0
Saturday 3 Feb 2024 17:30

امریکی حملے

امریکی حملے
تحریر: سید رضا میر طاہر

امریکہ نے اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفادات کے پیش نظر کئی سالوں سے مغربی ایشیا کو اپنی فوجی موجودگی سے غیر محفوظ اور عدم استحکام کا شکار بنا رکھا ہے، امریکہ وقتاً فوقتاً جارحانہ اقدامات سے اس حساس خطے میں آگ بھڑکاتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی سینٹرل کمانڈ، جسے CENTCOM کے نام سے جانا جاتا ہے، اس نے ایک تازہ ترین کارروائی انجام دی ہے۔ سینٹکام نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ جمعے کی شب امریکی فوجی دستوں نے متعدد طیاروں سے 85 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے وہ بمبار طیارے بھی شامل تھے، جنہوں نے امریکہ سے اڑان بھری۔ سینٹ کام نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں عراق اور شام میں مزاحمتی گروپوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، انٹیلی جنس مراکز، راکٹ، میزائل اور ڈرون کے گوداموں اور سپلائی چین کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ سینٹکام کے بقول یہ اڈے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں میں سہولت کار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے بائیڈن کے بیان کی صورت میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ حملے امریکہ کے ایک اڈے پر ہونے والے حالیہ حملے کا ردعمل ہیں۔ یاد رہے کہ اردن اور شام کی سرحدوں کے قریب ٹاور 22 کے نام سے مشہور امریکی اڈے پر ڈرون حملے میں 3 فوجی ہلاک اور 34 امریکی فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ بائیڈن نے اپنے بیان میں عراقی اور شامی تنصیبات کے اہداف پر امریکی فوجیوں کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ حملے جاری رہیں گے۔ اہم مسئلہ جس کا امریکی صدر نے دعویٰ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ یا دنیا میں کہیں بھی جنگ نہیں چاہتا۔

امریکہ علاقائی نظم و ضبط میں خلل ڈال رہا ہے:
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیز سرد جنگ کے دوران اور سرد جنگ کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سی جنگوں کا ذمہ دار رہا ہے۔ خاص طور پر 20ویں صدی کی پہلی دہائی میں افغانستان اور عراق پر امریکہ کے حملے نہ صرف ان دونوں ممالک پر قبضے بلکہ ان ممالک کے ہزاروں باشندوں کی موت کا سبب بنے۔ ان حملوں کی وجہ سے دہشت گردی میں پھیلاؤ آیا۔ واشنگٹن نے اگلے مرحلے میں، ایک مغربی اور عرب اتحاد بنا کر، 2011ء سے شام میں بدامنی پھیلائی اور بعد میں عراق کو بھی جنگ میں دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں شام اور عراق کے عوام کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ ان ممالک میں دہشت گرد گروہوں کو قوت ملی اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ 

دوسری طرف امریکہ نے گذشتہ ستر برسوں میں صیہونی حکومت کی بھرپور حمایت کرکے اسرائیل کے ہاتھوں ہونی والی نسل کشی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ غزہ کی موجودہ جنگ کے دوران بھی امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کو ہتھیار فراہم کئے بلکہ سفارتی اور سیاسی مدد بھی کی ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے تمام مظالم پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی پوری کوشش کی۔ امریکہ اسرائیل کا غیر مشروط حامی بن کر سامنے آیا ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ عراق اور شام میں مزاحمتی گروہوں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں، جب مغربی ایشیاء، غزہ جنگ کے جاری رہنے اور صیہونی حکومت کے لیے واشنگٹن کی ہمہ جہت حمایت کی وجہ سے نسل کشی کا مرکز بن چکا ہے۔

بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت کے جہازوں کے خلاف حملوں کے ساتھ ساتھ امریکی اڈوں پر حملے، اس اشتعال کا عروج ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس وقت غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا چوتھا مہینہ گزر رہا ہے، امریکہ صیہونی حکومت کی مسلسل حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ مغربی ایشیاء کے اسلامی مزاحمتی گروہوں بشمول عراق، شام اور یمنی فورسز نے امریکہ کو بارہا خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں اور اس کے لیے واشنگٹن کی جامع حمایت کو ترک کر دے، تاکہ امریکی اڈوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔

عراق سمیت خطے میں مزاحمتی گروہوں نے بارہا اعلان کیا ہے کہ عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر حملے واشنگٹن کی طرف سے تل ابیب کی حمایت کے ردعمل میں ہیں۔ ان گروہوں نے بارہا تاکید کی ہے کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک اس میدان میں امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی اور صیہونی حکومت کو غزہ کی پٹی پر حملوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ قابل ذذکر ہے کہ واشنگٹن نے امریکی اڈوں اور صیہونی حکومت کے مفادات کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے حملوں کو ہمیشہ  ایران سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری جانب ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ایران کی طرف سے غاصبوں اور جارحین کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی مزاحمتی گروپوں اور خطے کے دیگر مزاحمتی گروپوں کی حمایت ایک جائز قانونی حق ہے۔ تہران نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس حمایت کا مطلب مزاحمتی گروپوں کے اقدامات اور کارروائیوں میں مداخلت کرنا یا شامل ہونا نہیں ہے۔ ایران نے امریکہ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کسی بھی ممکنہ حملے کے خلاف اپنے دفاع کے حق پر زور دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1113749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش