0
Monday 19 Sep 2011 13:33

نائن الیون کا واقعہ سینئر اور جونیئر بش کی ملی بھگت سے رونما ہوا، تحقیقاتی رپورٹ

نائن الیون کا واقعہ سینئر اور جونیئر بش کی ملی بھگت سے رونما ہوا، تحقیقاتی رپورٹ
لندن:اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے پرائیویٹ تحقیقاتی پینل نے نائن الیون کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ سینئر جارج بش اور جونیئر جارج ڈبلیو بش دونوں ہی کی ملی بھگت سے رونما ہوا کیونکہ سینئر جارج بش طویل عرصے سے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرکے تیل کے ذخائر پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے۔ اسکے بعد جونیئر جارج ڈبلیو بش نے تیل کے ذخائر تک مکمل رسائی کیلئے عربوں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات استوار کئے اور خاص طور پر سعودی شاہی خاندان اور کویت کی رائل فیملی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے میں انہوں نے بعض ایسے فیصلے بھی کئے جو کہ عالمی سفارتی اصولوں کے منافی تصور ہوتے ہیں، ان میں نائن الیون کا واقعہ اور پھر عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کو جواز بنا کر فوجی کارروائی کے علاوہ افغانستان میں طالبان کو القاعدہ کا حصہ قرار دیکر اس پورے خطے میں فوجی مداخلت جیسے واقعات میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
 اس ضمن میں جونیئر جارج ڈبلیو بش کے علاوہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر اور پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نائن الیون کا مشن سعودی ہائی جیکروں کے ساتھ امریکی تعاون کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ اس واقعہ کو اب امریکی سکیورٹی فیلیئر کا نام دیا جائے یا اس میں اسرائیلی ہاتھوں کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جائے۔ یہ دراصل اندھا دھند واقعہ بنا دیا گیا ہے جو کہ اپنے اندر بے پناہ پوشیدہ سوالات رکھتا ہے۔ امریکہ کے پرائیویٹ تحقیقاتی پینل میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو کہ ماضی میں امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ باضابطہ طور پر منسلک رہے ہیں، اسکے علاوہ تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنیوالوں میں مصری اور فرانسیسی سول انجینئروں اور سوی ایوی ایشن سے وابستہ نامور عالمی شخصیات پر مشتمل ایک ٹیم مشتمل ہے۔ 
تحقیقاتی رپورٹ کا ایک حصہ پاکستان اور مصر کے بارے میں بھی ہے، جس میں رمزی یوسف کی پاکستان سے گرفتاری اور پھر امریکی سی آئی اے کو اسکی حوالگی کے بارے میں اس وقت کے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر رحمان ملک کے بھرپور تعاون کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی سے تعاون کرتے ہوئے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کو اپنے تحقیقاتی اداروں تک مکمل رسائی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ایف بی آئی کی ٹیم کے سربراہ جیمز وولسی جو کہ 13 اپریل 1993ء کو قاہرہ میں سی آئی اے کے 20 اہلکاروں کے ہمراہ وہاں تحقیقات کیلئے موجود تھے، یہ اہلکار مشرق وسطٰی اور ایشیا امور کے ماہر تھے۔ 
تین روز کے بعد اسی نوعیت کی ایک اور ٹیم اسلام آباد بھی پہنچ گئی جو کہ رحمان ملک سے مشاورت کے بعد پاکستان میں افغان اور عرب شدت پسندوں کیخلاف اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اسکے علاوہ جان لپکا ایف بی آئی کی انسداد دہشت گردی کی جوائنٹ ٹاسک فورس کے واشنگٹن میں میٹروپولیٹن فیلڈ آفیسر جو کہ عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے، پاکستان میں رحمان ملک کے ساتھ ملکر ایف بی آئی اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو پاکستان میں کام کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا اور انکی بھرپور معاونت خود رحمان نے کی۔ رمزی یوسف سے تحقیقات کے بعد رحمان ملک کو جو معلومات حاصل ہوئیں، اسکی بنیاد پر رحمان ملک کو محترمہ بینظیر بھٹو کے قریب ہونے کا موقع ملا۔ اسکے علاوہ رحمان ملک نے ان تحقیقاتی معلومات کی بناء پر متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب اور بحرین کے سکیورٹی اداروں کو اعتماد میں لیکر ان ممالک کے شاہی خاندانوں کیساتھ تعلقات استوار کرکے اپنی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی بھی تشکیل دیدی اور سکیورٹی فراہم کرنے کے نام پر بھاری سرمایہ بھی کمایا۔ 
اسی طرح کی دوسری شخصیت مصری سیکرٹ سروس کے جنرل عمر سلیمان کی ہے جو کہ رحمان ملک کی طرح امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کی گڈ بکس میں رہ کر بھاری سرمایہ کماتے رہے ہیں۔ امریکہ کی پرائیویٹ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ رحمان ملک کو امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کیلئے خدمات سرانجام دینے پر پاکستان کو جو اعلٰی قومی اعزاز پہلی مرتبہ دیا گیا یہ خود امریکی حکام کی سفارشات کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کا وجود ختم ہونے کی بجائے دنیا کے مختلف ممالک میں مزید پھیل گیا ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے بے لگام گروپس کی شکل میں بغیر کسی قائد کے کام کر رہے ہیں۔ یہ گروپس ماضی کی نسبت اب زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔
 رپورٹ میں بڑے واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ دنیا کی تاریخ میں انتہائی افسوسناک سانحہ تصور کیا جائیگا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن گئے لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اب عراق، افغانستان اور پاکستان کے بعد دنیا کے دیگر ممالک بھی غیرمحفوظ ہو چکے ہیں اور بے گناہ شہری عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ اسکی تمام تر ذمہ داری کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 99814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش