0
Saturday 6 Aug 2022 08:51

امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا

امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا
تحریر: بینش احمد، اٹک

نواسہ پیغمبؐر، فرزند حؓیدر اور جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسین کی فضیلت کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ حضور نبی کریم ؐکے فرزند ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 3 شعبان بروز جمعرات کو اس دنیا میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جس گھرانے کے لئے اس دنیا کا وجود عمل میں لایا گیا، یعنی ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر مدینہ میں ہجرت کے چوتھے سال پیدا ہوئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سال چھوٹے تھے۔ ولادت کی خوشخبری سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس لعاب دہن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غذا بنا، ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا۔

امام حسینؓ کی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ شہید ہوتے وقت بھی سر سجدے کی حالت میں ہے اور زبان مبارک پر رب العالمین کا مبارک نام جاری تھا۔ حضور پاکؐ دونوں شہزادوں امام حسین ؓاور امام حسن ؓسے ملنے اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء کے گھر تشریف لاتے اور دونوں صاحبزدوں کے لئے دعا فرماتے۔ احادیث کی کتب میں امام حسین ؓ کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت ؐنے امام حسنؓ و امام حسین ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "جس نے مجھ کو محبوب رکھا اور ان دونوں کو اور ان کے ماں باپ کو محبوب رکھا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔" حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمؓ تشریف لائے کہ ایک کندھے پر امام حسنؓ اور دوسرے کندھے پر امام حسینؓ سوار تھے۔ آپؐ کبھی حضرت حسنؓ کبھی امام حسین کو چومتے، کسی نے پوچھا یارسول اللہ ؐکیا یہ دونوں فرزند آپؐ کو بہت محبوب ہیں تو آپؐ نے فرمایا: "یہ مجھے بہت محبوب ہیں اور جس نے ان سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان سے بغض کیا، اس نے مجھ سے بغض کیا۔"(البدایہ و النھایہ) حضرت سعد بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ "حسن اور حسین میرے دو پھول ہیں۔"(کنزالعمال)

حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ؐ سے سنا کہ "امام حسن اور امام حضرت حسینؓ میرے بیٹے ہیں اور جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے مجھے محبوب رکھا، اس نے اللہ کو محبوب رکھا۔ اللہ پاک نے اس کو جنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ پاک سے بغض رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ میں داخل کرے گا۔" (زرقانی) سانحہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا، یزید کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے، جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا ایک ایسا واقعہ ہے، جس سے دُنیا کی تمام چیزیں متاثر ہوئیں۔ آسمان متاثر ہوا، زمین متاثر  ہوئی، حتی کہ خود خداوند عالم متاثر ہوا۔

یہ وہ غم انگیز واقعہ ہے، جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا۔ سانحہ کربلا کے بعد کئی دہائیوں تک بغداد و بصرہ میں یوم عاشور کے موقع پر سوگ منایا جاتا رہا۔ بازار بند رہتے اور لوگ سوگ کی سی کیفیت میں سارا دن غمزدہ رہ کر سانحہ کو یاد کرتے۔ اہل تشیع بدستور آج بھی اپنی روایت اور اپنے طریقے کے مطابق ان ایام کو مناتے چلے آرہے ہیں۔ مگر اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ جس ذوق و شوق اور رغبت و محبت سے کثرت سے ذکر حسین علیہ السلام کا اہتمام ہوتا تھا، اجتماع ہوتے تھے، اب وہ جوش و خروش، تسلسل اور کثرت نہیں رہی۔ بدقسمتی سے پچھلے 20، 30 سال کے اندر اس چیز کو فروغ دیا گیا کہ جو ماہ محرم میں یا شب عاشور کو شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کا جلسہ، مجلس، اجتماع یا ذکر کرے تو گویا وہ شیعہ ہے یا اس کے اندر تشیع ہے۔

افسوس! لوگ اِس خیال کے ڈر سے اتنے اخلاقی کمزور ہوچُکے ہیں کہ وہ اس تہمت کے ڈر کی وجہ سے ذکر حسین علیہ السلام کی مجالس کا اہتمام نہیں کرتے، حالانکہ تہمتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس لوگوں کی تہمت کے ڈر سے ہم میں سے کئی ذکر امام حسین علیہ السلام کی محافل منعقد نہیں کرتے اور نہ ان میں شریک ہوتے ہیں کہ لوگ شیعہ سمجھیں گے، فلاں مولوی یہ کہہ دے گا، شور مچ جائے گا، فلاں جماعت یہ کہہ دے گی، فلاں تحریک اور فلاں تنظیم یہ کہہ دے گی۔ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں لوگ بس اپنے اسٹیٹس پر ایک تصویر لگا کر غمِ حُسین منا لیتے ہیں۔ یاد رکھیں! فتنہ پیدا کرنے والے، جھوٹے فتوے لگانے والے اور راہ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں۔ یہ لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اس کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔

اس میں ظلم و ستم اور سنگ دلی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کو ان کا تصور بھی دشوار ہے اور دوسری طرف آل اطہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے 70/72 ساتھیوں کی چھوٹی سی جماعت کا باطل کے خلاف مقابلے کے ایسے واقعات ہیں کہ اُن کی مثال ملنا مُشکل ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے کس طرح دُشمن کا مقابلہ کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کی قربانی دے دی اور اپنے بچوں تک کو قربان کر دیا، لیکن حق اور سچ پر قائم رہتے ہوئے اپنی بھی جان اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دی اور شہادت کا وہ رتبہ و مرتبہ حاصل کیا کہ تا قیامت ان کی شہادت کو بھلایا نہ جا سکے گا اور ان کی شان بیان کی جاتی رہے گی۔ ہمیں چاہیئے کہ محرم کا احترام کریں اور اپنے بچوں کو بھی اِس کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ محرم کے مہینے میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کریں اور شہدائے کرام کے ایصال ثواب کے لئے نوافل کا اہتمام بھی کریں۔
خبر کا کوڈ : 1007929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش