0
Thursday 25 May 2023 21:31

نیو ورلڈ آرڈر کی جیومیٹری(2)

نیو ورلڈ آرڈر کی جیومیٹری(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

10 اور 11 مئی 2023ء کو ایران کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نے "نیو ورلڈ آرڈر کی جیومیٹری" کے عنوان سے دو روزہ اجلاس کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں مختلف دانشوروں نے مقالے پیش کئے۔ اہم ایرانی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔ عزیز قارئین، پچھلے آرٹیکل میں ہم نے ورلڈ آرڈرز کا مختصر ذکر کیا تھا اور آج کے اس آرٹیکل میں نئے ورلڈ آرڈر کی علامات اور خصوصیات پر چند سطریں تحریر کریں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر میں تبدیلی کے آثار کیا ہیں۔؟ موجودہ عالمی نظام میں تبدیلی کی نشانیوں میں سے ایک عالمی نظام میں ابھرتی ہوئی مختلف طاقتوں کے کردار کا مضبوط ہونا ہے، جو بلاشبہ امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں یعنی یونی پولر ازم کو چیلنج کرنے کے قابل ہیں۔

پچھلی دہائی میں فوجی اور اقتصادی جہت میں روس اور چین جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا کردار، اقتصادی جہت میں سنگاپور، تائیوان، ملائیشیا اور کوریا سمیت بعض عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی پیشرفت اسی طرح توانائی کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی جہت میں ترقی اور مغربی ایشیائی خطے میں امریکی/صیہونی بلاک سے مقابلہ کی پوزیشن نے امریکہ کو متعدد چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ایران کے اسٹریٹیجک کونسل آف فارن ریلیشنز کے سربراہ کمال خرازی نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں منعقدہ "جیومیٹری آف دی نیو ورلڈ آرڈر" کانفرنس میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ "آزاد ممالک ایک ایسے آرڈر کی تلاش میں ہیں، جس میں اقوام کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ موجودہ عالمی نظام میں تبدیلی کی ایک اور علامت علاقائی اور ماورائے علاقائی اتحادوں اور تنظیموں کی تشکیل اور مضبوطی ہے، جو واضح طور پر امریکہ کی قیادت میں عالمی اداروں کے خلاف کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم، برکس گروپ اور آسیان ان اداروں میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی ابھرتی ہوئی طاقت سے عالمی نظام میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے اور بلاشبہ یہ اثر و رسوخ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ یونی پولر نظام کے خاتمے کی ایک اور نشانی مغربی ایشیاء کے خطے سے متعلق ہے۔ عالمی نظام پر امریکی تسلط کے دور میں مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کے ہر ایجنڈے یا پالیسی کو نافذ کیا گیا اور امریکی صیہونی مفاد حاصل کیا گیا، جس میں سب سے واضح 2003ء میں عراق پر حملہ اور اس ملک میں بعثی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ 2011ء کے بعد سے امریکہ نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے، اسلامی جمہوریہ ایران کو گرانے یا کم از کم کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہوں کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی خارجہ پالیسی کے تمام وسائل اور حربے استعمال کیے۔

خطے میں مزاحمت کے بلاک کو تباہ کرنے یا کم از کم کمزور کرنے کے لیے امریکہ نے ہر حربہ استعمال کیا، لیکن وہ مزاحمت کے بلاک کو کمزور کرنے میں ناکام رہا بلکہ امریکہ نے اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا مشاہدہ بھی کیا۔ بشار الاسد برسراقتدار ہے اور آج امریکہ کے عرب اتحادی شام کے ساتھ تعلقات بحال کرچکے ہیں اور شام عرب لیگ میں واپس آگیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی تمام سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور پابندیوں کو بے اثر کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ مزاحمت کا بلاک نہ صرف تباہ یا کمزور نہیں ہوا بلکہ اسے مغربی ایشیائی خطے میں سب سے اہم کھلاڑیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ معاملات کے علاوہ، مغربی ایشیائی خطے میں ایک اہم پیش رفت، اس خطے کے ممالک کا واشنگٹن کی سلامتی کی ضمانتوں پر واضح عدم اعتماد ہے اور اس کی وجہ سے ان ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی میں مشرق کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو مضبوط کیا۔

 یوکرین کی جنگ کو بھی موجودہ عالمی نظام میں تبدیلی کے آغاز کی نشانیوں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ روس کے لیے ایک منصوبہ بند امریکی سازش تھی۔ اس سازش کی ایک وجہ امریکہ کا اس حقیقت کا ادراک تھا کہ روس کی طرف سے عالمی نظام میں طاقت حاصل کرنے اور امریکی پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اسی وجہ سے یوکرین کی جنگ کی تشکیل اور روس کو اس ’’فوجی جال‘‘ میں الجھانے کے لیے زمین فراہم کی گئی، تاکہ عالمی نظام میں روس کے اقتدار میں آنے کی رفتار کم ہو جائے اور دوسری طرف امریکہ کسی نہ کسی طرح چین کو  بھی اس معرکے میں الجھانا چاہتا تھا، البتہ جنگ اس طرح نہیں چلی، جس طرح امریکہ چاہتا تھا اور مختلف تھیورسٹوں کا خیال ہے کہ اس جنگ کے بعد کی دنیا اور نیا ورلڈ آرڈر پچھلی دنیا سے مختلف ہوگا۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر میں کیا خصوصیات ہوں گی؟ نئے آرڈر میں کچھ خصوصیات درج ذیل ہیں۔ پہلی خصوصیت امریکی طاقت کی مرکزیت کا خاتمہ ہے۔ بنیادی طور پر نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عالمی نظام میں امریکہ کو نظر انداز کیا جائے گا بلکہ نئے آرڈر کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو اگرچہ عالمی نظام میں سپر پاور تصور کیا جائے گا، لیکن دنیا اس کی قائدانہ طاقت کی غیر مرکزیت کا مشاہدہ کرے گی۔ امریکہ کی بالادستی کمزور پڑی ہے اور دوسری طرف چین، روس، برازیل اور ہندوستان جیسے نئے حریف اس کی گرتی ہوئی پوزیشن کو چیلنج کرنے کے لیے سامنے آئے ہیں۔ اس صورت حال میں ایسے تنازعات جنم لے رہے ہیں، جنہیں واشنگٹن کے حکام اکیلے حل نہیں کرسکتے۔ لہٰذا، یہ نیو ورلڈ آرڈر کی پہلی خصوصیت ہے۔

ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ عالمی نظام میں صلاحیتوں کی تقسیم بھی بدل جائے گی۔ ایک معروف نئو لبرل تھیوریسٹ جوزف نائی اس سلسلے میں کہتے ہیں: "اس تبدیلی کا ایک اہم ترین پہلو عالمی نظام کی ساخت میں تبدیلی ہے، یعنی صلاحیتوں کی تقسیم پر مبنی کھلاڑیوں کی ترتیب۔ طاقت کے ڈھانچے میں تبدیلی دو سطحوں پر ہو رہی ہے: ایک طاقت کی منتقلی اور دوسری طاقت کا پھیلاؤ۔ اقتدار کی منتقلی کا تعلق حکومتوں کے درمیان تعلقات سے ہے، جس کے عمل میں ہم عالمی طاقت اور دولت کے مرکز کی مغرب سے مشرق کی طرف بتدریج منتقلی اور ایشیاء کی ​​پوزیشن کی بحالی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ "طاقت کی کشش ثقل کے مرکز کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی" جیسے رجحانات، نتیجتاً "صلاحیتوں کی تقسیم میں تبدیلی" کا سبب بنتے ہیں۔

مثال کے طور پر اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2021ء کے آخر تک امریکی عالمی قرضوں کی رقم تقریباً 300 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف امریکی قرضہ عالمی قومی قرضوں کا 10% سے زیادہ ہے۔ اس لیے طاقت کی تقسیم اور تقسیم کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں نے عالمی نظام میں معاشی، عسکری، حتیٰ کہ ثقافتی اور میڈیا کے میدانوں میں بھی اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے اور اس عمل نے امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ مذکورہ دو خصوصیات کی پیداوار طاقت کے توازن میں تبدیلی کی واضح علامت ہے۔ امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کرنے اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کی پوزیشن مضبوط کرنے سے طاقت کا توازن بھی بدل جائے گا۔

اسٹریٹجک کونسل آف فارن ریلیشنز کے سربراہ کمال خرازی نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں "جیومیٹری آف دی نیو ورلڈ آرڈر" کانفرنس میں اس مسئلے کی نشاندہی کی اور کہا کہ نیا آرڈر طاقت کے توازن میں تبدیلی کے بعد ہوگا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہم خطے اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی کی وجہ سے نئی ترقی کی دہلیز پر ہیں اور ہر طاقت رکھنے والا ملک اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور توازن میں تبدیلی کے دوران اعلیٰ کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئے ورلڈ آرڈر کے بارے میں حتمی نکتہ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ترتیب سابقہ ​​احکامات کے برعکس صرف بڑی طاقتوں کے ذریعے تشکیل نہیں دی جائے گی۔ بہرحال اس وقت دو بڑی طاقتوں (چین اور روس) اور کئی علاقائی طاقتوں کے کردار کے ساتھ نیا آرڈر ابھر رہا ہے اور بنیادی طور پر اگر علاقائی طاقتیں چین اور روس کا ساتھ نہ دیں تو موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

قارئین، آرٹیکل کے اختتام پر دو ایرانی شخصیات کے خطاب کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے ’’نیو ورلڈ آرڈر جیومیٹری‘‘ کے زیر عنوان اس بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل میں جو بات قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ اب نئے کھلاڑی میدان میں آگئے ہیں کہ جن کی طاقت حکومتوں سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی سیاسی اقتصادی، ثقافتی اور تکنیکی امور کے میدان میں ایشیا کی صدی ہے۔ مسٹر قالیباف کا کہنا تھا کہ دشمنوں کی کوشش تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو الگ تھلگ کیا جائے اور ملک کے اندر بعض لوگ اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، لیکن ایران اتنا مضبوط، وسیع اور بااثر ہے کہ کبھی بھی الگ تھلگ اور تنہا نہیں ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل محمد باقری نے بھی نئے عالمی نظام کی شکل کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس میں کہا کہ دنیا پر مطلق العنان حکمرانی اور قیادت کے لیے کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے کہ جس کی نشانیاں عراق اور افغانستان سے اس کے فرار جیسے انخلا، مغربی ایشیاء میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں نمایاں کمی، مغربی ایشیاء جنوبی چین اور مغربی یورپ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی میں امریکہ کی پریشانی اور الجھن سمیت مختلف عوامل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جنرل باقری نے اس بات پر زور دیا کہ ایشیاء اور مشرق، امریکہ کی ہٹ دھرمی کے مقابل یکساں نقطہ نظر رکھتے ہیں اور حکومتیں شنگھائی تعاون تنظیم میں اکٹھے ہو کر تعاون کے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے اور دنیا کا یہ خطہ یقیناً مستقبل میں دنیا کی بڑی طاقت ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کہ جس کے سر میں نیل سے فرات تک کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لینے کا سودا سمایا ہوا تھا اور اس نے عربوں کے ساتھ جنگ میں کامیابی حاصل کی تھی، اب زوال کے راستے پر گامزن ہے اور اس کے مقابلے میں فلسطین کی مظلوم قوم اور مزاحمت کا محور طاقت کے عروج پر ہیں اور یہ فلسطین کی آزادی کے راستے پر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایرانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ ایران امریکی فوج اور اس کے یورپی اتحادیوں کی موجودگی کو خطے کے نقصان میں سمجھتا ہے اور وہ فلسطینی عوام کی حاکمیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مدد کر رہا ہے۔

 جنرل باقری نے روس اور یوکرین کی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو مغرب پر روس کا اعتماد ختم ہوچکا ہے، حتی ایک جنگ میں الجھنے کی قیمت پر مشرق کی سمت نیٹو کی توسیع کے سامنے روس ڈٹ گیا ہے اور دوسری جانب حتی یوکرین کی بنیادی تنصیبات کی تباہی کی قیمت پر جنگ کو جاری رکھنے پر امریکہ اصرار کر رہا ہے اور روس ایک بفر زون قائم کرنے پر اصرار کر رہا ہے، ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوگی اور سامان اور انرجی کی یورپ منتقلی کے راستے بند ہونے کے وجہ سے روس مشرق کی جانب دیکھنا شروع کر دے گا۔
خبر کا کوڈ : 1060136
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش