0
Thursday 4 Apr 2024 21:03

برطانیہ پر بڑھتا دباؤ

برطانیہ پر بڑھتا دباؤ
تحریر: سید رضا میر طاہر

اب جبکہ غزہ میں جنگ چھٹے مہینے کے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے پے در پے حملوں، نسل کشی اور بھوک کے ہتھیاروں سے قحط پیدا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، برطانیہ میں بہت سی ایسے مطالبے اور درخواستیں سامنے آئی ہیں، جس میں اس ملک میں بننے والے ہتھیاروں کی تل ابیب کو فروخت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غزہ میں غیر ملکی امدادی کارکنوں کے قافلے پر صیہونی حکومت کے حالیہ حملے اور تین برطانوی شہریوں کی ہلاکت کے بعد یہ معاملہ مزید پررنگ ہوگیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم "ورلڈ سینٹرل کچن" نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ غزہ میں یکم اپریل 2024ء بروز سوموار کو ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اس تنظیم کے سات امدادی کارکن مارے گئے۔ اس واقعے میں ان کا فلسطینی ڈرائیور بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

اس غیر سرکاری گروپ کے ارکان کے خلاف یہ حملہ غزہ کی پٹی میں خوراک کی امداد پر مشتمل ایک جہاز کے پہنچنے اور اس کے شمالی علاقوں میں جانے کے چند گھنٹے بعد ہوا۔ اس تنظیم کے بیان کے مطابق، مرنے والوں میں برطانوی، آسٹریلوی، پولش، کینیڈین نژاد امریکی اور فلسطینی شامل تھے۔ اس سلسلے میں سکاٹ لینڈ کے وزیراعظم حمزہ یوسف نے برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے نام ایک کھلے خط میں لکھا ہے: برطانوی حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت فوری طور پر بند کر دے، تاکہ غزہ  میں صیہونی فوج کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے سے بچا جا سکے۔

انہوں نے 23 فروری کو لکھے گئے اپنے سابقہ ​​خط میں سونک سے کہا تھا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے رفح پر زمینی حملے کی دھمکی اور اس حملے کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر تل ابیب کو اسلحہ برآمد کرنے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے۔ نئے خط میں حمزہ یوسف نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے ابھی تک میرے خط کا کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ دوسری طرف غزہ میں شہریوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں، آپ نے اسرائیل کو برطانوی ہتھیاروں کی برآمدات بھی منسوخ نہیں کیں۔ ادھر چھ سو سے زائد برطانوی وکلاء نے اس ملک کی حکومت کے نام ایک کھلے خط میں صیہونی حکومت کو اسلحے کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

رشی سونک کے نام اپنے خط میں ان وکلاء نے یاد دہانی کرائی ہے کہ صیہونی حکومت کو اسلحے کی فروخت غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ​​اس لیے حکومت برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحہ بیچ کر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی برآمدات معطل کرنے کے لیے اس ملک کے اراکین پارلیمنٹ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود سونک نے ان کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکمران قدامت پسند پارٹی کے نمائندے فلک ڈرمنڈ نے کہا: "اگر برطانوی حکومت اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند نہیں کرتی تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک  قرار دیا جا سکتا ہے۔"

 برطانوی عوام کی اکثریت صیہونی حکومت کو اسلحے کی برآمد کو روکنا چاہتی ہے۔ غیر ملکی امدادی کارکنوں کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنانے کے حالیہ اسرائیلی جرم میں تین برطانوی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے پیش نظر (جس میں 7 افراد ہلاک ہوئے تھے۔)، قدامت پسند حکومت پر برآمدات روکنے کے لیے دباؤ  بڑھ گیا ہے۔ برطانوی عوام کے تازہ ترین جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے 56% لوگ غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندی کے حق میں ہیں۔ اس سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 59% برطانوی عوام کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ کی جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ دو اہم برطانوی جماعتوں میں سے، لیبر پارٹی کے 71 فیصد جواب دہندگان اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندی کے حق میں تھے، جبکہ کنزرویٹو حکمران پارٹی کے صرف 38 فیصد حامیوں نے تل ابیب کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کی حمایت کی۔

اگرچہ یہ رائے شماری غزہ میں برطانوی امدادی کارکنوں کی ہلاکت سے پہلے کرائی گئی تھی، لیکن اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی اکثریت غزہ میں جنگ کے خلاف ہے۔ حالیہ مہینوں میں برطانیہ کے مختلف شہر بالخصوص اس ملک کا دارالحکومت لندن بڑے پیمانے پر مظاہروں اور اجتماعات کا منظر نامہ پیش کرتا رہا ہے۔ ان مظاہروں میں اس ملک کے لاکھوں لوگوں نے غزہ کے عوام کی حمایت میں شرکت کی، ان مظاہروں میں صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کے فوری قیام اور غزہ کے عوام کو فوری امداد فراہم کرنے کے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار برطانوی حکومت نے گذشتہ دنوں اس جنگ اور اسرائیل کے طرزعمل کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے غزہ کے حالات کو واضح طور پر ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔

نیتن یاہو کی طرف سے غزہ کے لیے انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے میں صیہونی حکومت کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے سونک نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: غزہ کے لیے انسانی امداد بھیجنے کے حجم اور رفتار میں اضافہ کیے بغیر ہم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے ان اشاروں اور ظاہری دھمکیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ لندن صیہونی حکومت کو ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے۔ برطانیہ جرمنی کے ساتھ ساتھ یورپ میں صیہونی حکومت کے اہم حامیوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس نے ہمیشہ فلسطین کے مظلوم عوام کو دبانے اور قتل کرنے کے لیے صیہونی حکومت کو ہر قسم کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔

برطانیہ، امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر، صیہونی حکومت کی سیاسی اور فوجی حمایت میں ہمیشہ فعال کردار ادا کرتا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن، جو تل ابیب کا اصل حامی ہے، وہ بھی دیگر چیزوں کے علاوہ اسرائیل کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام میں شرکت اور حالیہ برسوں میں غزہ  پٹی میں مظلوم فلسطینی عوام کو دبانے اور قتل کرنے کے لیے مختلف قسم کے پولیس اور فوجی ساز و سامان کی خریداری اور سپلائی  میں شامل رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، برطانوی قدامت پسند حکومت نے غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت اور اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سے اقدامات اٹھائے۔

برطانیہ میں غزہ کے عوام کی حمایت میں مظاہروں اور اجتماعات کے انعقاد کو روکنے اور غزہ جنگ کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مسودے کی مخالفت میں امریکہ کا ساتھ وہ اقدامات ہیں، جس کا ارتکاب برطانوی حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  برطانوی حکومت کی طرف سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگرچہ لندن نے رائے عامہ کے دباؤ اور غزہ کے عوام کی نسل کشی کے خلاف نیز ملکی اور بین الاقوامی مظاہروں میں اضافے اور اس خطے کی انتہائی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے سلامتی کونسل کی تازہ ترین قرارداد یعنی قرارداد 2728 کے حق میں ووٹ دیا ہے(جس میں غزہ جنگ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔) لیکن ہتھیاروں کی سپلائی اب بھی جاری و ساری ہے۔
خبر کا کوڈ : 1126906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش