0
Wednesday 31 May 2023 23:17

افغانستان سے منشیات کی فیکٹریوں کی پاکستان منتقلی

افغانستان سے منشیات کی فیکٹریوں کی پاکستان منتقلی
رپورٹ: سید عدیل زیدی

افغانستان کو پوست کاشت کے حوالے سے دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس کاشت کو کبھی ملک کی معاشی صورتحال بلکہ دفاعی لحاظ سے بھی انفرادیت رہی ہے۔ افغان حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے جانے کے بعد طالبان نے ملک میں افیون کی کاشت پر پابندی عائد کردی تھی۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا تھا، جب جنوبی افغانستان میں اس وقت پوست کی کاشت کا موسم تھا۔ اس موقع پر طالبان نے کہا تھا کہ پوست کی کاشت کرنے والے کسانوں کو جیل بھیجا جاسکتا ہے اور ان کی فصلوں کو جلا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پوست کا استعمال ہیروئین سمیت دیگر منشیات کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ افغانستان پوست پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک شمار ہوتا تھا، گذشتہ برسوں کے دوران اس کی پیداوار اور برآمدات میں مزید اضافہ ہوا۔ افیون افغانستان میں روزگار اور آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی رہا ہے، لاکھوں کسانوں کی زندگی کا انحصار پوست کی کاشت پر ہی رہا ہے۔

پوست کی کاشت پر پابندی عائد کیے جانے کے اعلان کے بعد طالبان حکومت نے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے تجارت کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں کسانوں کی مدد کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں پوست کی منشیات کا 80 فیصد سے زیادہ افغانستان فراہم کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کو پوست سے تیار ہونے والی منشیات سے سالانہ 1.8 ارب ڈالر کی آمدن ہوتی رہی ہے۔ طالبان نے حکومت 1995ء میں بھی افیون کی تجارت پر اسی طرح کی پابندی عائد کی تھی۔ لیکن 2001ء میں اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یہ پابندیاں ختم کردی تھیں۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ افغانستان میں پابندی کے بعد منشیات کی یہ سب سے بڑی صنعت اب بلوچستان کے راستے پاکستان منتقل ہو رہی ہے، عالمی اسمگلروں نے صوبہ بلوچستان کے علاقہ قلعہ عبداللہ گلستان میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں، انہوں نے یہاں پچاس سے زائد فیکٹریاں قائم کر لی ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ضلع قلعہ عبداللہ میں اس وقت مقامی انتظامیہ اور دیگر اداروں کی عین ناک کے نیچے منشیات کی درجنوں فیکٹریاں کھل گئی ہیں، جن میں آئس نشہ تیار کیا جا رہا ہے، اس عمل میں صوبے کے پہاڑوں میں قیمتی اور خوبصورت پودے (اومان) یا (نررومب) کا استعمال بھی ہو رہا ہے، جنہیں ان فیکٹریوں میں مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد آئس نشہ تیار کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس عمل میں افغانستان کے بعض ملک دشمن عناصر بھی ملوث ہیں، جن کی سرپرستی یہاں کے مختلف مقامی قبائلی کر رہے ہیں۔ ضلع قلعہ عبداللہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں گذشتہ 5 ماہ سے زائد کے عرصے سے سینکڑوں افراد کو بڑے پیمانے پر نررومب کے جنگلات کی کٹائی کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ڈیلر 2500 سے 3 ہزار روپے کے حساب سے فی من (اومان) (نررومب) خرید کر گلستان قلعہ عبداللہ اور دوسرے علاقوں میں کئی گناہ زیادہ قیمت پر فیکٹری مالکان کو فروخت کر رہا ہے۔ راستے میں لیویز اور دیگر چیک پوسٹوں پر 5 ہزار روپے فی گاڑی بھتہ بھی دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے سے قبل پاک افغان بارڈر پر آئس نشے کی فیکٹریاں قائم تھیں، تاہم طالبان کے برسر اقتدار آنے اور پوست کی کاشت پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد ان مافیاز نے ان فیکٹریوں کو قلعہ عبداللہ اور گلستان سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تیزی سے منتقل کیا۔ ذرائع کے مطابق قلعہ عبداللہ، گلستان، جنگل پیر علیزئی اور دیگر علاقوں میں ہیروئین اور دیگر نشوں کے عادی افراد کی تعداد میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو رہا ہے، ان میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ منشیات کی ان فیکٹریوں کی افغان سرزمین سے پاکستان میں منتقلی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ اور خطرے کی شدید گھنٹی ہے، افغانستان سے دہشتگردی کے بعد اب منشیات کے اڈوں کا یہاں منتقل ہونا ملکی استحکام کیلئے ایک خاموش اور شدید خطرہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس جانب توجہ مرکوز نہ کی تو کلاشنکوف کلچر، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے بعد اب منشیات کے ذریعے ملکی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش اور منصوبہ بندی کامیاب ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1058526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش