0
Wednesday 11 Nov 2009 11:25

پوسٹ صہیونیزم، صہیونیزم کی نابودی یا اصلاح؟

پوسٹ صہیونیزم، صہیونیزم کی نابودی یا اصلاح؟

تحریر: ناصر پور حسین
مقدمہ:
پوسٹ صہیونیزم ایسے مفاہیم میں سے ایک ہے جو گذشتہ چند دہائیوں میں سیاسی لٹریچر میں شامل ہوئے ہیں۔ اس مفہوم کو سمجھنے کیلئے اسکے مختلف پہلووں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان پہلووں کو مختلف سوالات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے مثلاً: پوسٹ صہیونیزم کیا ہے؟، اس کا صہیونیزم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟، پوسٹ صہیونیسٹس کون لوگ ہیں اور کن نظریات کے حامل ہیں؟، پوسٹ صہیونیسٹس اور پوسٹ صہیونیزم کا صہیونیسٹ رژیم میں کیا مقام ہے؟ اور ۰۰۰۰۰۰
اس مضمون میں کوشش کی جائے گی کہ سادہ زبان میں ان سوالات کا جواب دیا جائے۔ پوسٹ صہیونیزم کے بارے میں گفتگو 1970ء کی دہائی سے مقبوضہ فلسطین میں شروع ہوئی۔ اس گفتگو کی نوعیت اور تعریف کے بارے میں کوئی اتفاق نظر موجود نہیں ہے۔ کچھ افراد یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پوسٹ صہیونیزم، صہیونیزم سے ہٹ کر کوئی جداگانہ چیز نہیں ہے بلکہ رژیم کے مستقبل اور موجودہ اسرائیلی معاشرے میں پائے جانے والے وسیع بحران کے حل کیلئے محض ایک کوشش ہے۔ کچھ دوسرے افراد کی نظر میں پوسٹ صہیونیزم ایک بنیادی انتشار ہے جو صہیونیزم اور اسرائیل کی نابودی کے آغاز کی علامت ہے۔ اس نظریہ کے مطابق پوسٹ صہیونیزم جو صہیونیسٹوں کے محاذ میں ایک شکاف کے طور پر یاد کیا جاتا ہے رژیم صہیونیسٹی کے محو ہو جانے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ وہ افراد جو پوسٹ صہیونیزم کو صہیونیزم سے بنیادی طور پر جدا نہیں سمجھتے، یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پوسٹ صہیونیزم ایک ایسے زمانے کی پیداوار ہے جس میں اسرائیلی سیاستدانوں اور روشنفکر حضرات کی اکثریت کے مطابق صہیونیزم اپنے بڑے مقاصد کو حاصل کر چکا ہے اور ان کے خیال میں پوسٹ صہیونیزم درحقیقت نئے زمانے اور معاشرے کا صہیونیزم ہے۔ یہ افراد دعوی کرتے ہیں کہ صہیونیزم نے ماضی میں درست عمل کیا ہے اور چونکہ اس وقت وہ اپنے اہداف کو حاصل کر چکا ہے لہذا اس کو اپنی مستقبل کی کارکردگی اور گذشتہ دور کی غلطیوں کو اصلاح کرنا چاہئے۔ لہذا پوسٹ صہیونیزم کے بارے میں کلی طور پر دو نگاہیں موجود ہیں، ایک صہیونیزم کی نابودی اور دوسری اسکی اصلاح اور تکمیل ہے۔ اہم پوسٹ صہیونیسٹس کے نظریات کا جائزہ لینے کے بعد ہی مندرجہ بالا نگاہوں کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ پوسٹ صہیونیزم دو قسم کے افراد، جدید مورخین اور معترض سوشیولوجسٹس، پر مشتمل ہے۔ بنی مورس، ایلان، پلے، باروخ، کیمرلنگ، یونتھن، شائپرو، گرشن، شفیر اور شلوموسویرسکی وغیرہ جیسے افراد پوسٹ صہیونیزم کے بارے میں معروف نظریہ پرداز سمجھے جاتے ہیں۔
جدید مورخین:
فلسطین پر قبضے اور صہیونیستی رژیم کے قیام کے بعد اسکولوں، یونیورسٹیز اور پورے اسرائیلی معاشرے میں صہیونیزم کی تاریخ پر ایک خاص سوچ حکمفرما تھی جس کی بنیاد پر "یہودی سرزمین سے عاری قوم اور فلسطین قوم سے عاری سرزمین تھی"۔ یہ جملہ اگرچہ 1843ء میں الیگزینڈر ریکٹ کی طرف سے سامنے آیا لیکن اسرائیل زنگویل کی وساطت سے استعمال کے بعد صہیونیستوں کیلئے ایک مسلم قانون کی صورت اختیار کر گیا۔ صہیونیستی نظریات کے تحت مورخین کا کردار تاریخ کو اسی بنیاد پر لکھنا اور پڑھانا تھا۔ اس سوچ میں فلسطین کی اصلی مکینوں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسی طرز تفکر میں

گولڈمائر کا یہ جملہ سمجھا جا سکتا ہے کہ: "دراصل فلسطین میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے یہ سرزمین جس کے حوالے کی جائے"۔ صہیونیست مورخین یہ لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں کہ 1948ء کی جنگ ایک بڑا انسانی فاجعہ تھا۔ اس قسم کی تاریخ نویسی میں فلسطین ایک ایسی سرزمین کے طور پر پیش کی جاتی ہے جو خلافت عثمانی کا ایک حصہ اور کسی قسم کے مکینوں سے خالی تھی۔ دوسری طرف اس قسم کی تاریخ نویسی میں کہا جاتا تھا کہ فلسطین میں موجود چند مکینوں نے اپنی مرضی سے عرب رہنماوں کے کہنے پر وہاں سے ہجرت کی تھی تاکہ نئے آنے والے یہودی آسانی سے عربوں کی طرف سے مورد حملہ قرار پا سکیں۔ ایسے میں صہیونیستی تاریخ نویسی میں ڈیوڈ بن گوربن کی مہارت اور یہودی سپاہیوں کے ایثار کی وجہ سے عظیم کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی مورخین کی ایک تعداد کیلئے 1970ء کی دہائی کے آخر میں یہ سوال پیش آیا کہ اگر فلسطین ایک غیرآباد علاقہ تھا اور وہاں پر موجود کچھ مکینوں نے بھی اپنی مرضی سے وہاں کو ترک کر دیا تھا تو یہودی پہلوان کون افراد تھے اور کن لوگوں سے جنگ میں مشغول تھے۔ 1978ء میں جب فلسطین پر قبضے کے 30 سال بعد امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کی وزارت خارجہ سے خفیہ دستاویزات کو منتشر کیا گیا تو ایسے موضوعات سامنے آئے جن میں اس سوال کا جواب بھی موجود تھا۔ بنی مورس نے ایسے مورخین کو جو صہیونیستی تاریخ نویسی مخصوصاً 1948ء کی جنگ کے بارے میں تاریخ نویسی کو قبول نہیں کرتے تھے "جدید مورخین" کا نام دیا۔ ٹام سیگو جدید مورخین کے سابقین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے اسرائیلی تاریخ اور معاشرے کو اپنی ذاتی مطالعے اور تحقیق کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ سیگو نے 1984ء میں چھپنے والی اپنی کتاب "پہلے اسرائیلی" میں لکھا ہے کہ اب تک گذشتہ ریکارڈز کا ایک چھوٹا سا حصہ منظر عام پر آیا ہے اور انتہائی اہم راز ایسے ہیں جو اب تک فاش نہیں ہو سکے اور ہمارے دسترس سے باہر ہیں۔ معدنیات کی اس فہرست میں سے جن کو پانے کیلئے وہ صحرای نقب جاتا تھا اور بن گوربون نے اسکو تیار کیا تھا ایک لفظ مٹا ہوا تھا جس کا سائز "یورینیم" کے لفظ کے برابر تھا۔ بمب بنانے کا منصوبہ اسرائیل کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کیلئے ضروری نظر آتا ہے۔ متعلقہ کمیشن حکومتی دستاویزات کو بائگانی سے نکالنا نہیں چاہتی کیونکہ یہ کام ہماری تاریخ کو ناگوار انداز میں واضح کر سکتا ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ 1984ء میں ایک سپشل یونٹ تشکیل دیا گیا جسکا کام لوگوں کے گھروں سے کتابوں اور دستاویزات کو چرانا تھا۔ جدید مورخین نے صہیونیستی تاریخ نویسی میں اپنی مرضی سے فلسطینیوں کی ہجرت سے متعلق افسانے پر بھی تنقید کی ہے۔ انہوں نے نئی دستاویزات کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ ان فلسطینیوں کو زبردستی اپنے وطن سے نکالا گیا تھا۔ بنی موریس 1987ء میں چھپنے والی اپنی کتاب "1947-1949 میں فلسطینی مہاجرین کے مسئلہ کی پیدائش" میں 1948ء کی جنگ کے بارے میں یہودیوں کے افسانوں کو یوں بیان کرتا ہے:
۱۔ 1947ء میں اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کردہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا خیر مقدم کر رہا تھا جبکہ عرب رہنما اسکی مخالفت میں مصروف تھے،
۲۔ 1948ء کی جنگ ایک بکھری ہوئی اقلیت [یہودی] اور
ایک طاقتور گروہ [اعراب] کے درمیان ہونے والی جنگ تھی،
۳۔ فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ عرب رہنماوں کا پیدا کردہ ہے کیونکہ وہ فلسطینیوں کو کہتے تھے کہ جلد از جلد فلسطین سے نکل جائیں تاکہ ہم جلدی کامیاب ہو سکیں،
۴۔ اسرائیل صلح کے درپے تھا، لیکن اعراب ایسا نہیں چاہتے تھے۔
موریس لکھتا ہے کہ یہ چار موضوعات ایسے ہیں جن کا پرچار اسرائیل میں کیا جاتا ہے اور اسکولوں میں بچوں کا ذہن بھی اسی قسم کی چیزیں پڑھا کر بنایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں اساساً غلط ہیں اور تاریخی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ مصنف معتقد ہے کہ 1948ء میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکال باہر کیا اور اپریل اور دسمبر 1948ء کی درمیانی مدت میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی دیہاتوں کو نیست و نابود کر دیا اور وہاں سے ہجرت کرنے والوں کی واپسی کو ناممکن بنانے کی خاطر انکے دیہاتوں کی جگہ یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں۔ موریس کے خیال میں اسرائیل کی بنیاد ایک "گناہ" پر رکھی گئی ہے اور وہ گناہ فلسطینیوں کا وحشیانہ اخراج ہے۔ یہ جدید مورخ 1948ء کی جنگ کا از سرنو جائزہ لینے کے علاوہ ماضی میں زیادہ دور تک انجام پائے واقعات کی بھی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ وہ آثار قدیمہ کے مطالعے کی مدد سے یہودیوں کے تاریخی جھوٹوں کو برملا کرتا ہے۔ موریس کہتا ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہر افراد کی تحقیق کے مطابق سرزمین کنعان کے فتح ہونے اور وہاں کے رہنے والوں کا خدا کے حکم سے قتل عام کرنے والا ماجرا ایک کہانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں ایسے افراد میں سے ہوں جنہوں نے خیالی تاریخ کی بنیاد پر مطالبات کرنے چھوڑ دیئے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم یہ چاہیں کہ ایک نئی دنیا کی تعمیر کیلئے 2 ہزار سال پہلے والی جغرافیائی حدود اور حقوق کو بنیاد قرار دیں تو پوری دنیا کی سطح پر ایک پاگل خانہ وجود میں آ جائے گا۔ اگر ہم اسی طرح اسرائیلی بچوں کو جعلی تاریخ پڑھاتے رہے تو کبھی بھی پایدار صلح حاصل نہیں ہو سکے گی۔
معترض سوشیولوجسٹس:
مغربی دنیا کی طرف سے ہمیشہ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی کا اکلوتا جمہوری نظام ہے۔ معترض سوشیولوجسٹس، پوسٹ صہیونیستوں کا ایسا گروہ ہے جو اسرائیل کے سیاسی نظام کی جمہوری بنیادوں کو رد کرتے ہوئے اس رژیم میں موجود عظیم طبقاتی اور نسلی فاصلوں پر توجہ دیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے 1970ء کی دہائی کی ابتدا میں جب راکھ میں چھپی ثقافتی اور معاشرتی ناراضگی اور دشمنی کی آگ محروم یہودی معاشرے مخصوصاً شمالی افریقا سے آنے والے یہودیوں کو گوشہ گیر کرنے کی خاطر حکومتی شرارتوں کے خلاف ایک اعتراض کی صورت میں بھڑک اٹھی تو جوان اور متحرک سیاہ پوست سیاسی حوالے سے سرگرم عمل ہو گئے اور "سیاہ چیتوں کی تحریک" کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کے طرفداروں نے علمی محافل میں اس کے معرض وجود میں آنے کی ریشہ یابی اور معاشرتی اور سیاسی بے انصافیوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ معترض سوشیولوجسٹس نے جدید مورخین کی طرح گذشتہ 30 سالوں کا گہرائی میں مطالعہ کیا اور اسکو تجزیہ و تحلیل کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیلی معاشرہ ایک ایسا نابرابر معاشرہ ہے جس میں حتی خود یہودیوں کے درمیان طبقاتی فاصلے موجود ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی آزادی کے نام سے
ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں جو 14 مئی 1948ء کو بن گوربن کے توسط سے پڑھا گیا یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیل اپنے تمام شہریوں کی معاشرتی اور سیاسی برابری کو بغیر کسی مذہبی، نسلی اور جنسی امتیاز کے پورا کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی اس نے کئی بار یہ تذکر دیا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر برقرار رہے گا۔ پوسٹ صہیونیزم کا ایک معترض سوشیولوجسٹ اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آیا ایسا ممکن ہے کہ ایک حکومت ایک ہی وقت میں یہودی بھی ہو اور جمہوری بھی؟۔ اس کے خیال میں چونکہ اسرائیل صرف یہودیوں کو قبول کرتا ہے لہذا وہ جمہوری نہیں ہو سکتا۔ ایسا ملک جس کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہو وہ ملک نسل پرست ہو گا۔ باروخ کیمرلنگ ایک اور معترض سوشیولوجسٹ 1983ء میں چھپنے والی اپنی کتاب "صہیونیزم اور سرزمین: صہیونیستی پالیسیوں کا معاشرتی سرزمینی پہلو" میں اسرائیل کی حکومت کی تشکیل کی استعماری نظریہ کے مطابق وضاحت کرتا ہے۔ اسکے مطابق اسرائیل استعماری دنیا سے مربوط ہے جسکا ہدف سفید پوستوں کی طاقت کو ان علاقوں میں بڑھانا ہے جہاں وہ موجود نہیں ہیں۔ گرسٹن شیفر، ایک اور معترض سوشیولوجسٹ کہتا ہے کہ یہودیوں نے نقل مکانی کو بڑھا کر اور اسکو صہیونیستی نظریات کے ساتھ شامل کر کے اعراب کے استعمار کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ اسکے مطابق 1905ء میں مشرقی یورپ سے یہودیوں کی بڑی تعداد بہتر کام کی تلاش میں فلسطین آئی۔ انہوں نے اپنے سرمایہ کے ذریعے عربوں کی خدمات حاصل کیں اور بعد میں ایک جانبی مسئلے کے طور پر جغرافیائی حدود اور اسرائیلی حکومت کے قیام کا مسئلہ منظر عام پر آیا۔ لہذا وہ یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کو صہیونیزم کے کسی مذہبی انگیزے کے تحت نہیں سمجھتا بلکہ صرف استعماری اور اقتصادی مفاد پرستی کی نگاہ سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ پوسٹ صہیونیزم کے کچھ دوسرے سوشیولوجسٹس مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے اعراب اور یہودیوں کے درمیان طبقاتی فاصلوں کو استعمار کی تھیوری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انکی نظر میں وہ اعراب جنکی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے یہودیوں کی بغل میں ایک کالونی کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ وہ گوشہ نشین ہیں اور اسرائیل کے اقتدار کے ڈھانچے میں انکا کوئی کردار نہیں ہے۔ چونکہ اسرائیل میں شہری حقوق آرمی سروس کے بعد فراہم کئے جاتے ہیں اور اعراب کو آرمی سروس کا حق حاصل نہیں ہے لہذا وہ اہم معاشرتی حقوق جیسے نوکری سے محروم ہیں۔ اس وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں مقیم یہودیوں اور اعراب کے درمیان گہرے طبقاتی فاصلے وجود میں آ گئے ہیں۔ پوسٹ صہینیزم سوشیولوجسٹس کے نزدیک ایک اہم موضوع سفاردیوں اور اشکنازیوں کے درمیان گہرے طبقاتی فاصلے ہیں۔ سفاردی ایسے یہودیوں کو کہا جاتا ہے جو افریقا، ایشیا یا مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اشکنازی وہ یہودی ہیں جو مغربی یورپ سے اسرائیل گئے ہیں۔ اسرائیل کے مقامی یہودیوں کو صبرا کہا جاتا ہے۔ صہیونیستی نظریات کے مطابق سفاردی یہودی عقب ماندہ ہیں جبکہ اشکنازی یہودی تہذیب یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ اہل اسرائیلی صحافی سفاردی یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے: "یہ ایسے افراد ہیں جو انتہائی عقب ماندہ ہیں اور انکی معلومات جہالت اور نادانی کی حد تک ہیں۔ بلکہ وہ ہر قسم کے عقلانی امور
کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایسے یہودی دین یہود میں بھی اصیل نہیں سمجھے جاتے کیونکہ وہ بالکل بدتہذیب اور وحشی ہیں"۔ بن گوربن نے بھی سفاردی یہودیوں کے بارے میں کہا تھا: "سفاردی یہودی کسی اور زمانے سے آئے ہیں جب ترقی نہیں ہوئی تھی۔ وہ قرون وسطی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آیا ہم ان مہاجرین کو مہذب کر سکتے ہیں؟"۔ سفاردی یہودیوں کی عقب ماندگی کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ 1970ء کی دہائی کے آخر تک مختلف طریقوں سے اسرائیل کی کتابوں اور اخباروں میں بیان کیا جاتا تھا۔ فلسطین کے معروف شرق شناس ایڈورڈ سعید اس بارے میں لکھتے ہیں: "صہیونیستی نظریات میں سفاردی ثقافت کو ایک جامد اور منفی ثقافت کے طور پر پیش کیا گیا جو یورپ میں زندگی اور ثقافتی چہل پہل کے ختم ہونے کے انتظار میں مصروف ہے"۔ صہیونیزم کے بانیان فلسطین کو ایک خالی سرزمین سمجھتے تھے جو اپنے اندر تبدیلیوں کیلئے یہودیوں کی فعالیت کی منتظر تھی۔ وہ عرب یہودیوں کو ایک خالی برتن کی مانند سمجھتے تھے جو صہیونیستی روح کے منتظر تھے۔ پوسٹ صہیونیزم سوشیولوجسٹس کی تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ سفاردیوں اور اشکنازیوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ موجود ہے۔ اس نابرابری کے آثار تعلیمی نصاب، اشعار، موسیقی اور مختلف قسم کی محافل میں نظر آتے ہیں۔ وہ اقتدار کے میدان میں مخصوصا حکومتی عہدوں جیسے صدارت، وزارت عظمی، دوسری وزارتیں اور فوجی عہدوں کوئی جگہ نہیں رکھتے۔ پوسٹ صہینیزم سوشیولوجسٹس کی طرف سے ایک بہت بڑا اعتراض اسرائیلی کی فوجی ماھیت پر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے سوشیولوجسٹ جس کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ ڈموکریٹک ہے کی نظر میں اسرائیل کی فوجی اور جارحانہ ماھیت اس بات کا باعث بنی ہے کہ معاشرے کی سب سے پہلی ترجیح "سیکورٹی" ہو اور دوسرے معاشرتی مسائل اگلی ترجیحات میں شامل ہوں۔ باروخ کیمرلنگ اور یونتھن سٹپیرو اسرائیل کو ایک قدرت طلب اور ڈکٹیٹر ریاست قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر زمرمین اسرائیلی معاشرے کو نازیوں سے موازنہ کرتا ہے اور لکھتا ہے: "ہم میں سے ہر فرد کے اندر ایک بھوت سوار ہے اور اگر ہم اسی طرح اپنے اعمال کی توجیہ کرتے رہے تو یہ بھوت مزید بڑا ہو سکتا ہے۔ یہودی قوم کا ایک حصہ ایسا ہے جس کو میں پورے یقین کے ساتھ نازی جرمنوں سے تشبیہ کر سکتا ہوں۔ یہودی بستی ہبرون [الخلیل] کے بچوں کو دیکھ لیجئے۔ وہ بالکل ہٹلر کے زمانے کے جوانوں جیسے ہیں۔ بچپن کے زمانے سے انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمام اعراب اور غیریہودی ہمارے دشمن ہیں۔ اس طرح ان میں ایک قسم کی بے اعتمادی وجود میں آ چکی ہے۔ وہ خود کو بہتر نسل سمجھتے ہیں اور یہ وہی احساس ہے جو ہٹلر کے زمانے کے جوانوں میں پایا جاتا تھا"۔ کنسٹ کے ممبران کا ماضی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ایک زمانے میں فوج کا حصہ تھے۔ اسکے علاوہ اسرائیلی رژیم وہ اکلوتی رژیم ہے جہاں خواتین پر بھی ملٹری سروس لازمی ہے۔
پوسٹ صہیونیزم، معاشرے کی سطح پر:
پوسٹ صیہونیزم 1980ء کی دھائی میں علمی محافل سے عبور کر گیا اور شعر، فلم، ناول، موسیقی اور تھیٹر تک پہنچ گیا۔ سب سے پہلی فلم جو پوسٹ صہیونیست سوچ کے ساتھ بنائی گئی فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور وہاں سے فلسطینیوں کے اخراج کے بارے میں رام لوی کے ذریعے
فلمائی گئی۔ اس فلم کو سینما کے پردے پر آنے کی اجازت نہ مل سکی لیکن لوی نے 1986ء میں اپنی دوسری فلم "میں احمد ہوں" کے نام سے بنائی۔ اس فلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کے رویے کو دکھایا گیا تھا۔ دوسری پوسٹ صہیونیزم فلموں میں امس گیٹائی کی فلم "شعر" اور ڈیوڈ بن شربٹ کی فلم "جلاوطنی کا دوسرا رخ" شامل ہیں۔ پہلی فلم میں فلسطینیوں کے گھر پر صہیونیستوں کا قبضہ دکھایا گیا ہے اور دوسری فلم میں تین جلاوطن فلسطینی خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 22 قسطوں پر مشتمل ایک سیریل "تکوما" [نئی اٹھان] جو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی پچاسویں سالگرہ پر بنائی گئی ہے پوسٹ صہیونیستوں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ 1982ء میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد پوسٹ صہیونیزم شعر میں بھی نظر آنے لگا اور اسرائیل کے جنگ طلبانہ رویے کے خلاف بہت سے پوسٹ صہیونیزم شعراء نے اپنے اشعار پیش کئے۔ ناول نویسی ایک اور میدان تھا جس میں پوسٹ صہیونیست اپنا پیغام پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئے۔ کچھ پوسٹ صہیونیستوں نے مصر اور فلسطینی مصنفین کے ناولز کو عبری زبان میں ترجمہ کیا۔ 1989ء میں "ابراہیم فوج میں واپس آ جاتا ہے" کے نام سے ایک پوسٹ صہیونیست کے ناول کے مطابق سٹیج شو پیش کیا گیا۔ اس سٹیج شو میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے وقت اسکی اعلان کردہ پالیسیوں کا جرمن نازیوں کی پالیسیوں سے موازنہ کیا گیا تھا۔ صہیونیستی حکومت نے اس سٹیج شو پر پابندی لگا دی۔ 1990ء کی دہائی میں پوسٹ صیہونیزم مقالات بھی اسرائیلی اخباروں پر چھپنا شروع ہو گئے اور اخبارات مختلف پوسٹ صہیونیست پروگرامز میں بیان کئے گئے مطالب کو چھاپنا شروع ہو گئے۔ حزب اللہ لبنان کے ساتھ 33 روزہ جنگ اور حماس کے ساتح 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کو سنگین شکست کا سامنا کرنے کے بعد قومی سلامتی کا مسئلہ ایک بار پھر اسرائیل کیلئے پہلی ترجیح بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے پوسٹ صہیونیزم نظریات جو آہستہ آہستہ علمی محافل سے معاشرے میں سرایت کر رہے ہیں مختلف قسم کی پابندیوں اور محدودیتوں سے دوچار ہوئے ہیں۔
نتیجہ گیری:
رژیم صہیونیستی جو سیاسی صیہونیزم کے نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی، نے معاشرے میں فلسطین پر اپنے قبضے کے بارے میں ایک خاص سوچ کو حاکم کیا۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز تک یہ سوچ اسرائیلی عوام میں مقبول رہی۔ اس سوچ کا غلط اور جعلی ہونا خطے کے مسلمانوں کے نزدیک شروع سے ہی ثابت شدہ تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور 1948ء سے 1950ء تک مربوط دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے صہیونیستی حکام اور فوجیوں کی جارحانہ اور جاہ طلبانہ ماھیت سب پر حتی اسرائیلی شہریوں پر واضح ہو گئی جو پوسٹ صہیونیزم کے ایجاد ہونے کا باعث بنی۔ اگرچہ اس نئے گروپ نے اپنے گہرے مطالعات کے ذریعے مقبوضہ فلسطین کے مکینوں کے درمیان عدم مساوات اور فلسطینیوں پر صہیونیستوں کے ظلم و ستم کا جائزہ لیا ہے اور رژیم صہیونیستی کے جمہوریت کے دعووں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن پوسٹ صہیونیست بھی اس رژیم کے وجود کو رسمی حیثیت دیتے ہیں اور اسکی نابودی نہیں چاہتے بلکہ جدید حالات سے ہم آھنگ رژیم صہیونیستی کے خواہاں ہیں۔

خبر کا کوڈ : 14026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش