0
Saturday 3 Feb 2024 01:26
الیکشن 2024

کون کس سے ٹکرائے گا، کون کس کو گرائے گا!

کون کس سے ٹکرائے گا، کون کس کو گرائے گا!
رپورٹ: اے اے وحید:

ملک بھر میں 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں،مردوں کے 25 ہزار 320 اور خواتین کے 23 ہزار 950 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ملک بھر میں 41 ہزار 405 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ پنجاب میں 50 ہزار 944 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے،مردوں کے 14 ہزار 556، خواتین کے 14 ہزار 36 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے،22 ہزار 352 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ سندھ میں مجموعی طور پر 19 ہزار 6 ،مردوں کے 4 ہزار 439،خواتین کے 4 ہزار 308 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے، 10 ہزار 259 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔

خیبرپختونخوا میں 15 ہزار 697 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے،مردوں کے 4 ہزار 814،خواتین کے 4 ہزار 289 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے،6 ہزار 594 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ بلوچستان میں 5 ہزار 28 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے،مردوں کے 1511، خواتین کے 1317 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے،2 ہزار 200 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں 2 لاکھ 76 ہزار 402 پولنگ بوتھ قائم ہوں گے،مردوں کے ایک لاکھ 47 ہزار 560خواتین کے لیے 1 لاکھ 27 ہزار 842 پولنگ بوتھ ہوں گے۔ پنجاب میں ایک لاکھ 49 ہزار 434،سندھ میں 65 ہزار 5 ،خیبر پختو نخوا میں 47 ہزار 81،بلوچستان میں 14 ہزار 882 پولنگ بوتھ قائم ہوں گے۔

کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟
پاکستان میں اس سال ہونے والے انتخابات کے لیے ریکارڈ 28626 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور الیکشن کمیشن نے 17816 (16930 مرد اور 882 خواتین اور 4 خواجہ سرا) امیدواروں کو حتمی شکل دی ہے، جو 859 جنرل نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں 89 امیدوار سامنے آ رہے ہیں، جنہوں نے 1990 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔

اہم سیاسی شخصیات کا مستقبل:
اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے انتخابات 2024 میں عوامی ووٹ کے حصول اور دوبارہ منتخب ہونے کیلئے انتخابی مہم پورے جوبن پر ہے۔ لیکن دوسری طرف بعض پیچیدگیوں کے باعث تین سابق وزرائے اعظم سمیت کئی بڑی سیاسی شخصیات کا پارلیمانی مستقبل غیر یقینی دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ سب اس سیاسی دنگل کا حصہ نہیں۔ سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین، عمران خان اور شاہد خاقان عباسی متعدد وجوہات کی بنا پر مقابلے سے باہر ہو گئے ہیں، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اب بھی سنگین عدالتی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جو عملی سیاسی میدان میں اُن کی موجودگی کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز شریف، سراج الحق، آفتاب شیرپاو، خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمان، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، محمود اچکزائی، ایمل ولی خان، جہانگیرخان ترین، اسلم رئیسانی، پرویزخٹک اور علیم خان آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوں گے یا پھر وہ ذیلی عہدے پر رہنے کو ترجیح دیں گےجبکہ ان کے والد آصف علی زرداری صدر پاکستان کے اہم عہدے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

نواز شریف اپنی مختصر لیکن جامع مہم پر مکمل کمان رکھتے ہیں اور وہ پنجاب میں ن لیگی ووٹرز کو متحرک کرنے کی پوری سعی کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کے ذریعے اپنی جماعت کے لیے عوامی حمایت کے حصول کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ طے ہونا باقی ہے کہ دو سابق وزیر اعظم اور صدر، نواز شریف اور آصف علی زرداری میں سے کون بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ،پاکستان (ایم کیو ایم۔پی)، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم (پی ایم ایل۔ق) جیسی سیاسی جماعتوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام-فضل (جے یو آئی ایف) وپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، مولانا فضل رحمان خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کی موجودہ صورتحال بارے فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ جے یو آئی صوبے میں مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا اتحاد بننے پر حکومت میں بھی مولانا فضل الرحمان کے کردار پر سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں، جو اُن کی سیاسی جماعت کے مستقبل کے خوابوں کو داو پر لگا سکتے ہیں۔ انتخابات 2024 میں مریم نواز شریف کا کردار پہلی انٹری کی حیثیت اہم رہے گا کیونکہ وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ مریم نواز ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اہم کردار ادا کرنے کا انتخاب کریں گی یا مرکز میں اہم کردار ادا کرنے کو ترجیح دیں گی۔لیکن کسی بھی بڑے عہدے کی سربراہی اور تجربے کا فقدان اُن کے لیے پنجاب میں اہم مقام حاصل کرنے کی اس کی کوشش میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔

کتنے امیدوار پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑینگے، کتنے آزاد؟
نیشنل اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے 1873 (1780 مرد اور 93 خواتین) امیدواران پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ 3248 (3027 مرد اور 219 خواتین اور 2 خواجہ سرا) آزاد امیدوار کے طور پر نیشنل اسمبلی کی 266 جنرل نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں 4158 امیدوار (3976 مرد، 182 خواتین) پارٹی وابستگی کے ساتھ اور 8537 (8147 مرد اور 388 خواتین اور 2 خواجہ سرا) آزاد امیدوار 593 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چار خواجہ سرا 2024 کا الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 کے قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے 143 نے یا تو مکمل طور پر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر دی ہے یا پھر آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑنے کا انتخاب کیا ہے۔ پارٹی وار تقسیم سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی سے 107 سابق ایم این ایز کی نمایاں رخصتی، جو ان کی کل طاقت کا 65 فیصد بنتی ہے، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔

کتنے امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے؟
رواں سال انتخابات کے لیے جمع کیے گئے کل 28,626 کاغذات نامزدگی میں سے 3,240 امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے۔ یہ 2018 کے عام انتخابات کے برعکس ہے، جہاں جمع کرائے گئے کل 20,099 کاغذات نامزدگی میں سے 9 فیصد (1,893 امیدواروں) کو مسترد ہونے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2024 کے انتخابات میں 3,240 میں سے 2,235 امیدواروں پر مشتمل کل امیدواروں میں سے 68 فیصد نے اپیلیں جمع کرائی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں، صرف 66 فیصد، یا 1,893 مسترد کیے گئے امیدواروں میں سے 1,227 نے اپیلوں کی پیروی کی۔ اس کے برعکس، 2013 کے انتخابات میں، محض 41 فیصد، یا 3،916 مسترد کیے گئے امیدواروں میں سے 1،618 نے اپیلیں دائر کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ 

پی ٹی آئی کے 18 سابق ارکان مسلم لیگ (ن)، 13 نے آئی پی پی اور 11 نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ پی ٹی آئی نے حکمت عملی کے ساتھ نئے امیدواروں کو متعارف کرانے کا انتخاب کیا، اس کی 75 فیصد لائن اپ انتخابی میدان میں نئے آنے والے ہیں۔ پارٹی کے 859 عام امیدواروں میں سے 441 امیدوار پہلی بار قومی سطح پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 77 فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے ہیں جب کہ 23 فیصد کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں 859 عام نشستوں کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 2,620 امیدواروں میں سے 1,996 کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے تھے۔ 

16 بڑے شہروں 50 سیاسی لیڈروں کا ٹاکرا:
غیر یقینی صورت حال کے باوجود 2024 کے انتخابات انعقاد کے قریب ہیں اگرچہ بڑی پیشین گوئیاں مشکل ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ انتخابات کو قریب سے دیکھا جائے گا، اور ملک میں انتخابات کے بعد ایک نئی مدت کا انتظار ہے۔ جیسا کہ یہ ملک کی انتخابی تاریخ میں رہا ہے۔ انتخابات 2024 کے بڑے ٹاکرے سولہ شہروں میں متوقع ہیں، ان حلقوں پر پچاس بڑے سیاسی برج ایک دوسرے کیخلاف انتخاب لڑرہے ہیں۔ لاہور سات بڑے مقابلوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اورکراچی پانچ پانچ بڑے ٹاکروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، کوئٹہ، گجرات، سرگودھا اور گوجرانوالہ کے تین تین حلقوں پر بڑے سیاستدانوں کا کانٹے کا مقابلہ ہے۔ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور سیالکوٹ میں دو دو بڑے ٹاکروں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں، نوشہرہ، لاڑکانہ، بدین، پشین اور صوابی میں ایک ایک بڑے ٹاکرے کی توقع ہے۔

کون کس سے جیتے گا اور کون کس کو انتخابی دنگل سے باہر کرے گا، اسکا فیصلہ تو 8 فروری کو ہوگا لیکن انکے حلقوں کی ایک تصویر حاضر ہے، کہیں ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کا تحریک انصاف کی یاسمین راشد اور کہیں پی پی چئیرمین بلاول بھٹو کا ن لیگ کے عطا تارڑ کے ساتھ ٹاکرا ہے۔ کہیں مریم نواز کا صنم جاوید اور کہیں شہباز شریف اور ضیاالحق کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے، کہیں جمعیت کے سربراہ فضل الرحمان تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔ کہیں سابق صدرآصف زرداری کا جی ڈے اے کے شیر محمد کے ساتھ سیاسی ٹکراو ہے، کہیں آئی پی پی کے چیف جہانگیر کا مقابلہ تحریک انصاف کے عامر ڈوگر سے ہے۔ کہیں سابق وزیراعظم یوسف گیلانی کا ن لیگ کے احمد حسن کا مقابلہ ہے، کہیں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے پرویزخٹک کا ٹاکرا تحریک انصاف شاہد خٹک سے ہے، کہیں تحریک انصاف کے سلیمان اکرم راجہ کا آئی پی پی کے عون چوہدری سے مقابلہ ہے، کہیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترمینگل کا مقابلہ ن لیگ کے حاجی ارض رفیق سے ہے، کہیں ن لیگ کے رانا ثنااللہ اپنے سیاسی حریف تحریک انصاف کے نثار جٹ سے ہے، کہیں ن لیگ کے خواجہ آصف نے تحریک انصاف کی ریحانہ ڈار کو سیاسی چیلنج دیا ہے، کہیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق الیکشن لڑرہے ہیں اور کہییں آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان کو ن لیگ کے راجہ قمرالسلام کا سامنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1113507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش