0
Saturday 30 Mar 2024 00:35

بھوک کے ہتھیار کیخلاف عالمی آواز

بھوک کے ہتھیار کیخلاف عالمی آواز
تحریر: سید رضا میر طاہر

جمعرات 29 مارچ کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے متفقہ طور پر نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی کے فلسطینی باشندوں کے لیے بنیادی خوراک کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اور موثر اقدامات کرے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا ہے، اس عدالت کا مشاہدہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو نہ صرف غذائی قلت کا سامنا ہے بلکہ اس علاقے میں قحط بھی پڑ رہا ہے۔ یہ نئے اقدامات جنوبی افریقہ کی درخواست پر اور نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کے خلاف اس ملک کی شکایت کے ایک حصے کے طور پر تجویز کیے گئے ہیں۔

اس عدالت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ  پٹی میں جعلی صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے معاملے کا جائزہ لے گی۔ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے وفد نے صیہونی غاصب حکومت کو غزہ کی پٹی میں قحط کے خاتمے کے لیے عدالت کے اس حکم کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس وفد کے ترجمان نے کہا: عالمی عدالت انصاف کا نیا حکم جعلی صیہونی حکومت کو اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرنے کا پابند بناتا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے نئے فیصلے میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے ساتھ نسل کش صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون بھی شامل ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے ججوں کا یہ فیصلہ غزہ پٹی کے مظلوم عوام کے خلاف قابض غاصب صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کے تناظر میں جاری کیا گیا ہے۔ نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کے اہم ترین حامی کے طور پر امریکہ نے اس جنگ کے دوران صیہونیوں کو وسیع سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ہتھیاروں سے مدد فراہم کی ہے۔ جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت نے کھلے عام غزہ کے باشندوں کی نسل کشی کی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کی جنگ اور برسوں کے محاصرے کے دوران غزہ کے عوام کے خلاف روزانہ شدید فضائی، زمینی اور سمندری حملے جاری ہیں اور غزہ کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذرہ برابر احترام نہیں کیا جا رہا ہے۔

اس غیر انسانی طرز عمل کا ایک پہلو غزہ کی پٹی کے لوگوں کو جان بوجھ کر بھوکہ مارنا بھی ہے۔ اس سے پہلے غزہ کی پٹی کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی بھوک اور قحط کے دہانے پر تھی اور اب یہ صورتحال بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے اور بہت سے بچے بھوک کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ امریکہ نے نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کے اصل حامی کے طور پر اس غاصب حکومت پر غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے حقیقی دباو کے بجائے صرف ظاہری تنقید کی ہے۔ امریکہ نے رفح بارڈر سمیت موجودہ راستوں کو کھولنے کی سنجیدہ کوشش کی بجائے سمندری راستے کے ذریعے ایک بندرگاہ بنانے کی معنی خیز تجویز دی ہے۔ رفح کراسنگ جہاں  اشیائے خورد و نوش سے لدے ٹرکوں کی بڑی تعداد غزہ میں داخل ہونے کا انتظار کر رہی ہے، اس کے لئے امریکہ کچھ نہیں کر رہا ہے۔

 نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کی حمایت اور غاصب حکومت کی طرف سے غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے امریکہ پر رائے عامہ کا دباو بڑھ رہا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کی وجہ سے امریکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے غزہ میں خوراک پھینک رہا ہے۔ جس سے بیسیوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ امریکہ اگر چاہے تو اسرائیل امداد رسانی کے تمام راستے کھول دے گا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں اقوام متحدہ نے غزہ پٹی میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور قحط پیدا کرنے کی کوششوں کی وجہ سے صیہونی حکومت کی اس نسل کشی کی پالیسی کی مذمت کی ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرنا اور انہیں اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔

اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر وولکر ترک نے جمعرات کے روز جعلی صیہونی حکومت کو غزہ پٹی میں انسانی بحران پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پٹی میں قحط مسلط کرنا "جنگی جرم" ہے۔ انہوں نے کہا: اس بات کے معتبر شواہد موجود ہیں کہ صیہونی غاصب حکومت غزہ میں قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس نئے فیصلے کو نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کی ایک اور شکست تصور کیا جاتا ہے، یہ مجرم حکومت غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کو ختم کرنے اور  رفح کراسنگ کو کھولنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی پابند ہے، تاکہ امدادی قافلے اس علاقے میں داخل ہوسکیں۔

البتہ جیسا کہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقی وفد کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ جعلی صیہونی حکومت عالمی عدالت کے نئے فیصلے کو قبول کرکے اس کی تعمیل کرے گی۔ اس وقت عالمی برادری کے ساتھ ساتھ نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کے اتحادیوں اور شراکت داروں بالخصوص امریکہ کا فرض ہے کہ وہ غاصب صیہونی حکومت پر اس حکم کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں، تاکہ غزہ کے عوام کو مشکلات سے نجات مل سکے اور وہ موجودہ تباہ کن صورتحال سے باہر نکل سکیں۔
خبر کا کوڈ : 1125845
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش