0
Saturday 6 Dec 2014 13:03
دہشتگردی کیخلاف ہمارے اور امریکہ کے درمیان کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں

ڈاکٹر علی لاریجانی کی اسلام آباد میں ہونیوالی پریس کانفرنس کی تفصیل

ڈاکٹر علی لاریجانی کی اسلام آباد میں ہونیوالی پریس کانفرنس کی تفصیل
اسلام ٹائمز۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ایران کی مجلس شوریٰ اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی جو جمعرات کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر گئے تھے، انہوں نے جمعے کے دن اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا: "مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ دوست اور برادر ملک پاکستان کے دورے کے اختتام پر صحافیوں کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ آج چونکہ عالم اسلام کو اپنے مفادات اور دشمنوں کو صحیح طور پر پہچاننے کی ضرورت ہے، لہذا حقائق کو واضح کرنے میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ انتہائی شوق اور جذبے کے ساتھ عالم اسلام کے ایشوز کو کوریج دے رہے ہیں۔"

ڈاکٹر علی لاریجانی نے مزید کہا: "مختلف ایشوز پر ایران اور پاکستان مشترکہ موقف رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ میں اپنی حالیہ ملاقاتوں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایران اور پاکستان خطے کے دو اہم ملک ہونے کے ناطے، خطے میں پائیدار امن اور سیاسی استحکام پیدا کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی فضا ایجاد کرنے میں انتہائی اہم ذمہ داریوں کے حامل ہیں اور بہت سے مثبت اقدام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں ایک اچھی نگاہ کے ساتھ اپنے وطن واپس لوٹ رہا ہوں۔"

انہوں نے ایک صحافی کی جانب سے اسلامی دنیا کی مشکلات اور خطے میں داعش کے مسئلے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "اس بارے میں ایران کا موقف واضح ہے۔ جیسا کہ ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اس قسم کے دہشت گرد گروہ چاہے وہ جس نام اور عنوان کے تحت ہوں، اسلامی دنیا میں اتحاد اور وحدت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں۔ مسلمان چاہے جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، ان کا خدا، آسمانی کتاب اور پیغمبر ایک ہے اور یہ امر اتحاد کا زمینہ فراہم کرسکتا ہے۔ یہ کہ ایک گروہ اٹھے اور اپنے علاوہ سب کو کافر قرار دے، بذات خود ایک غلط اقدام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے پیچھے بیرونی ممالک کا ہاتھ ہے۔"

ایران کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے مزید کہا: "اسلام محبت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے۔ تمام اسلامی فرقے اس نکتہ پر متفق ہیں اور فروعات میں بھی ان کے درمیان مشترکہ امور کی تعداد کم نہیں۔ مسلمان فرقوں کے درمیان پائے جانے والے مسائل اور مشکلات دوسروں کے پیدا کردہ ہیں اور ان کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ہم تکفیری اور انتہا پسند گروہوں کے مخالف ہیں اور انہیں اسلامی مفادات کیلئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔" ڈاکٹر علی لاریجانی نے ایران براڈکاسٹنگ کے نمائندے کی جانب سے خطے میں موجود شرپسند عناصر کو ختم کرنے اور پاکستان سے ایران پر دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کیلئے مشترکہ اقدامات کرنے کیلئے پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "ہم نے اس بارے میں تمام پاکستانی حکام سے بات چیت کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے شرپسندانہ اقدامات ایران اور پاکستان کے درمیان موجود بھائی چارے اور دوستی میں خلل ایجاد نہیں کرسکتے۔"

انہوں نے مزید کہا: "البتہ اس بارے میں دونوں حکومتوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جس قدر دونوں ممالک کے درمیان دوستی زیادہ مضبوط ہوگی، اسی قدر ہمیں اس بات کا زیادہ خیال رکھنا پڑے گا کہ کوئی اس دوستی میں خلل ایجاد نہ کرے۔" اسپیکر قومی اسمبلی ایران نے پاکستان کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے ایران کے حساس اداروں کے تعاون سے ان چھوٹے چھوٹے مسائل پر قابو پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور مجھے توقع ہے کہ مستقبل میں اس تعاون کے ذریعے یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔"

ڈاکٹر علی لاریجانی نے دی نیوز اخبار کے نمائندے کی جانب سے اس سوال کے جواب میں کہ ایران اور سعودی عرب پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کی حمایت میں مصروف ہیں، کہا: "یہ بات ابھی آپ پر نازل ہوئی ہے اور ہم نے ماضی میں ایسی کوئی بات نہیں سنی چونکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم خود خطے میں دہشت گرد گروہوں سے روبرو ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "محققین اور دانشوروں کی بڑی تعداد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ صرف گذشتہ چند سال کے دوران ہی ہمارے کئی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ میری نظر میں ہمیں زیادہ دقیق انداز میں اس موضوع کا جائزہ لینا چاہئے۔" انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: "اگر ہم خطے پر ایک نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ جس جگہ بھی امریکیوں نے فوجی قبضہ کیا ہے جیسے افغانستان، عراق، شام تو وہاں کوئی نہ کوئی دہشت گرد گروہ بھی معرض وجود میں آیا ہے۔"

اسپیکر مجلس شوریٰ اسلامی ایران نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "البتہ ممکن ہے خطے کے بعض ممالک بھی کچھ فنی غلطیوں کے مرتکب ہوگئے ہوں لیکن امریکی ایک جگہ قبضہ کرتے ہیں اور مسائل پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ملک کو اپنے حال پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، پھر وہ ملک رہ جاتا ہے اور اس کے مسائل رہ جاتے ہیں۔" ڈاکٹر علی لاریجانی نے ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "پہلی بات تو یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ انتہائی اہم منصوبہ ہے جس کا زیادہ تر فائدہ پاکستان کو ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں پاکستانی عوام کی انرجی کی ضروریات کی ضمانت فراہم ہو جائے گی۔ اسی طرح ایران کو بھی یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ اسے اپنی گیس دیگر ممالک کو بیچنے کا موقع مل جائے گا۔ جیسا کہ ایران ترکی کو گیس برآمد کر رہا ہے۔ لہذا میری نظر میں یہ منصوبہ دونوں ممالک کیلئے انتہائی اہم ہونا چاہئے کیونکہ اقتصادی مفادات کے ساتھ ساتھ خطے میں پائیدار امن کا بھی باعث بنے گا۔ میرے خیال میں ابتدائی معاہدے کی روشنی میں اس منصوبے کا کام موجودہ حد سے کہیں زیادہ انجام پا لینا چاہئے تھا لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے دی جانے والی وضاحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔"

ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے داعش کے خلاف ایران اور امریکہ کے مشترکہ ہوائی حملوں کے امکان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "مجھے نہیں معلوم اس قسم کی خبروں کا سورس کیا ہے؟ لیکن میں نے ابھی تک کوئی ایسی خبر نہیں سنی اور اس خبر کی تصدیق بھی نہیں کرتا۔ دہشت گردی سے مقابلے میں ہمارے اور امریکہ کے درمیان کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں پایا جاتا۔" انہوں نے مزید کہا: "ہمارا امریکہ سے ان دہشت گردانہ گروہوں کی پیدائش اور خاص انداز میں معرض وجود میں آنے پر جھگڑا چل رہا ہے۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا آغاز سب سے پہلے شام میں ہوا، ان 4 سالوں کے دوران کون انہیں اسلحہ اور پیسہ فراہم کرتا رہا؟ ابھی چند ماہ پہلے تک امریکی حکام ان پر "مجاہد" کا لیبل لگا کر جہاں تک ہوسکا انہیں پیسہ فراہم کیا کرتے تھے۔"

انہوں نے دہشت گردی کے مقابلے میں ان نظریاتی اور پالیسی کے اختلافات پر زور دیتے ہوئے کہا: "اس وقت ہم مغربی ممالک کو یہ کہہ کہہ کر تھک گئے کہ جن لوگوں کی آپ مدد کر رہے ہیں وہ عنقریب ایک نئے دہشت گرد گروہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آئیں گے، لیکن انہوں نے ہماری بات پر کان نہ دھرے اور ایسا ہی ہوا جو ہم کہہ رہے تھے۔" ڈاکٹر علی لاریجانی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ داعش سے مقابلے میں سنجیدہ نہیں، کہا: "آپ بتائیں کہ داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں بننے والے اتحاد نے اب تک کیا کیا؟ چند بار ہوائی حملے انجام دیئے اور چپ کرکے بیٹھ گئے۔ کیا آپ کی نظر میں ایک گوریلا فورس کو ہوائی حملوں سے ختم کیا جاسکتا ہے؟"

انہوں نے مزید کہا: "ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ان اقدامات کے ذریعے صرف شور شرابہ مچانا چاہتے ہیں اور داعش مخالف اتحاد میں شامل بعض ممالک ایسے ہیں جو ماضی میں داعش کے ساتھ تعاون کرچکے ہیں لیکن اب وہ داعش کے خلاف بے بس نظر آتے ہیں۔" ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے یہ تاکید کرتے ہوئے کہ ایران پروپیگنڈے اور شور شرابے کے پیچھے نہیں، کہا: "ہم اس وقت سے ہی اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے خلاف تھے جب اس نے شام میں غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کا آغاز کیا اور آج تک اس کے مخالف ہیں۔ لیکن ایران نے آج تک نہ تو براہ راست طور پر اور نہ ہی کسی کے تعاون سے اسے ہوائی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا کیونکہ ایران اسے ایک نادرست اقدام سمجھتا ہے۔ دہشت گردی سے مقابلہ ہوائی حملوں کے ذریعے ممکن نہیں۔"

انہوں نے ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ ایران کے دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات میں ایران کے سپریم لیڈر نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا تھا، لہذا اس بارے میں دونوں ممالک نے کیا اقدامات انجام دیئے ہیں؟ کہا: "ایران کے سپریم لیڈر ہمیشہ سے پاکستان کے بارے میں امور سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے فروغ پر تاکید کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر قسم کے حالات میں ایکدوسرے کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ ہماری تقدیریں ایک ہیں اور ہم ایکدوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کر سکتے ہیں۔"

ڈاکٹر علی لاریجانی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دونوں ممالک بھرپور صلاحیتوں کے حامل ہیں، کہا: "ہمارے درمیان تعاون کا میدان بہت وسیع ہے۔ ہم نے حالیہ مذاکرات، خاص طور پر صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر بہت تاکید کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے حکام اس جانب موثر اقدامات انجام دیں گے۔" انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ خطے کے نئے حالات کی روشنی میں آیا ایران اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کا نیا باب کھلنے کا امکان موجود ہے؟ کہا: "ہم مثبت اقدامات کی قدر کرتے ہیں لیکن اب تک ہم نے خطے میں امریکہ کے رویے میں کسی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔"

اسپیکر قومی اسمبلی ایران نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا دونوں ممالک اقتصادی میدان میں ایکدوسرے کے قریب ہوسکتے ہیں؟ کہا: "پاکستان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایہ ممالک سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے کیلئے اس موضوع کو پہلی ترجیح میں شامل کرے۔ مثال کے طور پر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہے۔ میری نظر میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "مختلف ممالک کو صرف ایک پہلو سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ میری نظر میں پاکستان دوسرے ممالک پر تکیہ کرنے کی بجائے ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور میں نے پاکستانی رہنماوں میں عقل مندی اور سمجھ بوجھ کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ امت مسلمہ میں وحدت پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں۔"

انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے پارلیمنٹ کا اسپیکر بننے سے پہلے ایران اور مغرب کے درمیان جوہری مذاکرات کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی، لہذا آپ کی نظر میں ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان حتمی معاہدہ کب انجام پانے کا امکان ہے؟، کہا: "یہ معاہدہ دور از امکان نہیں۔ میرے خیال میں 5+1 گروپ کے ساتھ ہمارے مذاکرات میں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے درمیان پائے جانے والے اختلافات قابل حل ہیں۔ لیکن میری نظر میں ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کو ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں سے مربوط کرنا درست نہیں۔ میرے عقیدے میں اس کا پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں، چونکہ ہر قسم کے حالات میں ہم ترکی اور دوسرے ممالک کو گیس بیچتے آئے ہیں۔"

ڈاکٹر لاریجانی نے کہا: "شائد اس بارے میں کچھ فنی مشکلات پائی جاتی ہوں لیکن وہ یقیناً برطرف ہو جائیں گی، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ مذاکرات کو لمبا کیوں کر رہے ہیں کیونکہ ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ آج سے بہت پہلے حل ہونے کے قابل تھا۔" انہوں نے مزید کہا: "ایران کا جوہری پروگرام دوسرے ممالک سے بہت مختلف ہے۔ ہم جوہری ہتھیار بنانے کے درپے نہیں بلکہ ہم جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی لئے ہم نے این پی ٹی معاہدے کو قبول کیا اور آئی اے ای اے کی نظارت کو بھی قبول کیا ہے۔ لہذا مغربی ممالک کا ہمارے ساتھ رویہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جس سے یہ ظاہر ہو کہ حتمی معاہدہ ممکن نہیں۔"

اسپیکر مجلس شوریٰ اسلامی ایران نے کہا: "مذاکرات کو طول دینے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے پہلے یہ شور مچایا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے، اس کے بعد ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا دیں، لیکن اب وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایران نے جوہری ہتھیار نہیں بنائے۔ لیکن اگر وہ مختصر مدت میں ایران کے ساتھ کوئی حتمی معاہدہ کر لیتے ہیں تو عالمی رائے عامہ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے کی کیا وجہ تھی؟ لہذا وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کو تھوڑا لمبا اور پیچیدہ کریں اور بعض شرائط لگائیں، تاکہ اپنی ہی پیدا کردہ مشکل کو حل کرسکیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔" ڈاکٹر علی لاریجانی نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "ہمارا عقیدہ ہے کہ اس قسم کے مسائل گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ ہماری نظر میں کشمیری عوام کی رائے انتہائی محترم ہے اور ہم اس اصول کے حامی ہیں۔"
خبر کا کوڈ : 424068
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش