار میں کھڑے ہوئے دیکھیں گے،تو آپ کبھی نہیں جان سکیں گے کہ ان سے کوئی امکانی خطرہ ہے۔دیگر آپریشنز کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کارروائیاں ایران،شمالی کوریا،ترکی،سوڈان،عراق، اردن وغیرہ میں ہو رہی ہیں۔
 افغانستان کے حوالے سے انہوں نے بھونچکا کر دینے والے انکشافات کئے۔ڈرون حملوں کے علاوہ انہوں نے انکشاف کیا کہ سی آئی اے کے پاس انسداد دہشتگردی کے تعاقب کیلئے فوجیوں پر مشتمل 3 ہزار جوان موجو ہیں۔یہ اعداد و شمار ہیڈن نے اس وقت دیئے جب ابھی اوباما نے صدارت کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔بعد میں سی آئی اے کے نئے سربراہ لیون پنیٹا،اور قومی سلامتی کے مشیر جم جونز کو کیانی اور زرداری سے اس معاملے پر بات چیت کیلئے اس وقت پاکستان بھیجا،جب فیصل شہزاد نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں بم دھماکے کے مقدمے میں پکڑا گیا۔ان ملاقاتوں کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی کس طرح افغانستان اور پاکستان کے اندر کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پنیٹا نے فرسٹریشن میں پوچھا کہ ” ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ جنگ لڑیں،جبکہ سرحد پار (دہشتگردوں) کے محفوظ اڈے بھی ہوں۔انہوں نے بتایا کہ تازہ ترین انٹیلی جنس میں طالبان جنگجو ہر قسم کے اسلحہ کے ساتھ سرحد پار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، افغانستان کے اندر جا کر امریکیوں کو مارنے کے لئے ایسی چوکیوں سے ہاتھ ہلا ہلا کر بھیجا جا رہا ہے،جنہیں پاکستانی کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ” یہ جنگ بالکل پاگل پن والی ہے“۔
ووڈ ورڈز نے لیون پنیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے ان کا کہنا تھا کہ ” امریکا کو زمین پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے“انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ” یہ کام زمین پر بوٹوں کے بغیر نہیں ہو سکتا، یہ پاکستانی بوٹ بھی ہو سکتے ہیں اور ہمارے بوٹ بھی ہو سکتے ہیں،لیکن ہمیں بہر حال زمین پر کچھ بوٹ چاہئیے ہوں گے۔سریع الرفتار حملہ آور امریکی یونٹس بہت زیادہ نمایاں ہیں۔یہ خفیہ جنگ کی توسیع کا ایک بہت بڑا متبادل تھا۔اور اب انکی ٹیمیں انسداد دہشتگردی کے تعاقب میں پاکستان کے اندر سرحد پار کارروائیاں کر رہی ہیں۔
ووڈ ورڈز ڈرون حملوں کے بارے میں صدرزرداری کے ایک بھونچکا دینے والے بیان کا حوالہ بھی دیتے ہیں،اپنی کتاب کے صفحہ 26 میں وہ روداد لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک ہیڈن نیویارک میں انٹرکانٹینینٹل بارکلے ہوٹل میں زرداری سے ملے، جہاں امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی بھی ان سے ملنے کے منتظر تھے۔اس وقت پاکستان میں ڈرون حملے ہو رہے تھے اور متعدد حادثاتی اموات ہو چکی تھیں اور پاکستانی میڈیا اس معاملے پر امریکا پر زبردست تنقید کر رہا تھا۔لیکن ووڈ ورڈز کا کہنا ہے کہ یہ محض آدھی کہانی تھی۔ہیڈن نے زرداری کو بتایا کہ بہت سے مغربی بالخصوص چند امریکی پاسپورٹ کے حامل افراد اس سے پانچ دن پہلے شمالی وزیر ستان کے علاقے کام شام میں موجود تربیتی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔لیکن سی آئی اے نے اسکی تفصیلات بیان نہیں کیں کیونکہ امریکی قوانین کے تحت اس کے مضمرات ہو سکتے تھے۔سی آئی اے کے اعلیٰ خفیہ نقشے میں ان حملوں کی تفصیلات موجود ہیں جو پاکستانیوں پر کئے گئے۔اس میں جو چیز ایک خطرناک حقیقت کے طور پر سامنے آئی،وہ امریکیوں کی ہلاکتوں کی تفصیلات کا موجودہ نہ ہونا ہے۔تو کیا القاعدہ امریکی شہریوں پر مشتمل ففتھ کالم(غداروں کا دستہ) تیار کر رہی ہے،جنہیں امریکی امیگریشن اور کسٹم سے گزرنے کیلئے کسی ویزے کی ضرورت نہیں۔سی آئی اے نے اسکی وضاحت نہیں کی۔
کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس بات چیت کے ایک گھنٹے بعد پاکستانی صدر نے ہیڈن سے بالمشافہ ملاقات کی۔زرداری ڈرون سے ہونیوالی شہری ہلاکتوں کے قضیئے پرلگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنا چاہتے تھے۔وہ ستمبر میں نئے نئے صدر بنے تھے اور اپنی مقبولیت کم ہونے کا خدشہ مول لے سکتے تھے۔سینئر القاعدہ رہنماؤں کے خلاف کام کرنے کی ایک لاگت معصوم شہریوں کی ہلاکتیں تھیں۔زرداری نے کہا کہ ”آپ سینئرز کو ماریں“ انسانی جانوں کا ضیاع آپ امریکیوں کو پریشان کرتا ہو گا مجھے اسکی کوئی فکر نہیں۔اس بھونچکا کرنے والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ووڈ ورڈز نے کہا کہ ” زرداری نے سی آئی اے کو آگے بڑھنے کیلئے صرف ایک اہم اشارہ دیا"۔
ووڈ ورڈز کی کتاب میں جولائی 2010ء کے بعد ہونے والے واقعات کا حوالہ نہیں ہے،کیونکہ یہ اس سے پہلے ہی شائع ہو چکی تھی،لیکن پنیٹا اور جونز کی ٹیم کی جانب سے کی گئی نیٹو کے ہیلی کاپٹر حملوں کی روشنی میں اس سب کچھ کی تصدیق ہوتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے جس کا حوالہ مئی میں ووڈ ورڈز نے دیا اور یہ چیز جنگ کی موجودہ حالت کو نئے معنی دیتی ہے،ان حملوں کے بارے میں نیٹو نے پہلے دعویٰ کیا کہ یہ ذاتی دفاع کیلئے تھے اور جب اس معاملے پر پاک فوج نے غضبناک ردعمل کا اظہار کیا اور نیٹو کی رسد روک دی تو اس سے امریکی حکام میں افراتفری پھیلی اور انہوں نے ہر سطح پر معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔
ووڈ ورڈز نے پنیٹا اور جونز کی زرداری اور جنرل کیانی سے ملاقاتوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی مقتدر مثلث کے مختلف کھلاڑی دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ سے نمٹ رہے ہیں۔ووڈ ورڈز کا کہنا ہے کہ ”جونز اور پنیٹا “ کسی بریک تھرو کے خواہاں تھے،انہیں امید تھی کہ اب کی بار مختلف ردعمل ہو گا۔اب اس امر کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے کہ پاکستان میں تربیت پانے والا کوئی شخص امریکی سرزمین پر ہلاکت خیز حملہ کرے۔اپنے گزشتہ پاکستانی دوروں میں انہوں نے پاکستانی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ القاعدہ کوئٹہ شوریٰ طالبان، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے زیر استعمال محفوظ ٹھکانوں کے خلاف زیادہ کارروائی کرے۔ پاکستانی البتہ گزشتہ ایک برس سے یہی بات دہرا رہے ہیں کہ ان کی بڑی ترجیح ٹی ٹی پی ہے،اب جونز اور پنیٹا کو انہیں اس گروپ کے خلاف مزید کارروائی کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
ووڈ ورڈز کا کہنا ہے کہ زرداری اور دیگر اہم عہدیداروں سے ایک ملاقات میں جونز کا کہنا تھا کہ ”ہم مانگے ہوئے وقت پر گزارا کر رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ٹائمز اسکوائر بم حملے کی کوشش ایک کامیاب منصوبہ تھا،کیونکہ نہ تو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور نہ ہی امریکی انٹیلی جنس اسے روک پائی یا اسے جان پائی۔یہ محض قسمت تھی،جس نے ہمیں بڑی تباہی سے بچا لیا “ووڈ ورڈز کے مطابق جونز کا کہنا تھا کہ صدر اوباما چار چیزیں چاہتے تھے،ان میں سے ایک پوری انٹیلی جنس شیئرنگ،دوسرا انسداد دہشتگردی پر مزید تعاون،تیسرا امریکی باشندوں کیلئے ویزا کی جلد منظوری اور آخری ماضی کے انکار کے باوجود ایئر لائن کے مسافروں کا ڈیٹا شامل تھے۔انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ” خدا نہ کرے شہزاد کی گاڑی (ایس یو سی ) اگر ٹائمز اسکوائر میں پھٹ پڑتی تو ہم یہاں بات چیت نہ کر رہے ہوتے۔اس صورت میں امریکی صدر وہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہوتے،جو پاکستانی کرنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر،پاکستان میں موجود ہر کسی کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی پاکستانی گروپ سے منسلک کوئی کامیاب حملہ ہوتا ہے،تو کچھ ایسی چیزیں ہوں گی،جنہیں وہ خود بھی روک نہیں پائیں گے۔بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں سیاسی حقائق ہیں۔ایسے ہی سیاسی حقائق امریکا میں بھی ہیں۔زرداری نے جواب میں کہا” ایک سیکنڈ ! اگر ہمارے مابین اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہو تو جس قسم کے بحران کا آپ حوالہ دے رہے ہیں،اس صورت میں ہم اس سے تقسیم ہونے کے بجائے ہم ایک دوسرے کے قریب کیوں نہیں آ پائیں گے۔جونز کا کہنا تھا کہ ” اس صورت میں صدر اوباما کا واحد چوائس جواب دینا ہو گا اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہو گا۔اگر امریکا اب پاکستان کے اس رویئے کو زیادہ برداشت نہیں کر سکتا،جس کے مطابق پاکستان نے چند دہشتگرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی ہے،جبکہ دیگر کو اگر چلا نہیں بھی رہا،تو انکی حمایت ضرور کر رہا ہے۔آپ رشین رولیٹ (جان کا جوا ) کھیل رہے ہیں۔ا س کھیل میں اب تک آپ نے جب بھی اپنے سر پر گولی چلائی تو آپ کے پستول کا چیمبر کئی مرتبہ خالی نکلا ہے،لیکن کسی نہ کسی دن اس میں گولی ہو گی “۔
جونز نے امریکی ردعمل کی تفصیٰلات نہیں بتائیں،ووڈ ورڈز کے مطابق یہ مہم پاکستان کے اندر موجود دہشتگردوں کے 150 معروف ٹھکانوں پر بم حملوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔جونز نے مزید کہا کہ” آپ کچھ ایسا کر سکتے ہیں جس سے آپ کی رقم خرچ نہ ہو۔سیاسی طور پر یہ چیز مشکل ہو سکتی ہے،لیکن اگر آپ لوگوں کے ذہن میں واقعی آپ کے ملک کا مستقبل موجود ہے،تو یہ بالکل ٹھیک چیز ہے،آپ کو اپنی سرحدوں کے اندر اپنی قومی پالیسی کے ایک فعال آلے کے طور پردہشتگردی کی ہر صورت کو مسترد کرنا ہو گا“۔زرداری نے اس موقع پر کہا کہ ”ہم مسترد کر چکے ہیں“ اس موقع پر جونز نے اختلاف کی اجازت طلب کرتے ہوئے پاکستا ن کی جانب سے ملاعمر کی کوئٹہ شوریٰ،حقانی نیٹ ورک،افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے والے طالبان کے دو بڑے گروپس کی حمایت کے شواہد کا حوالہ دیا۔
پنیٹا کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی اور دیگر انٹیلی جنس اداروں سے کئے گئے انٹرویوز کے نتیجے میں انہیں ٹی ٹی پی کے کام کا ایک اہم خاکہ مل گیا ہے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائمز اسکوائر میں بم حملہ کرنے والے فیصلے شہزاد کے روابط ہیں۔انہوں نے اس موقع پر روابط پر مبنی ایک چارٹ دکھایا جس میں اس کے روابط کی تفصیلات تھیں۔انہوں نے پاکستانی رہنماؤں کو یہ نام بتانے کیلئے اپنی انگلی استعمال کی۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ ” یہ نیٹ ورک ہے،اسکی لیڈز یہاں تک ہیں“ اور ہمیں انٹیلی جنس اسٹریمز مل رہی ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی ٹی پی امریکا میں مزید حملوں کیلئے تیاری کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ چیز کوئی قیاس آرائی نہیں ہے،یہ ٹھوس انٹیلی جنس ہے۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ ” بات صاف رکھنے کیلئے خدا کا شکر ہے کہ ٹائم اسکوائر پر بم حملے کی کوشش کرنے والے نے پوری تربیت حاصل نہیں کی تھی۔اسکی تربیت بہت معمولی تھی۔لیکن اگر یہ پھٹ جاتا تو شاید سیکڑوں،ہو سکتا ہے ہزاروں امریکی مرجاتے۔
جونز کا نکتہ سمجھتے ہوئے پنیٹا نے کہا کہ ”اگر یہ ہو تا ہے تو سب شرطیں ورطیں ختم !“اس موقع پر زرداری نے دفاعی لہجے میں کہا کہ ” اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم اچانک ہی برے لوگ یا اسی قسم کی کوئی چیز بن گئے ہیں،اس کے باوجود ہم پارٹنرز ہیں“۔اس موقع پر جونز اور پنیٹا دونوں نے کہا کہ ” نہیں“ ایسی صورت میں اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو بچانے کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔جونز اور پنیٹا جنرل کیانی سے بھی نجی طور پر ملے، ووڈ ورڈز بتاتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا کہ ”چاروں معاملات پر گھڑی کی سوئی اب سے چلنا شروع ہو گئ ہے۔اوباما 30 دن میں پراگریس رپورٹ چاہتے ہیں۔“لیکن کیانی نے زیادہ جھکنے کا تاثر نہیں دیا۔انہوں نے اپنے تحفظات بیان کئے “ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ” خود میں وہ پہلا شخص ہوں،جو یہ اعتراف کروں گا کہ میری پوری توجہ بھارت پر ہے۔“
کیانی کے ساتھ ملاقات میں پنیٹا نے سی ائٓی اے آپریشنز کیلئے اضافی درخواستیں بھی پیش کیں۔ پنیٹا کو یہ یقین تھا کہ جنگ کی تاریخ میں ڈرون اور پائلٹ کے بغیر دیگر طیارے بہت درستگی سے نشانے کو ہدف بنانے والے ہتھیار ہیں۔وہ ان کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے خواہاں تھے۔پاکستان نے مخصوص جغرافیائی علاقوں میں ڈرون (پریڈیٹر) طیاروں کی اڑان کی اجازت دے رکھی ہے انہیں ” بکسے“ کہا جاتا ہے۔جب سے پاکستان نے جنوب میں زمینی فوج میں معتدبہ اضافہ کیا ہے،اس وقت سے انہوں نے اس علاقے میں کسی ” بکسے “ کی اجازت نہیں دی۔پنیٹا کا کہنا تھا کہ ” ہمیں بکسوں کی ضرورت ہے“ کیانی کا کہنا تھا کہ ”ہمیں اپنی کارروائیاں کرنیکی ضرورت ہے۔“ تاہم انہوں نے اتنا کہا ہم دیکھیں گے،آیا انہیں کسی علاقے تک رسائی دی جاسکتی ہے یا نہیں۔مئی میں پاکستان میں ہونیوالی اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے انہوں نے کہا ووڈ ورڈز انکشاف کرتا ہے،پنیٹا اور جونز اس احساس کے ساتھ اسلام آباد سے واپس لوٹے کہ انہوں نے وہاں بچوں کے دو قدموں جتنی پیشرفت کی ہے۔

خبر کا کوڈ : 40040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش