0
Monday 2 Mar 2009 16:12

مختلف ممالک کا استقلال امپیریالزم کا ڈراونا خواب:

مختلف ممالک کا استقلال امپیریالزم کا ڈراونا خواب:
نوام چامسکی
مترجم: سید علی ہمدانی

افسوس کےساتھ دنیا میں ہمارےارد گرد بےشمار ایسےخطرات اور Threatsموجود ہیں کہ جنہیں "قریب الوقوع" بحران کہ سکتے ہیں۔ مگر اس مقالےمیں ان Threatsپر لکھنےکا ارادہ رکھتا ہوں جو انسانیت کو مغربی حکومتوں کی طرف سے درپیش ہیں۔ یہاں امریکہ کے بارے میں کہوں گا البتہ ذہن میں رہےکہ یورپ اورامریکہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
اس وقت دنیا کی توجہ کا اہم ترین علاقہ مشرق وسطیٰ ہے۔ اس توجہ کی وجہ بھی عیاں ہے، امریکہ ساٹھ سال پہلے اس علاقے میں موجود انرجی کے عظیم ذخیرے کی بو کو ایک سٹریٹیجک طاقت کے عظیم منبعے کے طور پر سونگھ چکا تھا۔ مشرق وسطیٰ دنیا کا اہم ترین سٹریٹیجک نقطہ ہے اور اس علاقے اور اسکے ذخائر پر کنٹرول امریکہ کی کلی سیاست میں ایک اولویت کے طور پر ہمیشہ سےسرفہرست رہا ہے اور اس ضمن میں موجود خطرات (Threats) واشنگٹن کے لئے کافی ساری پریشانیوں کا باعث رہے ہیں۔
کافی عرصے تک مغرب نے ان خطرات کا سرچشمہ روس کو بنائے رکھا اور اس بہانے دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کی سرنگونی اور وحشت کا باعث بنا رہا۔
جب دیوار برلن گری تو بڑے بش(باپ) کی حکومت نے نئی قومی امن پالیسی بنائی اور اعلان کیا کہ ہر چیز پہلے کی طرح، مگر ایک نئے فریم(حد بندی) میں آگے بڑھے گی لیکن اس وقت تیسری دنیا کی طاقتوں کی نئی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ چیز جو امریکہ کیلئے مشرق وسطیٰ میں خطرے کا باعث ہے وہ قوم پرستی ہے۔ باپ بش کی قومی امن پالیسی کے تحت امریکہ نے اپنی مداخلت گر افواج کو پورے مشرق وسطیٰ میں مستحکم کرنا تھا۔
اس وقت بھی عمومی افکار میں اہم ترین مسئلہ عراق کا ہے اور واشنگٹن کےعراق پر فوجی حملے کے نتیجے میں اصل جیتنےوالا ایران ہے۔ اگرچہ عملاً یہ حملہ ستمبر 2002میں ہوا لیکن پہلےسےخفیہ طور پر اس کی تیاری ہو رہی تھی۔ اس مہینے واشنگٹن نے میڈیا کے ذریعے ایسا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا کہ وزیر خارجہ رائس اور دوسروں نے وارننگ دے دی کہ صدام کا اگلا پیغام نیویارک کے اوپر ایک بڑے مشروم(چھتری) کے ذریعے آئے گا (ایٹمی حملےکی طرف اشارہ) اور چند ہفتوں میں اپنےز یر تسلط میڈیا کے ذریعے امریکی حکومت نے ملکی عوامی افکار کو پروپیگینڈہ کے سیلاب کے ذریعے بین الاقوامی حالات سے یکسر دور کردیا اور صدام جو شاید دنیا بھر میں منفور ترین شخص تھا مگر امریکی لوگ صدام کےنام سے خوفزدہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ آج میڈیا عراق پر حملےکے تجزیوں اور اظہار نظر سے امڈا نظر آئے گا مگر اس ملک کے اندر وقوع پذیر ہونے والے اتفاقات سے خالی ہے۔ صحافی اور میڈیا کے افراد یا مورچہ بند علاقوں یا قابض فوج کی ہمراہی میں نظر آئیں گے۔ اس کا مطلب ان کی ڈرپوکی یا سستی نہیں بلکہ ان جگہوں کےعلاوہ جانے کا مطلب اپنی زندگی کو خطرے سے دوچار کرنا ہے۔ پچھلی جنگوں میں ایسی صورت حال نہ تھی۔ شاید تعجب ہو اگر کہا جائے کہ امریکہ اور برطانیہ عراق کے کنٹرول میں نازیوں کے یورپ کنٹرول کرنےسے بد تر حالات میں ہیں۔ ان تمام موارد سےصرف نظر کرتے ہوئے سوال یہ ہے کہ عراق میں کیا کیا جائے؟۔ اس سوال کےجواب سے پہلے ہم چند اصولوں سےآشنا ہو جائیں۔
بنیادی ترین اصول یہ ہےکہ قابض "حق" نہیں رکھتا بلکہ صرف " ذمہ دار" ہوتا ہےاور اس کی پہلی ذمہ داری تعمیر نو (Reconstruction) اور دوسری جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں ( Victims of War) کی مرضی کے مطابق عمل کرنا۔ البتہ ایک تیسری ذمہ داری بھی ہے، جنگی مجرموں کا محاسبہ، مگر مغربی امپیریالسٹی طرز تفکر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ انتہائی مشکل لگتا ہے لہذا ہم اس سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔
عراقیوں کیلئے ملک کی Constructionکی ذمہ داری سرفہرست ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ایک مدت سے عراقی لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں حکومتیں صدام کے Terrorist دور میں اس کی تمام تر جفاوں میں، ایران اور خود اپنےعراقی عوام پر ہمیشہ اس کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ تاریخ کی تحریف ان کیلئے جن کے ہاتھ میں طاقت ہو کوئی مشکل کام نہیں البتہ بھینٹ چڑھنے(Victim) والے ہمیشہ دنیا میں اصل حقیقت کو درک کر لیتے ہیں۔ ایران عراق جنگ کے بعد واشنگٹن اور لندن نے اپنے دوست صدام کی فوجی حمایت جاری رکھی اور حتیٰ 1989میں عراقی نیوکلیئر انجینیئرز ایٹمی اسلحہ بنانے کی ٹریننگ کی غرض سےامریکہ بھیجےگئے تھے۔
1991 کی خلیج فارس کی جنگ سےفوراً بعد بھی امریکہ اور برطانیہ نےصدام کی فوجی حمایت دوبارہ شروع کر دی اور عراقی شیعوں کو کچلنے کیلئے اس کی مدد کی اور اس حمایت کی وجہ بھی رسمی طور پر بیان کی گئی۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا "صدام کا گناہ چاہے کچھ بھی ہو، اس نےسعودی عرب اور برطانیہ سے وعدہ کیا ہے کہ ملکی امن و امان کیلئے کوشش کرے گا۔ البتہ ملی امن و امان ایک کوڈ تھا اس عبارت کےلئےکہ” مغرب کےاحکامات پر عمل کرے گا“۔
"تھومس فریڈمن" نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے سامنے بہترین آپشن ایک فوجی کونسل کی حکومت کا قیام تھا جو صدام کی طرح آہنی ہاتھ سےعراق پر حکومت کرتی مگر اس آپشن کےعملی نہ ہونے کی وجہ سےامریکہ کو دوسرا آپشن اختیار کرنا پڑا: خود صدام! کیونکہ وہ چیز(آپشن) جو واشنگٹن کےحکمرانوں کو پسند نہ تھا وہ عراقیوں کا امریکہ سےآزاد ہوکر ملک کو چلانا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سےمہلک قسم کی پابندیاں صدام پر مسلط کی گئیں جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے، عراقی متمدن معاشرہ تباہ ہوگیا، ظالم حکمران یعنی صدام اور مضبوط ہو گیا اور لوگ اپنی بقاء کیلئے صدام پر انحصار کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔
اسی بائیکاٹ کے باعث صدام کا حال ان ظالم حکمرانوں جیسا نہ ہوسکا جو اسی جیسےتھےاور لندن اور واشنگٹن کی شدید حمایت کے باوجود سرنگون ہوگئے۔ سوہارتو، چایشکو اور چندمذید ان جیسے اوباش کہ آہستہ آہستہ جن کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پھر بھی یہ تمام واقعات، ان لوگوں کیلئےجو طاقت کےعروج پر ہیں، بےاہمیت اور فضول، اور ظلم میں پسنےوالوں کیلئے جو حقائق کو سمجھنے کو ترجیح دیتے ہیں، تلخ اور ناگوار ہیں۔ یہ تمام مظالم قابل ازالہ ہیں لیکن مغربی تہذیب کا فکری اور اخلاقی بحران اس قسم کی سوچ کو سیاست دانوں کے ذہن تک پہنچنے نہیں دیتا۔
ایک قابض کی دوسری ذمہ داری، بھینٹ چڑھنے والےملک کے لوگوں کی خواہشات پر عمل کرنا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے رائے عامہ کا تجزیہ کرنے والوں کے نتائج اس بات کی نشاندہی کرتےہیں کہ آخری رائےعامہ کے تجزیہ کے نتائج کے مطابق 87 فیصد عراقی قابضوں کے ملک سے انخلاء کا مکمل شیڈول چاہیتے ہیں، وہ نتیجہ جو کہ 2005 میں 67 فیصد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً تمام عراقی عوام غیر ملکی افواج کی اپنےملک سے واپسی کے خواہاں ہیں۔ ایسا نتیجہ جو حتیٰ نازیوں کے زیر اثر رہنے والے یورپی عوام میں بھی نہیں ملتا۔
اسی کےساتھ بش، بلیئر اور ان کے دوسرے ساتھی اس بات پر اڑے ہوئےہیں کہ عراق سے نکلنے کا ایک مکمل شیڈول بنانے کا امکان نہیں ہے اور یہ بات بڑی طاقتوں کی ڈیموکریسی سےنفرت کی عکاس ہےجو کہ ہمیشہ ڈیموکریسی کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ ڈیموکریسی کےنعرے کو WMD (Weopons of Mass Destruction) نہ ملنے کے بعد پروپیگینڈے کا بنیادی ترین محور اور جنگ جاری رکھنے کا بہانہ بنایا گیا۔ نومبر 2003 میں بش نےواشنگٹن کے "ڈیموکریسی کیلئے کوشش" کے مرکز میں اسی نظریے کو بیان کیا اور اس نےدعویٰ کیا کہ عراق پر حملےکا اصل ہدف WMD نہ تھے بلکہ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں ڈیموکریسی کو ایکسپورٹ کرنا تھا۔
کچھ دنوں بعد، امریکہ کی طرف سے رائےعامہ کا جائزہ لینے والوں نے ایک سروے میں اس سوال کا جواب کہ امریکہ کا عراق پر حملےکا کیا ہدف تھا؟، کچھ یوں بیان کیا: ایک فیصد امریکی ہدف کےموافق یعنی ڈیموکریسی کی بحالی، 5 فیصد امریکہ کا ہدف عراقی لوگوں کی مدد، اور بقیہ نے کہا امریکی ہدف بالکل واضح تھا مگر اس کو بیان نہیں کر سکتے! یعنی وہی اسٹریٹیجک اور اقتصادی کہ جس کی خاطر عراق نے کویت پر اور روس نےافغانستان پر حملہ کیا۔
لیکن عراقی عوام کی خواہشات سے بے توجہی اور حتیٰ ان کا رد کرنا قابضین کی طرف سے "ڈیموکریسی پر عمل" سےبڑھ کر ہے۔
عراقی اپنےمضبوط ترین ہمسایے ایران سے تعلقات استوار کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ عراقی شیعوں کی اکثریت ایرانی حکومت اور لوگوں کے ساتھ انتہائی مضبوط اور نزدیکی رابطے رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عراق کی آزادی باعث بنی ہے کہ عراق کے بارڈر کے نزدیک سعودی عرب میں بسنے والے شیعوں کو ان کا حق یا مکمل آزادی مل سکے اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں سعودی عرب کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر پوشیدہ ہیں۔ واشنگٹن کے کرتے دھرتوں اور سیاست دانوں کا ڈراونا خواب یہ ہے کہ اس وقت دنیا کےعظیم ترین تیل کے ذخائر شیعہ نشین علاقوں میں موجود ہیں اور شیعہ کبھی بھی امریکہ کےسامنےسر نہیں جھکائیں گے۔
دوسری طرف واشنگٹن یورپیوں کو تو ڈرا سکتا ہےاور جب امریکہ انہیں دھمکائے گا تو یورپی کمپنیاں ایران کی سر زمین ترک کر دیں گی مگر چین جو درندہ صفتوں کی طرف سے تحقیر کی تین ہزار سالہ تاریخ رکھتا ہے واشنگٹن کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہو گا۔ یہ ہےامریکہ کی چین سےمتعلق اسٹریٹیجک پریشانی کا اصل سبب۔ واشنگٹن چین کی فوجی قوت سے پریشان نہیں بلکہ اس کی امریکہ سے آزادانہ روش اپنانےکی وجہ سے۔ اس قسم کی آزادانہ روش اپنانے کی پالیسی کی پریشانی سے اگر کیوبا اور ویتنام جیسےممالک کے مقابلے میں تو (صرف نظر) چشم پوشی کی جا سکتی ہے مگر ایک ایسے ملک کےمقابلے میں جو آہستہ آہستہ دنیا کے اقتصادی محور میں تبدیل ہو رہا ہو انتہائی پریشان کن ہے۔ چین کی اقتصاد اس وقت امریکہ کی اقتصاد کےدو تہائی (%66) ہے اور اگر چین کی موجودہ ترقی کی شرح ثابت رہے تو احتمالاً اگلی دہائی میں یہ فرق ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح چین ایشیاء کےامن و امان کا مرکزی کردار اور شنگھائی تنظیم کا رکن بھی ہے۔ ایران بھی اگر اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ اس کے یورپی پارٹنرز ڈر گئے ہیں تو اپنےدروازےمشرقی سرمایہ کاروں کیلئے کھول دے گا۔ اگر ایسا ہو تو ایران شدید خواہش رکھنےوالے پارٹنرز پالےگا۔ پچھلےستمبر میں تہران میں چین، پاکستان، انڈیا، روس، مصر، انڈونیشیاء، جارجیا، ونزویلا اور جرمنی کی ایک اہم کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شرکت کرنےوالوں نےاس بات پر زور دیا کہ توانائی کی ترسیل کیلئے ان ممالک کےدرمیان ایک وسیع پائپ لائن سسٹم بنایا جائےاور اپنے توانائی کے ذخائر کو بھی مزید وسعت دی جائے۔ بش کےانڈیا کےآخری سفر میں ایٹمی اسلحہ کے پروگرام میں ان کے ساتھ تعاون بھی اس روز بروز بڑھتی دنیا کی توانائی کی طاقت کےبارےمیں پائی جانے والی پریشانی کو کم کرنےکی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
ایک آزاد ڈیموکریٹک عراق امریکہ کی عالمی طاقت ہونے کے خلاف پائےجانےوالےخطرات میں مزید اضافے کا باعث بنےگا۔ لہذا حیران نہیں ہونا چاہیئے اگر امریکہ اپنی پوری توانائی عراق کی آزادی کےخلاف بروئے کار لا رہا ہے۔ اگر امریکہ عراق کو کم ترین آزادی دینے پر بھی مجبور ہوگیا اور پہلےبیان کئےگئےنتائج وقوع پذیر ہوئےتو واشنگٹن کی سیاست کی نقشہ کشی کرنےوالوں کوسرد جنگ کے بعد اپنےبیرونی سیاسی اہداف میں بد ترین شکست سےدچار ہونا پڑے گاجو کہ ان کی دنیا کےاسٹریٹیجک ترین نقطےکو کنٹرول کی ضرورت ہے۔
واشنگٹن طویل عرصے سے جب کہ وہ اس تیل کے قطروں کا محتاج بھی نہ تھا اس سیاست کو عملی جامہ پہنانے کے درپے تھا اور حتیٰ مستقبل میں اگر اس کا پورا انحصار شمسی توانائی پر بھی ہوجائے تب بھی اس سیاست سے ہاتھ نہ کھینچے گا۔ اس قسم کا کنٹرول واشنگٹن کو اپنےاقتصادی رقیبوں کےاقدامات اور نکتہ نظرات کے مقابلے میں ویٹو پاور بخشتا ہے جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کےبعد اور حال ہی میں عراق کے بارے میں بھی یہی سیاست بیان کی گئی ہے۔
زبیگنیو برجینسکی نے کہا تھا عراق کی کامیاب تسخیر انہیں اپنےاقتصادی حریفوں پر ناقابل یقین طاقت فراہم کرے گی۔ بش کےمعاون ڈک چینی نے بھی اسی بات کو دوسرے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے: " تیل کےذخائر پر دوسروں کا قبضہ رشوت اور دھمکی کا وسیلہ بن سکتا ہے"۔ اسی طرح وسطی ایشیاء کےممالک کہ جن پر ڈکٹیٹر شپ نظام (امریکی ڈیموکریسی کےنمونے) قائم ہیں کے دورےپر انہیں پائیپ لائن سسٹم کی تعمیر کےمنصوبے پر ہماہنگ کرنےکی کوشش کی تاکہ یہ واشنگٹن کےہاتھ میں ایک اہم ہتھیار کےطور پر رہے۔
البتہ یہ کوئی نئی سیاست نہیں ہے۔ 60 سال قبل انگریز ایڈمرل والٹر ہیوم لانگ نے بھی یہ کہا تھا کہ اگر ہم تیل کےعالمی ذخائر پر قابض ہو جائیں تو جو چاہیں دنیا میں کرسکتے ہیں۔
"ووڈرو ویلسن" بھی اس اہم نکتہ کو سمجھ چکا تھا اسی لئے ویلسن نےبرطانیہ کو 1928ء میں وینزویلا سے جوکہ اس وقت دنیا کا سب سےبڑا تیل برآمد کرنے والا ملک تھا باہر نکال کر امریکی کمپنیوں کو ان کی جگہ متبادل کےطور پر قابض کروایااوراس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے وینزویلا کے خائن ڈکٹیٹر کی حمایت کرکے اسے برطانیہ کے ساتھ موجود معاہدوں کو تڑوا دیا اسی دوران واشنگٹن کو امریکہ کےمشرق وسطیٰ کے تیل پر حق کا خیال بھی آیا جہاں برطانیہ اور فرانس استعمار کی صورت میں موجود تھی۔
یہاں یہ بات نوٹ کرواوں کہ ان تمام واقعات نے "ویلسن کی آئیڈیئلسٹ" تھیوری کا پردہ فاش کردیااور "آزاد تجارت" اور "کھلے دروازے" کا حقیقی معنی بیان کیا اور بعض اوقات حتیٰ رسمی طور پر بھی اس بات کا اعتراف کیا گیا۔ جب دوسری جنگ عظیم کی بعد بین الاقوامی نظام کی نئی صورت حال واشنگٹن کی وزارت خارجہ میں منظورکی گئی تو اس مین صاف الفاظ میں یہ بات رکھی گئی تھی کہ مغربی کوریا پر موجود ذخائر اور منبعوں کی حفاظت اور کنٹرول "آزاد تجارت(Free Trade) " کی آڑ میں کی جائےجو کہ "اوپن مارکیٹ" کے نظریے کی تائید ہے: یعنی جو کچھ ہمارے پاس ہے دوسروں پر اس کے دروازے بند کرکے حفاظت کرنا اور جو کچھ نہیں ہے "کھلے دروازے” (Open Doors) کے اصول کے تحت حاصل کرنا۔ یہ تمام چیزیں بین الاقوامی روابط میں اس بنیادی نظریے ٹوکایڈیڈس کے اصول کی غمازی کرتے ہیں کہ: "طاقتور جہاں تک کر سکے طاقت کا استعمال کرتا ہے اور ضعیف جہاں تک جان رکھے اس تکلیف کو برداشت کرے"۔
عراق کےبارے میں ان تمام حقائق کی موجودگی میں خروج کی اسٹریٹیجی کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ واشنگٹن کےسیاست دان اتنی مشکلات کو برداشت کرنےکی جرائت اور ارادہ نہیں رکھتے جبکہ دنیا کے دوسرےعلاقوں میں بھی ایسی مشکلات درپیش ہیں۔
جاسوسی اداروں کی اگلےہزارے کے بارے میں جو اندازے اور پیش گویاں ھیں ان کےمطابق امریکہ مشرق وسطیٰ کے تیل کو کنٹرول کرے گا اور زیادہ تر بحرہ ایٹلانٹک کےکنارےآباد ممالک کے ذخائر سے استفادہ کرےگا لیکن امریکہ کا جنوبی امریکہ کےممالک، وینزویلا سے لےکر ارجنٹین تک، پر کنٹرول ہاتھ سےنکلتا جارہا ہے۔ کنٹرول کےدو اصلی وسیلے سختی اور اقتصادی پابندی تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ہر دو ناکارہ ہوتے جارہے ہیں۔ واشنگٹن کی آخری امید وینزویلا میں 2002ء کی فوجی بغاوت تھی لیکن عوامی طاقت کےہاتھوں اس حکومت کی سرنگونی کے بعد پیچھے ہٹ گیا اور اس واقعےکے بعد جنوبی امریکہ کےممالک کو بغاوتوں نے اپنا آشیانہ بنا لیا۔ جہاں ڈیموکریسی امریکہ اور یورپ سے سینکڑوں بار زیادہ متحرک ہے اور ایک منتخب حکومت کوآسانی سے نہیں گرایا جا سکتا۔ امریکہ کا اقتصادی کنٹرول بھی آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ جنوبی امریکہ کے ممالک نے اپنا قرض IMFکو ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ارجنٹین کے صدر نےاعلان کیا ہےکہ جلد IMFکے چنگل سے اپنے ملک کو آزاد کرا لیں گے۔ IMF سے وابستہ ہونے اور اس کے قوانین کے اجراء کی وجہ سے ارجنٹین کی اقتصادی حالت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے مگر بیونس آئرس نے ان قوانین سے انحراف کرکے اپنی حالت کافی بہتر بنا لی ہے۔ برازیل نےبھی IMFسےنجات پالی ہے اور بولیویا بھی وینزویلا کی مدد سے جلد ہی نجات پالے گا۔ اس علاقے کا اقتصادی کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔
واشنگٹن کی اہم ترین پریشانی وینزویلا ہے جوکہ مغربی نیم کرے میں سے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ امریکی توانائی کی وزارت کے مطابق اگر تیل کی قیمت اسی سطح پر برقرار رہے اور کاراکاس اپنے ذخائر سے اسی طرح تیل نکالتا رہے تو سعودی عرب سے پیداوار میں آگے نکل جائے گا۔ امریکی سختی اور سرنگونی کی کوشش نے وینزویلا کو برآمدات کے نئے مراکز پر سرمایہ گزاری کرنے کی طرف متوجہ کردیا اور چین ایسی فرصت کےانتظار میں بیٹھا ہے۔
جنوبی امریکہ کے سب سےبڑے گیس کے ذخائر بولیویا میں ہیں اور یہ ملک بھی وینزویلا کی سیاست اپنا رہا ہے اور یہ دونوں ممالک امریکہ کی آنکھ میں ایک اور وجہ سے بھی کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ دونوں کی حکومتیں عوام کی منتخب اور مقبول ہیں۔ ہوگو چاوز وینزویلا میں اس قسم کی عوامی مقبول حکومتوں میں سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہے۔ واشنگٹن اس کی عوامی حمایت اور آزادانہ (امریکہ کی غلامی سی) پالیسی سے سخت متنفر ہے۔ بولیویا میں بھی ایسے ڈیموکریٹک انتخابات جس کی مثال یورپ میں بھی شاذ ہے کے نتیجے میں وہاں کی عوام نے "اپنے جیسے" شخص کو منتخب کیا ہے۔ ڈیموکریسی بڑی طاقتوں کیلئے ہمیشہ درد سر بنتی ہے اور مخصوصاً جب اپنے حقیقی معنی میں جلوہ افروز ہو۔
جو کچھ ہو رہا ہے اس کی امریکیوں کی طرف سے تفسیر کرنےسے ان کے ڈر اور وحشت کا انداہ لگایا جا سکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز لندن نے متنبہ کیا ہے کہ "اورمورالس" بولیویا کا صدر ایک ڈکٹیٹر اور غیر جمہوری شخص کا روپ دھارتا جارہا ہے۔ مغربی ممالک کا اصلی درد وہ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو آزادی اور جمہوریت کیلئے وقف کررکھا ہے۔ وہ ان کو ڈکٹیٹر اور جمہوریت سے دور کہتے ہیں۔ اس ڈکٹیٹرشپ اور جمہوریت سے دوری کا ثبوت اور نشانی یہ ہے کہ 95% عوامی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے بولیویا کی گیس کو قومی تحویل میں لے لیا ہے۔ دوسری نشانی اس کےغیر جمہوری رویے کی یہ ہے کہ کرپشن کو ملک سے ختم کرنے کی وجہ سے روز بروز محبوب تر ہوتا جارہا ہے۔ مورالس کی سیاست وینزویلا کے ہوگوچاوز کی ہیبت ناک سیاست کےمشابہ ہے۔ اگر چاوز کی منتخب حکومت کی محبوبیت بھی اس کو غیر جمہوری (پاپولزم کا ملزم !) کہنے کیلئے کافی نہ ہو تو اسکی وینزویلا کی سیاست کو بولیویا میں رواج دینا، بولیویا کی شرح خواندگی بڑھانے میں مدد کرنا، سینکڑوں کیوبا کے ڈاکٹروں کی کفالت کرنا جنہیں بولیویا کام کیلئے بھیجا گیا ہے، فنانشل ٹائمز کےآنسووں کو بڑھانے کا باعث بنی ہے۔
مارچ 2006کی قومی امن پالیسی میں بش حکومت کی طرف سے چین کو لمبےعرصے کیلئے امریکہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا اور یہ خطرہ جنگی لحاظ سے نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے ہے اور اس سند میں متنبہ کیا گیا کہ چین نہ فقط اپنی تجارت کو پھیلا رہا ہے بلکہ اس طرح عمل کر رہا ہے گویا کہ توانائی کے تمام ذخائر پر عالمی طورپرقابض ہو جائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے واشنگٹن میں ہونے والی امریکہ اور چین کے صدور کی ملاقات میں بش نےھوجین تائو چینی صدر کو عالمی توانائی کےذخائر کےگھیراو پر وارننگ دی اور چین کے سوڈان، برما اور ایران کے تیل پر انحصار کرنے پر اس کی مذمت کی جو کہ ایسے ممالک ہیں جن میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی نفی کی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس واشنگٹن ان ممالک سے تیل درآمد کرتا ہے جو کہ مکمل جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پرستش کرتے ہیں مثلاً گھانا جو کہ افریقہ کا بدترین ڈکٹیٹر شپ نظام والا ملک ہے یا کولمبیا جس کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بدترین عالمی ریکارڈ ہے، یا مرکزی ایشیاء کےممالک اوردوسرے اخلاق اور انسانیت کے نمونے ممالک! اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو امریکہ سے پوچھ گچھ کرے۔ جب چاہے امریکہ اپنی "نیو لبرالزم" سیاست کے اجرا میں تمام قوانین کو بالائےطاق رکھ کر دوسرےممالک پر چڑھ دوڑے تا کہ مطمئن رہے کہ تیل کے ذخائر اس کے قابو میں رہیں گے اور ان کو آسانی سے "رشوت اور دھمکی" کے وسیلہ کے طور پر استعمال کر سکے گا!
نیویارک ٹائمز میں بش تائو ملاقات کے تناظر میں یہ بھی لکھا گیا کہ چین کےتیل حاصل کرنے کے شوق نےاسکے ایران کے خلاف لائحہ عمل اپنانے پر بھی اثر دکھایا ہے۔ یہاں تک کہ ایران کے "یادآوران" کےعلاقےمیں 60 ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف چین کی سعودی عرب میں دلچسپی نے سعودی عرب کی اہمیت بھی زیادہ کردی ہے کہ جو برطانیہ کو نکال باہر کرنے کے بعد امریکہ کا مطیع بنا ہوا تھا۔ یہ اطاعت اب چین کےساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون سے خطرے میں پڑ گئی ہے۔ سعودیہ اس وقت چین اور شمالی امریکہ کا سب سےبڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
بش نے چین کو زچ کرنے کیلئے اپنے مخصوص رات کے کھانے پر تائو کو مدعو نہیں کیا اور تائو نے بھی تمام تر خوش اخلاقی کے ساتھ سیدھا سعودی عرب کی راہ لی تاکہ واشنگٹن کے منہ پر پورے زور کا تھپڑ رسید کیا جائے!
یہ تمام اندازے عراق کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے واضح ہیں مگر اس قسم کے حساس مسائل امریکی لوگوں کی سب سے بڑی پریشانی کے وقت بحث کرتے ہوئے کم ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ لیکن اطمینان رکھنا چاہیئے کہ اوپن ڈسکشن میں یہ امور نظر نہ آنے کے باوجود امریکہ کی سیاست کی نقشہ کشی میں یہی امور ان کے سیاست کے طراحوں کے مد نظر اہم ترین مشکلات میں سے ہوتے ہیں۔ خودخواہ حکومتیں عام طور پر اپنے عوام کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور جو پروگرام ان کیلئے بناتی ہیں ان سے مخفی رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود ہم حقائق کو دیکھ سکتے ہیں۔
لاطینی امریکہ میں واشنگٹن کی فوج شدید طور پر بڑھائی جارہی ہے۔ وینزویلا کےعظیم تیل کےذخائر "زولیا" نامی صوبے میں واقع ہیں جو کہ کولمبیا کی سرحد کےقریب ہے اور کولمبیا امریکہ کے علاقےمیں سب سے بڑا قابل اطمینان اڈہ ہے۔ "زولیا" چاوز کا مخالف صوبہ ہے اور کچھ عرصہ سے وہاں آزادی کی ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
بولیویا میں گیس کے ذخائر مشرقی علاقے میں ہیں جہاں یورپی نسل کے لوگ آباد ہیں اور منتخب حکومت کے مخالف ہیں۔ انہوں نے بھی دھمکی دی ہے کہ اس ملک سےعلیحدہ ہوجائیں گے۔ اور اس ملک کے ساتھ پیراگوئے، امریکہ کا ایک اور قابل اطمینان فوجی اڈہ ہے۔ اس وقت امریکہ کی اس ملک کو فوجی امداد، اقتصادی اور عمومی مدد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کی امداد سے با لکل متفاوت ہے۔ اس وقت امریکی فوجیوں کی لاطینی امریکہ میں تعداد اپنی کئی اسٹیٹس سے زیادہ ہے اور ان کی نئی ذمہ داری "پاپولزم" کے خلاف جنگ ہے۔ یہ لفظ عام طور پر ان ممالک کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جو امریکی احکامات کےمطابق عمل نہیں کرتے۔
امریکہ ایک عالمی طاقت ہے اور اس کی سیاست کو اکیلا زیر غور نہیں لایا جاسکتا۔ ایک صدی پہلے آیزن ہاور کی حکومت نے امریکہ کیلئے تین عالمی مشکلات ذکر کی تھیں: انڈونیشیاء، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ۔ یہ سب مسلمان اور تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ ان سب موارد میں امریکہ کی پریشانی آزاد نیشنلزم تھی۔ فرانس کی الجزائر پر حاکمیت کے خاتمے نے شمالی افریقہ والی مشکل حل کردی۔ انڈونیشیاء میں 1965ء کی سوہارتو کی بغاوت نے اسکی آزاد منشی کے خطرے کو ختم کردیا۔ ایسی بغاوت کہ جس کے مظالم کو CIA نے ہٹلر اور اسٹالن کے مظالم کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ یہ حیرت ناک قتل عام مغرب کیلئے خوشی، ولولہ اور اطمینان کا باعث بنا ہے۔ اس بغاوت نےصرف ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو سرنگوں کیا جو کہ غریب لوگوں کی بنائی ہوئی تھی۔ سوہارتو کی بغاوت نےغریب عوام، کاشتکاروں اور کسانوں کا قتل عام کیا اور اپنے دروازے مغرب کیلئے کھولے تاکہ آسانی سے اس ملک کےغنی ذخائر سے لطف اندوز ہوں۔ جبکہ لوگوں کی اکثریت غربت اور موت کے ساتھ پنجہ آزمائی پر مجبور ہوگئی۔
دو سال بعد مشرق وسطیٰ کی بنیادی مشکل بھی اسرائیل کے ذریعے مصر میں "ناصر" کی حکومت کی بربادی سے حل ہوگئی۔ وہ حکومت کہ جس سے لندن اور وانشگھٹن شدید متنفر تھے اور اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں مصر کے توانائی کے عظیم ذخائر اس کی داخلی تعمیر و ترقی پر صرف نہ ہوں۔ چند سال پہلےامریکی CIAنے معاشرے میں اس فکر کے پروان چڑھنے پر متنبہ کیا تھا کہ تیل ایک قومی ورثہ ہےاور مغرب کے ذریعے برباد کیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب، اسرائیل اور تیل پیدا کرنے والی بڑی کمپنیوں نے CIA کی 1958ء کے اس فیصلے کی تائید کی کہ عرب نیشنلزم کی مخالفت کا "منطقی نتیجہ" مشرق وسطیٰ میں مغرب کے حامی اسرائیل پر، بطور برتر اور تنہا طاقت، اعتمادکرنا ہے۔
امریکہ اسرائیل عسکری اتحاد 1967ء کی طرف پلٹتا ہے جب اسرائیل نے فوجی قبضہ شروع کیا اور 1970ء میں اسے مزید تقویت دی گئی جب تل آویو "سیاہ ستمبر" کے فلسطینی قتل عام میں مشغول تھا اور شام کو ان کی حفاظت اور اردن میں داخل ہونے سے روکے ہوا تھا۔ شام کی اس دخالت نے امریکی پریشانی کو بھڑکا دیا۔ اسی وجہ سے امریکہ کی اسرائیل کو امداد چار گنا ہوگئی جو کہ اب تک جاری ہے۔
یہاں اجازت دیں ایران کے مسئلہ اور اسکے ایٹمی پروگرام کی فائل پر نظر ڈالیں۔ 1979ء تک واشنگٹن تہران کے ایٹمی پروگرام کی شدت سے حمایت کرتا رہا ہے۔ اس تمام عرصہ میں درندہ صفت بادشاہ امریکی اور برطانوی ایماء پر فوجی بغاوت کے نتیجہ میں حاکم تھا۔ آج مغرب کا دعویٰ ہےکہ ایران کو ایٹمی توانائی کی سرے سےضرورت ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری کے درپے ہے۔ ہنری کسنجر کے بقول "ایک تیل کی پیداوار کے لحاظ سے عمدہ ایران جیسے ملک کیلئے ایٹمی توانائی کا استعمال اس توانائی کے ذخیرے کا اسراف (ضائع کرنا) ہے!" جبکہ 30 سال پہلےکسنجر جو اس وقت وزیر خارجہ کےمنصب پر فائز تھا نے کہا تھا کہ ایٹمی انرجی کا استعمال ایران کی اقتصادی ضروریات بھی پورا کرے گا اور تیل کے ذخائر کو برآمد کرنے یا دوسرے مفید پیٹروکیمیکل مواد میں تبدیل کرنے کے کام بھی آئے گا۔ واشنگٹن نے بھی شاہ کی مدد کی تاکہ یہ پروگرام آگے بڑھتا رہے۔ ڈک چینی، ڈونلڈ رمزفیلڈ اور پال ولفووٹز نے اپنی پوری توانائی صرف کی تاکہ شاہ کیلئے مکمل فیول سائیکل مہیا کیا جا سکے۔ یہ وہی چیز ہے جسے امریکہ ابھی نہیں چاہتا کہ ایران اس کو مکمل کر سکے اور ہر قسم کی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس زمانے میں امریکی یونیورسٹیاں ایران کے ایٹمی انجینیئرز کو تعلم دینے کے درپے تھیں جو کہ واشنگٹن کی حمایت کے ساتھ تھا۔ ان میں سےایک یونیورسٹی یہی MITتھی جس میں میں اب بھی پڑھا رہا ہوں۔ کسنجر سے اس 180 درجے کے اختلاف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اپنے ہمیشہ کی طرح کے دو ٹوک جواب میں کہا: "وہ ایک زمانے میں ہمارے اتحادی تھے۔ لہذا 1979ء سے پہلے شدید طور پر اس ایٹمی انرجی کا ضرورت مند تھا لیکن اسے اب اسکی ضرورت نہیں ہے!"۔ ایران کا ایٹمی پروگرام اس ملک کا قانونی حق ہے اور مکمل طور پر NPTمعاہدے کے تحت انجام پا رہا ہے۔ بش حکومت کا اصرار ہے کہ شق نمبر 4 تبدیل ہونی چاہیئے۔ جب 1970ء میں NPTکا معاہدہ منظور ہوا تھا تو توانائی کے ایندھن اور اسلحہ کی تیاری کے درمیان کافی فاصلہ تھا مگر حالیہ ٹیکنالوجی نے فاصلہ کم کردیا ہے لیکن پھر بھی جو تبدیلی اس شق میں کی جائے صلح آمیز توانائی کے استعمال کا حق سلب نہیں ہو سکتا۔ محمد البرادعی، ایٹامک انرجی کی بین الاقوامی ایجنسی کے صدر، کی طرف سے ایک قابل غور تجویز پیش کی گئی تھی "جوکوئی اس ایجنسی کے زیر نظر ہر قسم کی ایٹمی فعالیت کرے اور یہ اطمینان ہو جائے کہ وہ ایٹمی ریسرچ اور پیداوار فقط توانائی پیدا کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہ رہا ہو تو اسے اس کا پورا حق ہونا چاہیئے"۔ اور انکے بقول یہ 1993ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد کی راہ میں پہلا قدم بھی ہوگا جس کے تحت "ہر قسم کے فشن ری اکشن میں استعمال ہونے والےمواد" پر پابندی(Fiss Ban) لگائی گئی تھی لیکن انکی تجویز نطفے میں ہی سقط ہوگئی۔ امریکی حکام دوسرے ممالک کو کسی قسم کی آزادی دینے کے قائل نہیں ہیں۔ اب تک البرادعی کی تجویز صرف ایک ملک نے قبول کی ہے، ایران نےگزشتہ فروری میں !۔ یہ موضوع کسی دوسرے حل کا متقاضی ہے تاکہ موجودہ بحران کو ختم کیا جائے۔
فشن ایبل مادہ کی تیاری مختلف ممالک میں انسانیت کو فنا کرنےکی طرف لےجا رہے۔ واشنگٹن اسی طرحFiss Ban کامعاہدہ جوکہ ماہرین کی نظر میں بنیادی ترین اسلحہ کنٹرول کرنے کا معاہدہ ہے اور قابل اجراء بھی ہے کی بھی شدت سے مخالفت کررہا ہے۔ امریکہ کی مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ کی اسلحہ ختم کرنے والی کمیٹی نے2004ء مین اسی معاہدے کے حق میں رائے دی ہے۔ ووٹنگ میں 147 اسی معاہدے کے حق میں، ایک مخالفت، جبکہ دو ووٹ غیر جانب دار تھے۔ امریکہ مخالف، جبکہ اسرائیل اور برطانیہ غیر جانبدار تھے۔
"جان فریمن" برطانیہ کے اقوام متحدہ کے سفیر نےکہا ہے کہ لندن اس معاہدے کی حمایت کرتا ہے لیکن نہ اس صورت میں کیونکہ یہ بین الاقوامی معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دے گا (147بمقابلہ 1!)۔ اس سلسلے کی دوسری ووٹنگ جو جنرل اسمبلی میں انجام پائی 179 حق میں، 2 مخالفت اور 2 غیر جانبدار کی صورت میں منظور ہوئے۔ اسرائیل اور برطانیہ غیر جانبدار جبکہ پالائو نے امریکہ کی حمایت کی۔
2004ء میں یورپی یونین اور امریکہ میں اتفاق رائے کے نتیجے میں ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو عارضی طور پر بند کرنے کی حامی بھر لی اور یورپی یونین نے بھی حامی بھری کہ ایران کی سالمیت اور امنیت پر موجود خطرات کے مقابلے میں ٹھوس معاہدے انجام دے گا۔ یہ وعدے واشنگٹن اور تل ابیب کی دھمکیوں کے مقابلے میں تھے۔ اگرچہ ایسی دھمکیاں اقوام متحدہ کے منشور کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔
ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کیا مگر یورپ امریکی دبائو کی وجہ سے اپنے وعدوں کو نبھانے میں ناکام رہا جس کے جواب میں ایران نے بھی اپنا پرامن ایٹمی پروگرام دوبارہ سے شروع کردیا۔
اب مغرب میں اس کا پرچار اس طرح ہو رہا ہے کہ ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دنیا کیلئے ایک انتہائی سنجیدہ خطرہ (دھمکی) ہے۔
موجودہ بحران ختم کرنے کیلئے دھمکیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ واشنگٹن ایران کو عالمی تجارت میں داخل ہونے دے۔ تیسرے قدم کےطور پر دوسرے تمام ممالک کےہمراہFiss Ban معاہدے کی قبولیت ہے۔ چوتھا قدم NPT معاہدے کی چوتھی شق پر عمل درآمد ہے جس کے تحت اپنے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرے، وہ لازمی معاہدہ کہ جس کی عالمی عدالت نے بھی تاکید کی ہے، اور کسی ایک بھی ایٹمی ملک نے اس پر عمل نہیں کیا۔ البتہ امریکہ ان قوانین کو توڑنے میں سب سے آگے ہے۔ اس کےعلاوہ واشنگٹن کو البرادعی کی اس تجویز پر کان دھرنے چاہئیں کہ "اس مسئلے کا حل فوجی نہیں ہے بلکہ واحد حل مذاکرات ہے“۔
کلنٹن حکومت کے عسکری اور خفیہ اداروں کے معماروں نے امریکی حکومت کوفضائی فوجی پالیسی(Space Shield) کو عملی کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ امریکی مفادات کی حفاظت کی جا سکے۔ با لکل اسی طرح جیسے زمینی اور بحری فوجیں کچھ عرصہ پہلے تک انجام دیتی تھیں۔ لیکن اب ایک بی رقیب طاقت کے طور پر فضائی اسلحہ کے پھیلاو اور استعمال سےامریکہ کیلئےفضا سے فضا میں اور فضا کی طرف حملے کی شرائط مہیا کرنی چاہئیں۔ بقول ان کے یہ پروگرام ضروری ہے کیونکہ دنیا کی معیشت میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے معاشی فاصلوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سےمعاشی جمود Recession، سیاسی بے چینی اور ثقافتی خلاء بھی وجود میں آئے گا اور یہ عمل غریب ممالک کو امریکہ کے خلاف اکسائے گا۔ لہذا امریکہ کو ایسےسرکش ممالک کے WMD کے خلاف فضائی حملے کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔ یہ ہے Free Trade اور Globalizationکا نتیجہ۔ البتہ یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلوائوں گا۔ Globalization کا لفظ ایک خاص انداز کے بین الاقوامی معاشی گٹھ جوڑ پر مبنی ہے جو اسکےاصل معماروں کے مفادات لئےبنایا گیا ہے: ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان چند حکومتوں کیلئے جن کے ساتھ یہ کمپنیاں وابستہ ہیں۔ البتہ ایک دوسری مشکل بھی Globalizationکی دوسرے گروہوں کے توسط سے طراحی کی گئی ہے جو کہ عالمی ملت کےحقیقی نمائندے ہیں۔
عالمی انصاف کی تحریکیں جو جنوبی علاقوں سے اٹھی ہیں اور ہر سال WSFکے عنوان کے تحت جمع ہوتے ہیں اور اپنی قوموں کے مفادات کے بارے میں بجث اور تبادلہ نظر انجام دیتے ہیں اسی حاضر نظام کی نظر میں Anti Globalizationتحریکیں ہیں چونکہ یہ معاشی طاقتوں کے مفادات کی بجائے اپنی قوموں کے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں۔
امریکی Globalizationکا دوسرا نام ہے نیو لبرلزم۔ نیولبرلزم سےمراد نہ نیا (نیو) اور نہ ہی لبرل ہے۔ نیو لبرلزم ایک سیاست ہے جو زور اور زبردستی سے اٹھارہویں صدی کے استعمار شدہ ممالک میں جاری (لاگو) کی جاتی ہے۔جبکہ دولت مند ممالک ان اصولوں سے گریزاں ہیں۔ اس سیاست کے ذریعے برطانیہ اور دوسرے ممالک دخل اندازی اور امداد (دست نگر بنانےوالی) پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جبکہ جاپان ان ممالک کے چنگل سے فرار کے بعد صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا ہے۔
انیسویں صدی میں مصر اور امریکہ کا معاشی ترقی میں استقلال کسی ملک کے داخلی امور میں دخالت کے کردار کا موازنہ کرنے کیلئے ایک بہترین نمونہ ہے۔ امریکہ نے برطانیہ کے شر سے آزادی کے بعد برطانیہ جیسی دوسروں کے داخلی معاملات میں دخل اندازی والی سیاست اپنا کر ترقی کی، جبکہ انہی دنوں میں برطانیہ سے دخل اندازی کرکےمصر کو ایسی سیاست نہ اپنانے دی۔ آج امریکہ، برطانیہ اور فرانس چاہتے ہیں کہ ایران اپنی تمام تر فعالیت کو معطل کرے تاکہ اس کی ترقی اور صنعت کو آگے نہ بڑھنے دیں۔ اگر مصر مستقل انداز اپنا لیتا تو شاید انیسویں صدی میں اس ملک میں صنعتی انقلاب برپا ہو جاتا کیونکہ جس برتری اور موقعیت سے مصر برخواردار تھا ویسی مواقعیت امریکہ کے پاس بھی نہ تھی۔ استقلال نےامریکہ کو برطانوی اشیاء پر انتہائی زیادہ درآمدی ٹیکس لگانے کا اختیار دیا ا اس نے درحقیقت د وسری جنگ عظیم تک امریکہ کو "داخلی صنعت کی حمایت کی سیاست" کا رہنما بنا دیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سیاست امریکی معیشت کا بنیادی اصول بن گئی جس پریہ اب تک سختی سےکاربند ہے۔
جدید تاریخ میں جمہوریت اور ترقی (پیشرفت) کا ایک مشترک دشمن ہے: استقلال کا مفقود ہونا۔ آج کی دنیا میں استقلال کا زوال جمہوریت کی امید اور معاشی و معاشرتی سیاست کو لاگو کرنے کی توانائی کے زوال کا باعث بھی ہے۔
دنیا کےموجودہ نظام میں زبردستی اور دھونس سے کام لینے والے ممالک کو "نیو لبرل" کہا جاتا ہے۔ پس بجا طور پر کہ سکتے ہیں کہ جمہوریت اور ترقی کا مشترکہ دشمن نیو لبرلزم ہے۔ لاطینی امریکہ کے جن ممالک میں نیو لبرلزم کے قوانین لاگو ہوئے ہیں وہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ان کا اصل معاشی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ جبکہ مشرقی ایشیاء کے جن ممالک نےان اصولوں سے دوری اپنائی ہے قابل توجہ ترقی کے حامل ہوئے ہیں۔ یہ کہ نیو لبرلزم جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے، قابل فہم ہے۔ عملی طور پر نیو لبرلزم کا ہر شعبہ، پرائیویٹائزیشن سے لے کر آزاد معاشی پالیسی تک، ٹھوس شواہد کی بنا پر جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔
آنےوالےبحرانات حقیقی اور قریب الوقوع ہیں۔ لیکن ہر ایک کے حل کیلئے کچھ وسیلے بھی موجود ہیں۔ پہلا قدم " Understanding" اور پھر مناسب حکمت عملی ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے جو اگر ماضی میں اپنایا جاتا تو ایک بہتر دنیا کو وجود میں لاتا۔ بےشک "تفکر اور عمل" کے اس پروسس میں عمل نہ کرنے سے مستقبل ناگوار نتائج کے ساتھ وقوع پذیر ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش