0
Thursday 4 Apr 2024 17:56

مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی کامیابی

مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی کامیابی
تحریر: عادل فراز
adilfaraz2@gmail.com

"طوفان الاقصیٰ" کے بعد مزاحمتی محاذ نے جس حکمت عملی کے ساتھ استعماری طاقتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے، اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ جنگ حماس اور اسرائیل کے درمیان نہیں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں موجود مزاحمتی محاذ اور استعماری نظام کے مابین ہے۔ جنگ کی ابتداء میں عالمی رائے استعمار کے حق میں تھی اور اب جبکہ جنگ بندی کا صور پھونکا جانے والا ہے، عالمی رائے یکسر بدل چکی ہے۔ اگر عالم اسلام نے امام خمینیؒ کے سیاسی نظریئے پر عمل کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کے حل کی کوشش کی ہوتی تو آج ہزاروں فلسطینیوں کا بہیمانہ قتل نہ ہوتا۔ مگر جس وقت امام خمینی نے قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "یوم قدس" منانے کی اپیل کی تھی، اس وقت مسلمان ایران اور سعودی عرب کے زیر اثر دو حصوں میں بٹ گئے۔ اکثر مسلمانوں نے اس نعرے کو خالص ایرانی نعرہ قراردے کر "عالمی یوم قدس" سے دوری اختیار کی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلۂ فلسطین عالمی سطح پر اس طرح پیش نہیں ہوسکا، جس طرح ہونا چاہیئے تھا۔

اگر امام خمینی کی جدوجہد اور حکمت عملی نہ ہوتی تو مسئلۂ فلسطین کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ مگر ایران نے اس مسئلے کو ناصرف زندہ رکھا بلکہ نئی زندگی بخشی۔ اب جبکہ مسلمان عرب ملکوں کی بزدلی اور منافقانہ کردار کو باالمشافہ دیکھ چکے ہیں، انہیں احساس ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مزاحمتی محاذ کی حمایت ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی عام رائے عرب ملکوں کے تئیں بدل چکی ہے اور اب عالمی ملّی قیادت مزاحمتی محاز کی طرف منتقل ہوچکی ہے۔ اگر یہ مزاحمتی محاز نہیں ہوتا تو آج غزہ اسرائیل کے قبضے میں ہوتا اور جس مقاومت نے اسرائیلی فوجوں کو مسلسل ناکامی سے دوچار کیا ہے، وہ موجود نہیں ہوتی۔ غزہ پر حملے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط، اس حقیقت کو تو اب تک اسرائیلی وزیراعظم باور کرچکے ہوںگے۔ کیونکہ حماس سے مقابلے کے بجائے غزہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ نتین یاہو نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے کیا تھا۔

حماس کے حملے کے بعد عالمی رائے اسرائیل کے حق میں بدل چکی تھی۔اسرائیلی وزیراعظم نے عالمی ہمدردی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، کیونکہ اسرائیل میں ان کی مقبولیت دن بہ دن گھٹتی جا رہی تھی۔ ان پر ایسے الزامات عائد ہو رہے تھے، جس کی بنیاد پر وہ عوامی حمایت کھوتے جا رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے غزہ پر حملے کا حکم دیدیا، تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکیں۔ جنگ کی ابتدا میں وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آرہے تھے، کیونکہ عالمی حمایت کے ساتھ اسرائیلی عوام کی حمایت بھی انہیں مل رہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے اس حمایت کو گنوا دیا، کیونکہ حماس نے بڑی تعداد میں اسرائیلی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ دوسری طرف غزہ میں انسانی قتل عام پر عالمی رائے بھی بدلنا شروع ہوگئی تھی۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں فعال ہوچکی تھیں اور دنیا کی اکثریت غزہ کے لوگوں کی حمایت میں سڑکوں پر تھی۔

خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے منظم اور بہیمانہ قتل نے عالمی رائے کو غزہ کے حق میں پوری طرح بدل دیا۔ دوسری طرف وہ ملک جو اسرائیل کے حلیف تھے، وہ بھی عوامی دبائو کے زیر اثر جنگ بندی کے مطالبے پر مجبور ہوچکے تھے۔ برطانیہ، فرانس اور امریکہ جیسے ملکوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے، جن کی بنیاد پر ان کی رائے میں بھی تبدیلی رونماء ہوئی۔ امریکہ جس نے اس سے پہلے دو بار جنگ بندی کی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کیا تھا، اس بار اس کا رویہ بھی بدلا ہوا نظر آیا۔ اس نے جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ تو نہیں دیا، لیکن اسرائیل کی حمایت سے بھی دوری اختیار کرلی۔ امریکہ کے اس بدلے ہوئے رویئے نے نتین یاہو کے ہوش اڑا دیئے، کیونکہ ان کی فوج امریکی حمایت کے بغیر ایک لمحہ میدان میں نہیں ٹک سکتی۔ 7 اکتوبر کے بعد امریکہ نے اسلحے کی بڑی کھیپ اسرائیل روانہ کی اور دیگر حلیف ملکوں کو بھی اسرائیل کی مدد پر آمادہ کیا تھا۔ لیکن اب حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور اسرائیل پر جنگ بندی کا دبائو بڑھ رہا ہے۔

"طوفان الاقصیٰ" کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فلسطین میں حزب اختلاف کمزور پڑگیا ہے۔حماس جو اس سے پہلے غزہ تک محدود تھا، اب اس کی مقبولیت کا دائرہ پورے فلسطین کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ حماس کی مقبولیت مستقبل میں اسرائیل کے لئے مزید خطرناک ثابت ہوگی، اس کا اندازہ یقیناً اسرائیلی وزیراعظم کو بھی ہوگا۔غزہ سے باہر نکلنے کے بعد اسرائیل کے لئے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی۔ کیونکہ حماس کسی بھی حال میں غزہ کو اسرائیل کے سہارے نہیں چھوڑے گا، جبکہ اسرائیل کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ غزہ کو اپنے نظام کے تحت رکھے، لیکن یہ ناممکن ہے۔ غزہ پر حملے کے وقت اسرائیلی وزیراعظم نے جو دعوے کئے تھے، وہ جھوٹے ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنگ کا خاتمہ حماس کے خاتمے سے مشروط ہے، لیکن چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی اب تک حماس کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوجیں اپنے قیدیوں شہریوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ پر کنٹرول کا دعویٰ بھی کیا تھا، جس میں انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی۔ اسرائیلی فوجوں کو غزہ میں ہر محاذ پر ناکامی ہاتھ لگی ہے۔انہوں نے صرف بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا ہے، اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے پاس کوئی قابل ذکر حصول یابی نہیں ہے۔ 7 اکتوبر "طوفان الاقصیٰ" کے بعد تقریباً 20 لاکھ لوگوں نے رفح کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ رفح میں حقوق انسانی کی تنظیموں نے پناہ گزین کیمپ قائم کئے، جہاں بے گھر لوگوں نے پناہ لی۔ لیکن جب نتین یاہو نے اعلان کیا کہ وہ حماس کے خاتمے کے لئے رفح پر بھی حملہ کریں گے، اس وقت پوری دنیا سہم اٹھی تھی۔ اس اعلان پر اسرائیل کے حلیف ممالک بھی برافروختہ ہوئے اور انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کا دبائو بنایا۔ خاص طور پر امریکہ جو اب ظاہری طور پر اسرائیل سے ناراض نظر آرہا ہے، کیونکہ نتین یاہو امریکی صدر کے مطالبے پر بھی کان نہیں دھر رہے ہیں، اس لئے امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی حمایت سے گریز کر رہا ہے۔

جس وقت سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جا رہی تھی، اسی وقت اسرائیلی فوجیں رفح پر حملہ کر رہی تھیں۔ اس حملے میں ایک بار پھر طبی ڈھانچے کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، تاکہ زخمیوں کا علاج ممکن نہ ہوسکے۔ رفح میں موجود پناہ گزین اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس نقل مکانی کا متبادل بھی موجود نہیں ہے، کیونکہ انہیں رفح کراسنگ سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں اندیشہ یہ ہے کہ اگر اسرائیلی حملے جاری رہے تو رفح انسانوں کے قبرستان میں بدل جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سلامتی کونسل جنگ کی قرارداد کو کیسے قابل عمل بناتا ہے، کیونکہ اب اگلا مرحلہ اسرائیل کو جنگی مجرم ثابت کرنے کا ہے، جس کے لئے مختلف ملک سرگرم ہیں۔

"طوفان الاقصیٰ" کے بعد دنیا دو خیموں میں بٹ گئی تھی، لیکن اب دوسرا خیمہ بھی پہلے خیمے کے قریب آچکا ہے۔ یعنی وہ خیمہ جو اسرائیل کے حق میں تھا، اس میں بھی سیندھ لگ چکی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر اسرائیل کی دفاعی اور فوجی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا ہے، جس کی تلافی عنقریب ممکن نہیں ہے۔اسرائیل کا دفاعی نظام جو "آئرون ڈوم" کے بھروسے پر قائم تھا، اس کی ہوا نکل چکی ہے۔ اس کی فوجی طاقت نے غزہ میں دم توڑ دیا اور رہی سہی کسر بحر احمر میں حوثیوں نے پوری کر دی۔ ان تشویش ناک حالات میں اسرائیلی وزیراعظم کو جارحیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ شکست خوردہ ظالم کا آخری حربہ بے گناہ انسانوں کا قتل کرکے اپنی ہاری ہوئی ذہنیت کو تسلی دینا ہوتا ہے۔ عنقریب غزہ میں جنگ بندی کا صور پھونکا جائے گا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوجیں غزہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر معاہدہ ہوگا، لیکن حماس غزہ کو اسرائیل کے سپرد نہیں کرے گا، کیونکہ غزہ کو اسرائیل کے سپرد کرنے کا مطلب اسرائیل کی شکست کو فتح میں بدلنے کے مترادف ہوگا۔ جنگ بندی کے بعد صورتحال میں برقی تبدیلی رونما ہوگی۔ مسئلۂ فلسطین جو اب تک ناقابل حل رہا ہے، دنیا کو مزید اپنی طرف متوجہ کرے گا۔ یہ وہ وقت ہے کہ اگر مزاحمتی طاقتیں اسی طرح استقامت کا مظاہرہ کرتی رہیں گی تو مسئلہ فلسطین کا حل ان کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ اسرائیلی ریاست کا وجود خطرے میں ہے، اس کا اعتراف خود صہیونی تجزیہ نگار کر رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی جو عربی النسل ہیں، ان کے مؤقف میں بھی تبدیلی رونماء ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مزاحمتی محاذ مسئلۂ فلسطین کے حل اور اسرائیلی ریاست کے خاتمے کے لئے کونسی حکمت عملی کا انتخاب کرتا ہے۔ اس وقت دنیا کی نگاہیں امریکہ اور اسرائیل سے زیاہ مزاحمتی محاذ پر ٹکی ہوئی ہیں، کیونکہ خطے میں امن کا مستقبل اسی محاذ کے ہاتھوں میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1126842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش