0
Saturday 24 Sep 2022 10:57

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(7)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(7)
تحریر: محمد اشفاق شاکر

22 صفر 1440 ھجری کو حرمِ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں نمازِ فجر کی ادائیگی، زیارت اور دعا و مناجات کے بعد واپس ہوٹل آرہا تھا کہ اپنے ہوٹل "جنتُ علی" سے ذرا پہلے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا، جہاں ناشتہ تیار کیا جا رہا تھا، قریب ہوکر دیکھا تو پاکستانی سٹائل میں پراٹھے اور ساتھ آملیٹ تیار ہو رہے تھے، ویٹر کو کسی نہ کسی طرح سمجھا ہی لیا کہ میں ناشتہ کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی پراٹھہ، آملیٹ اور دودھ والی میٹھی میٹھی اگر ممکن ہو تو کڑک قسم کی چائے کے ساتھ اور پھر میری خوش نصیبی دیکھیے کہ وہ سب بالکل اسی طرح سمجھ گیا جس طرح میں سمجھانا چاہتا تھا۔ بھرپور قسم کا ناشتہ کیا اور بل ادا کرکے واپس اپنے ہوٹل پہنچ کر اس وقت تک کے لیے بغرضِ آرام لیٹ گیا کہ جب تک سالار قافلہ تیاری کا حکم نہیں دیتے۔ لیٹے لیٹے خیال آیا کہ آج سرزمینِ عراق پر نواں دن تھا اور 9 دنوں میں آج پہلی مرتبہ کچھ کھانے پر پیسے خرچ ہوئے، اس خیال کا ذہن سے گزرنا تھا کہ عراقیوں کی مہمان نوازی کو خراج تحسین پیش کرنے کے آنسوؤں کے چند قطرے آنکھوں سے رخساروں پر پھیل گئے۔

انہی خوبصورت خیالوں میں گم لیٹا تھا کہ برادر محترم سید ماجد نقوی نے بہت پیار سے آواز دی کہ جلدی جلدی تیار ہو جاؤ کہ آج کی زیارات میں مسجدِ کوفہ کی زیارت بھی شامل ہے اور اس مسجد کی زیارت کے دوران جو مستحب اعمال تعلیم کیے گئے ہیں، انہیں انجام دیتے دیتے دن کا کافی حصہ وہیں گزر جانا ہے۔ تمام احباب تیار ہوکر ماجد بھائی کی قیادت میں حرم میں پہنچے، مولانا شاکری صاحب نے اذنِ دخول پڑھوا کر اجتماعی زیارت پڑھائی۔ زیارت سے فارغ ہؤئے تو ماجد بھائی نے بتایا کہ اسی گنبد کے نیچے امیر کائنات کے ساتھ دو انبیاء حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام بھی مدفون ہیں، اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام کی قبر کچھ دوسرے ممالک میں ہونے کی روایات بھی ملتی ہیں، لیکن آئمہِ اہلبیت علیہم السلام کی روایات کے مطابق یہ دونوں انبیاءِ خُدا یہاں نجف میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے حرم میں ہی مدفون ہیں۔

جب آپ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ضریح اقدس کی زیارت کرکے پاؤں کی طرف سے نکل کر حرم کے صحن میں آرہے ہوتے ہیں تو گنبد کے اندر دائیں طرف آقائے علامہ مقدس اردبیلی اور بائیں طرف آقائے علامہ حلی مدفون ہیں، یہ دونوں بزرگ علماء دنیا میں مکتب تشیع کی پہچان ہیں۔ ان بزرگان کی زیارت کے بعد ہم حرمِ کے مرکزی دروازے بابُ القبلہ سے باہر والے بازار میں آئے۔ سالار نے بتایا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے حرمِ مطہر میں داخلے کے لیے یہ مرکزی دروازہ ہے، اس کو باب قبلہ کا نام دیا گیا ہے، اس کے علاوہ چار مزید دروازے ہیں، جن کو باب الرضا، بابِ مسلم بن عقیل، بابِ طوسی اور بابُ الفرج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بابِ قبلہ سے صحن میں داخل ہوکر اگر آپ دائیں طرف مڑیں تو ساتھ ہی عظیم محدث اور مؤرخ شیخ عباس قُمی کی آخری آرام گاہ ہے۔ یاد رہے کہ شیخ عباس قمی احادیث و تاریخ کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سے ایک دعاؤں کی عظیم کتاب مفاتيح الجنان ہر گھر کی زینت بھی ہے اور ضرورت بھی. شیخ عباس قمی کی قبر سے آگے جا کر بائیں طرف مڑیں تو ایک مسجد ہے، جس کے ساتھ ہی ماضی قریب کے نامور محقق، محدث اور فقیہہ آقائے ابوالقاسم الخوئی کی قبر مبارک ہے۔

مسجد سے بابِ طوسی کی جانب جائیں تو ساتھ میں ایک حسینہ ہے، یاد رہے کہ عراق و ایران میں امام بارگاہ کو حسینہ کہتے ہیں، اسی حسینیہ کے ساتھ حافظ شیرازی کا مقبرہ ہے۔ اس کے ساتھ بابِ طوسی ہے، بابِ طوسی کے ساتھ ایک اور مسجد ہے اور مسجد کے ساتھ ایک وسیع و عریض نہایت خوبصورت مہمان خانہ بنایا گیا ہے، یہاں سے بائیں مُڑیں تو ساتھ ہی ایک اور مسجد ہے، جسے مسجدالراس کے نام سے یاد کیا جاتا۔ حرم امیرالمومنین کی اس معلوماتی زیارت سے فارغ ہو کر ہم شاہراہ طوسی پر آئے، جہاں سے قرب و جوار کی دیگر زیارت یعنی کوفہ وغیرہ کی زیارات کے لیے گاڑی تیار کھڑی تھی، جیسے ہی گاڑی روانہ ہوئی تو سالارِ قافلہ نے اعلان کیا کہ ہم کوفہ جا رہے ہیں، لفظ کوفہ کا سننا تھا کہ ہر فرد کے دل سے آہ نکلی اور یہ بےساختہ نکلنے والی آہیں اس وقت سسکیوں اور آنسوؤں میں بدل گئیں، جب ہمارے قافلے میں شریک انتہائی محترم اور ماں جیسی شفیق ضعیف العمر سید زادی نے اپنے ساتھ ایک دو دیگر خواہران کو ملا کر سرائیکی نوحہ پڑھا کہ
اوہاں کوفہ اے اوہ ہاں زینب اے
روندا نجف دا شاہ مینڈھی دھی آئی اے


یہ انتہائی شفیق خاتون ہمارے سالارِ قافلہ ماجد بھائی کی والدہ محترمہ تھیں۔
نجف اور کوفہ اب تقریباً باہم ملے ہوئے ہیں، بالکل احساس نہیں ہوتا کہ نجف کی حدود ختم کب ہوئیں اور کوفہ شروع کب ہوا۔ جیسے ہی گاڑی رکی اور نیچے اترے تو بالکل سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے جان نثار ساتھی جناب میثم تمار کا مزار تھا، ہاں وہی میثم تمار کہ جن کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا کائنات کا امام اپنا بھائی کہہ کر بلاتا تھا۔ ہاں وہی میثم تمار جو کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے خاص شاگردوں میں سے تھے کہ جن کو مولا نے اسرار و رموز کے وہ خزانے عطا کیے تھے کہ پڑھنے اور سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

وہی میثم چس نے سولی پر عشق علی کی وہ معراج دیکھی کہ سانس کی ٹوٹتی ہوئی ڈوروں کے بیچ بھی نجف کی طرف رُخ کرکے کہا سچ کہا تھا آپ نے اے میرے سچے امام، ہاں وہی میثم تمار کہ جس نے دار پہ سوار ہوکر علی مولا کی حقانیت کی گواہی اس بلندی سے دی کہ نجاست کے ڈھیر اُموی دسترخوان کی بچی کھچی ہڈیاں چبانے والے، نامعلوم باپ اور بدقماش ماں کے بزدل بیٹے عبیداللہ نے حق کی حمایت میں ذوالفقار بن کر چلتی زبان کو جب کاٹنے کا حکم دے دیا، تب بھی زبان سے آخری جملہ یہی نکلا کہ تجھ پر سلام ہو اے ابو طالب کے بیٹے کہ تو نے میری زبان سولی پر کٹنے کی سچی خبر دی تھی۔

جی ہاں ہم اسی میثم تمار کے مزار کے سامنے کھڑے ہوکر سلام عقیدت پیش کر رہے تھے۔ سوچیں عظمتِ میثم کا طواف کرنے میں مصروف تھیں کہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی زائر نے بلند آواز سے یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ
فرازِ دار سے میثم بیان دیتے ہیں
رہے گا ذکرِ علی ہم زبان دیتے ہیں

اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے قافلے کے سالار بھی مزارِ میثم پر آخری دعا کے بعد امیرالمومنین علی علیہ السلام کے کوفہ والے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہونے کا حُکم صادر فرما رہے تھے کہ جس گھر میں امیرالمومنین نے اس دنیوی زندگی کی آخری ساعتیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزاری تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1015890
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش