0
Monday 31 Jan 2011 11:14

مصر،مظاہروں میں شدت آگئی،حسنی مبارک پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ،حسنی مبارک کی فوجی و سول حکام سے ملاقاتیں

مصر،مظاہروں میں شدت آگئی،حسنی مبارک پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ،حسنی مبارک کی فوجی و سول حکام سے ملاقاتیں
قاہرہ:اسلام ٹائمز-مصر میں ایک طرف حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے تو دوسری طرف صدر حسنی مبارک پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے واضح الفاط میں کہہ دیا ہے کہ مصر میں اقتدار کی منتقلی عوامی خواہشات کی ترجمان حکومت کو ہونی چاہئے۔ دارالحکومت قاہرہ سمیت مصر کے مختلف شہروں میں چھ روز گذرنے کے باوجود لوگ بدستور سڑکوں پر ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے قاہرہ میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں رات میں بھی فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔ پولیس نے وزارت داخلہ کی ہدایت کے بعد دوبارہ سڑکوں پر گشت شروع کر دیا ہے۔ جمعے کو فوج کی تعیناتی کے بعد پولیس غائب ہو گئی تھی۔
 سرکاری ٹی وی کے مطابق مظاہروں کے دوران گرفتار افراد کی تعداد تین ہزار دو سو ہو گئی ہے۔ سیکیورٹی کی بدترین صورتحال، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات نے عام لوگوں کو پریشان اور اپنی حفاظت خود کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جن سڑکوں پر کل تک ٹریفک رواں دواں تھی وہاں اب نو جوان فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ عدم تحفظ کے احساس سے دوچار عام مصریوں کی اس پریشانی کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آتا۔ تاہم حکومت نے یہ ضرور کیا کہ کرفیو میں مزید ایک گھنٹے کی توسیع کر دی اور اس کا دورانیہ سترہ گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن کرفیو کی پابندی کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔ سیاحوں اور مصری شہریوں نے ملک سے نکلنا شروع کر دیا ہے جبکہ کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو مصر نہ جانے کی ہدایت کی ہے۔ صدر حسنی مبارک صورت حال پر قابو پانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ روز فوجی ہیڈکوارٹر میں اجلاس کی صدارت کی جس میں ملکی صورتحال پر غور کیا گیا۔ صدر نے نئے وزیر اعظم احمد شفیق کو خط لکھ کر مہنگائی کم کرنے اور سبسڈی برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
 ادھر واشنگٹن میں مصر کی صورت حال پر صلاح و مشورے جاری ہیں۔ صدر بارک اوباما نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ترکی، اسرائیل اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کے ساتھ فون پر تبادلہ خیال کیا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر اوباما نے کہا کہ مصر میں اقتدار ایسی حکومت کو منتقل کیا جائے جو عوامی خواہشات کی ترجمان ہو۔ لندن میں برطانوی حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کیمرون اور صدر اوباما نے مصر میں جامع سیاسی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ادھر جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی مصری صدر کو فون کیا اور ان پر زور دیا کہ سیکیورٹی فورسز کو تشدد سے باز رہنے کا حکم دیا جائے۔
ادھر زبردست عوامی احتجاج کے باوجود صدر حسنی مبارک اقتدار چھوڑنے پر راضی نہیں۔ معمر صدر نے اتوار کو اعلیٰ فوجی اور سول حکام سے ملاقاتیں کیں اور احتجاج کے خلاف حکمت عملی پر غور کیا۔ اتوار کو صدر حسنی مبارک نے آرمی چیف، اعلیٰ فوجی کمانڈروں سمیت گزشتہ روز ہی مقرر کئے گئے نائب صدر عمر سلیمان، وزیر دفاع محمد حسین تنتاوی سے ملاقات کیں۔ اس دوران عوامی احتجاج سے پیدا صورتحال پر غور کیا گیا۔ دوسری جانب مصر میں چھ روز سے جاری احتجاج کے دوران سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ ملک میں جاری فسادات اور ہنگاموں کے باعث امریکا سمیت متعدد ملکوں نے اپنے شہریوں کو نکالنے کے لئے انتظامات شروع کر دیئے ہیں۔ انہیں یورپ تک پہنچانے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ ہنگاموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جیلوں سے سینکڑوں قیدی بھی فرار ہو گئے۔ ایک سیکورٹی افسر نے بتایا قاہرہ کے ابوزابل جیل کے اطراف سے درجنوں قیدیوں کی لاشیں ملی ہیں۔ ملک کے متعدد پیٹرول پمپ بند ہیں اور بنکوں کو لوٹ لیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 52670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش