0
Friday 7 Nov 2014 13:30

امریکی صدر کا ایران کے سپریم لیڈر کو خفیہ خط، وال اسٹریٹ جنرل کا دعویٰ

امریکی صدر کا ایران کے سپریم لیڈر کو خفیہ خط، وال اسٹریٹ جنرل کا دعویٰ
اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی جمعرات کی اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ ماہ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کو ایک خفیہ خظ لکھا ہے، جس میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات اور دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل کے بقول اس خفیہ خط کا مقصد دہشتگرد گروہ داعش کی پیش قدمی کو روکنا اور ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی مذاکرات کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس خفیہ خط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اوباما کی نظر میں داعش کیخلاف جنگ میں ایران کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ ایران اس حوالے سے تعمیری یا منفی رول ادا کرسکتا ہے۔ آگاہ افراد کے حوالے سے یہ رپورٹ بھی آئی ہے کہ باراک اوباما نے ایرانی سپریم لیڈر کے نام اپنے اس خفیہ خط کے حوالے سے اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جسے دیرینہ اتحادیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔
 
وال اسٹریٹ جنرل مزید لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں پیشرفت اور اس حوالے سے تل آویو اور خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک کے تحفظات کی وجہ سے اعلٰی امریکی حکام اس خط کے حوالے سے اظہار نظر کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں، لیکن جب غیر ملکی سفارتکاروں نے ان سے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے اس خط کے وجود سے انکار نہیں کیا۔ وال اسٹریٹ جنرل کا کہنا ہے کہ ہر چند کہ امریکہ نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ داعش کے ساتھ جنگ میں ایران کے ساتھ اسکی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے لیکن بعض موارد میں عراقی حکومت اور آیت اللہ سیستانی کے توسط سے ایران کو بعض پیغامات ارسال کئے گئے ہیں۔
اس خفیہ خط سے باخبر ایک اعلٰی امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہم نے عراقی حکومت اور آیت اللہ سیستانی کے ذریعے ایران کو یہ پیغام ارسال کیا ہے کہ ہمارا ہدف صرف داعش ہے اور یہ کہ ہم داعش کیخلاف اپنی اس کارروائی سے دوبارہ عراق پر قبضے یا ایران کو کمزور کرنے کیلئے استفادہ نہیں کریں گے۔
 
یہ خبر ایسی حالت میں منتشر ہوئی ہے کہ دو ماہ پیش جب امریکی حکام داعش کیخلاف جنگ کے حوالے سے اتحاد تشکیل دے رہے تھے تو مغربی میڈیا نے بڑی شد و مد سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس اتحاد میں ایران کی موجودگی مناسب نہیں ہے، جبکہ چند دن بعد ہی مغربی میڈیا کے اس دعویٰ کے برعکس رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ امریکہ کئی بار ایران سے داعش کے خلاف اس اتحاد میں شمولیت کی درخواست کرچکا ہے۔ مقام معظم رہبری کے بقول امریکہ عراق میں موجود ایرانی سفیر کے ذریعے اور مستقیماً امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اسی طرح وزارت خارجہ کی قائم مقام مسئول وینڈی شرمن کے ذریعے بھی اس حوالے سے درخواست کرچکا ہے۔ دراین اثناء امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جاش ارنسٹ سے جب وال اسٹریٹ جنرل کی اس رپورٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس خصوصی خط کی تائید نہیں کرسکتے اور یہ کہ ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق ایک امریکی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط تحریرکیا ہے، جس میں ایران سے داعش کے خلاف مہم میں تعاون حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ ماہ لکھے گئے اس خفیہ خط میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں مشترکہ مفاد کے بارے میں بات کی ہے۔ اخبار کے مطابق صدر اوباما کے اس خط کا مقصد داعش کے خلاف مہم میں حمایت حاصل کرنا اور جوہری معاہدے کے لئے ایرانی رہنما کو قریب لانا ہے جبکہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ متوقع جامع معاہدے کو داعش کے خلاف مدد سے مشروط قرار دیا ہے۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی سفارتی ڈیڈ لائن 24 نومبر ہے۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اتوار کو ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے اومان میں ملاقات کریں گے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خط کے بارے میں سفارتی حساسیت کے پیش نظر وائٹ ہاوٴس نے اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطٰی کے اتحادیوں کو بھی آگاہ نہیں کیا۔ ان ممالک نے ایران سے جوہری معاہدے کے لئے شرائط میں نرمی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صدر اوباما اور عالمی سربراہان کے درمیان خفیہ نجی خط و کتابت کی تردید کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں ایران اور امریکہ کے اعلٰی حکام کے درمیان داعش کے خلاف مہم کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلکنز کو اکثریت حاصل ہونے کے بعد اوباما کو ایران سے جوہری معاہدے کی کوششوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ بدھ کو صدر اوباما نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران میں امریکہ مخالف جذبات رکھنے والے کچھ سیاسی اشرافیہ ہیں۔ کیا وہ تعاون پر آمادہ ہوسکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے۔
 
2009ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر کو یہ چوتھا خط تحریر کیا ہے۔ امریکی صدر نے تہران سے تعلقات بحال کرنے کے لئے 2009ء میں آیت اللہ علی خامنہ ای کو دو خط بھیجے۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق ایرانی رہنما نے کبھی براہ راست ان کوششوں کا جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر شک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور داعش کے خلاف امریکی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے مغرب کی جانب سے اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکام کا بھی یہی خیال ہے کہ اوباما ایرانی سپریم لیڈر سے روابط پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جوہری معاہدے اور داعش کے خلاف مہم پر حتمی فیصلہ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ہی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 418354
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش