Sunday 8 May 2011 20:46
نیویارک:اسلام ٹائمز۔ دور جدید کے عظیم امریکی مفکر نوم چومسکی اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر خوش نہیں۔ انہوں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکیوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ اگر عراقی کمانڈوز جارج بش کے کمپاؤنڈ میں اتریں، جارج بش کو قتل کریں اور اس کی لاش سمندر برد کر دیں، تو امریکیوں کا کیا ردعمل ہو گا۔ یہ بات عیاں ہے اسامہ بن لادن کی ہلاکت سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ امریکی کارروائی میں بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نہتے اسامہ بن لادن کو زندہ پکڑنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آپریشن میں اسّی کمانڈوز نے حصہ لیا۔ کوئی خاص مزاحمت بھی نہیں ہوئی۔ اسامہ زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ قانون کا احترام کرنیوالے معاشرے میں ملزمان کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔
سن دو ہزار دو میں ایف بی آئی کے سربراہ نے بتایا تھا کہ گہری تفتیش کے بعد یہ یقین ہے کہ نائین الیون حملے اسامہ نے کرائے، طالبان نے امریکا سے بار بار کہا انہیں ثبوت دیئے جائیں تو وہ اسامہ کو افغانستان بدر کر دیں گے۔ طالبان کی پیشکش مسترد کر دی گئی۔ اور دنیا کو معلوم ہو گیا کہ امریکا کے پاس اسامہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
نوم چومسکی کہتے ہیں کہ دو مئی کو براک اوباما نے وہائٹ ہاوس سے جاری بیان میں جھوٹ بولا، اوباما نے کہا کہ امریکا کو جلد پتہ چل گیا تھا کہ نائین الیون کے حملے القاعدہ نے کیے۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ کا ویڈیو اعتراف توجیح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ نوم چومسکی کہے کہ اُس نے بوسٹن میراتھن جیت لی ہے۔ امریکا میں اسامہ کی پاکستان میں موجودگی پر شد و مد سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ لیکن سیاسی قتل کے لیے پاکستانی حدود کی امریکی خلاف ورزی پر کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ امریکا کے خلاف پاکستانی رائے عامہ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اسامہ کی لاش سمندر برد کرنے سے عالم اسلام میں تشویش اور غصہ ہے۔
صدر جارج بش کے جرائم کی فہرست اسامہ بن لادن کے جرم سے طویل ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسامہ ملزم تھا اور صدر بش فیصلہ ساز۔ جس نے مشرق وسطٰی کو جنگ و جدل میں دھکیل دیا۔ کیوبا کو مطلوب دہشت گرد بوش کو کیوں بھلایا جا رہا ہے۔ جسے امریکا نے پناہ دی۔ وہ کیلیفورنیا میں پرسکون طبعی موت مرا۔ جارج بش کا فلسفہ ہے کہ دہشتگردوں کو پناہ دینے والے معاشرے بھی برابر کے مجرم ہیں۔ بش کا فلسفہ اور آپریشن جیرونیمو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ امریکا پر چڑھائی کی جائے، اسے تباہ کر دیا جائے اور اس کے مجرم صدر کو قتل کر دیا جائے۔
سن دو ہزار دو میں ایف بی آئی کے سربراہ نے بتایا تھا کہ گہری تفتیش کے بعد یہ یقین ہے کہ نائین الیون حملے اسامہ نے کرائے، طالبان نے امریکا سے بار بار کہا انہیں ثبوت دیئے جائیں تو وہ اسامہ کو افغانستان بدر کر دیں گے۔ طالبان کی پیشکش مسترد کر دی گئی۔ اور دنیا کو معلوم ہو گیا کہ امریکا کے پاس اسامہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
نوم چومسکی کہتے ہیں کہ دو مئی کو براک اوباما نے وہائٹ ہاوس سے جاری بیان میں جھوٹ بولا، اوباما نے کہا کہ امریکا کو جلد پتہ چل گیا تھا کہ نائین الیون کے حملے القاعدہ نے کیے۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ کا ویڈیو اعتراف توجیح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ نوم چومسکی کہے کہ اُس نے بوسٹن میراتھن جیت لی ہے۔ امریکا میں اسامہ کی پاکستان میں موجودگی پر شد و مد سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ لیکن سیاسی قتل کے لیے پاکستانی حدود کی امریکی خلاف ورزی پر کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ امریکا کے خلاف پاکستانی رائے عامہ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اسامہ کی لاش سمندر برد کرنے سے عالم اسلام میں تشویش اور غصہ ہے۔
صدر جارج بش کے جرائم کی فہرست اسامہ بن لادن کے جرم سے طویل ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسامہ ملزم تھا اور صدر بش فیصلہ ساز۔ جس نے مشرق وسطٰی کو جنگ و جدل میں دھکیل دیا۔ کیوبا کو مطلوب دہشت گرد بوش کو کیوں بھلایا جا رہا ہے۔ جسے امریکا نے پناہ دی۔ وہ کیلیفورنیا میں پرسکون طبعی موت مرا۔ جارج بش کا فلسفہ ہے کہ دہشتگردوں کو پناہ دینے والے معاشرے بھی برابر کے مجرم ہیں۔ بش کا فلسفہ اور آپریشن جیرونیمو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ امریکا پر چڑھائی کی جائے، اسے تباہ کر دیا جائے اور اس کے مجرم صدر کو قتل کر دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 70602
منتخب
28 Apr 2024
28 Apr 2024
28 Apr 2024
27 Apr 2024
ممکن نہیں خدا کی قسم احتساب ذات
جب تک ترا ضمیر ترا محتسب نہ ہو