0
Sunday 22 Apr 2012 21:49

کشمیریوں کےلئے سوشل نیٹ ورکس شجر ممنوعہ

کشمیریوں کےلئے سوشل نیٹ ورکس شجر ممنوعہ
تحریر: جاوید عباس رضوی 

جہاں کشمیریوں کو ہر آئے دن نئی مصیبتوں کا شکار بنایا جاتا ہے وہیں ان کو اپنی مظلومیت و بے کسی کا اظہار کرنے سے روکا بھی جا رہا ہے، بھارتی مظالم کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ گمنام قبرستان ہوں یا افسپا جیسے کالے قوانین، لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا عوام کو بیگار پر لے جانے کا انکشاف، نوجوانوں کی حراستی ہلاکت ہو یا پھر مظلوم ملت پر فوجی تسلط۔ ان سب مظالم کے باوجود کشمیری عوام کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ اپنی بے کسی و مظلومیت آشکار کریں اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے عیاں کریں، کشمیر میں نوجوانوں کی قتل و غارت یا انکی حراست اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صداقت پسند تھے اور انکو حق گوئی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

حالیہ دنوں بھارتی سازش کے تحت کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کیا گیا، ان گرفتار شدگان کا قصور فقط یہ تھا کہ یہ ”فیس بک“ کا استعمال کرکے اپنی مظلومیت کا اظہار کیا کرتے تھے، اس سے پہلے بھی 2010ء میں فیس بک استعمال کرنے والے نوجوانوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ ان میں سے بعض ابھی تک مقید ہیں اور بعض کو ٹارچر کرکے جسمانی معذور کیا جا چکا ہے، زیر تعلیم نوجوانوں کو حراست میں لئے جانے کے بعد مدتوں قید میں رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا مستقبل ختم ہوجاتا ہے، اس حرکت سے بھارت کشمیری نوجوانوں کو شورش کی طرف زبردستی دھکیل رہا ہے۔
 
پوری دنیا میں اس وقت فیس بک کو استعمال کیا جاتا ہے اور جدید دنیا میں مواصلاتی انقلاب آنے کے بعد اُن ملکوں میں بھی فیس بک استعمال کرنے کی آزادی ہے جہاں فوجی حکومت ہے یا جہاں آمریت کا دور  ہے۔ غرض کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں نوجوانوں کو فیس بک استعمال کرنے پر گرفتار نہیں کیا جاتا۔ مگر کشمیر میں نوجوانوں کو فیس بک پر بھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنے دیا جاتا، جو ایک سنگین صورتحال ہے۔

گرفتاریوں کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے بھارتی افواج نے پانپور کشمیر میں گزشتہ دنوں کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا، جن میں توحید احمد شیخ، فہیم احمد، عضیر احمد وگے، عمر رسول گوجری، منظور احمد صوفی، نعیم احمد آہنگر شامل ہیں۔ جبکہ عبدالرشید وانی اور محمد یعقوب صوفی کو انکے رشتہ داروں کے بدلے گرفتار کیا گیا اور مزید نوجوانوں کی تلاش بھی جاری رکھی گئی، فیس بک استعمال کرنے والے نوجوانوں کے گھر والوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ان چھاپہ مار کارروائیوں کی وجہ سے نوجوان گھروں میں رہنے سے اب خوف کھا رہے ہیں جبکہ کئی نوجوان کاروبار، پڑھائی اور دیگر مصروفیت ترک کرکے روپوش ہوگئے ہیں۔

 جس طرح نوجوانوں کو ایک بار پھر تنگ کرنے کا آغاز کیا گیا ہے اُس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت اور اُس کے مقامی آلہ کاروں نے یہاں کے آزادی پسند لوگوں کا جینا دوبھر کرنے کا عہد کر رکھا ہے، وردی پوش اہلکار بھارتی ظلم، بربریت اور سامراجیت کی عمل آوری کیلئے ایک آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں اور بس۔

اس سلسلے میں کشمیر کے حریت لیڈران کا کہنا ہے کہ بھارت اور اُس کے آلہ کاروں نے آزادی پسند لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور اس کیلئے وہ کبھی فیس بک تو کبھی امن و قانون کا نام لیکر اپنے سیاہ کرتوتوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس طرح ایک ایسی صورتحال کو جنم دینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس میں عوام رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، بھارت نے کشمیر کے آزادی پسند افراد کی سیاسی جگہ کم سے کم کرنے کیلئے اُن پر قدغن لگانے اور اُن کی سیاسی آزادی پر جو پابندیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اُس کی منزل تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ جب بھی کسی قوم کی سیاسی جگہ محدود کی جاتی ہے تو وہ متبادل راستے تلاش کرنے پرمجبور ہوجاتی ہے۔
 
کشمیری عوام سیاسی اور پر امن طریقے سے اپنے اُس حق کو حاصل کرنے کی جد وجہد  کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر مسلمہ ہے اور جس کو بھارت نے محض فوجی قوت کے سہارے چھین رکھا ہے، انہوں نے بتایا کہ تنازعہ کشمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس کو گرفتاریوں، قدغن اور پابندیوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس ان اقدامات سے کشمیری عوام کی مزاحمت میں مزید سختی آنے کے امکانات موجود ہیں۔ 

پولیس کے سراغ رسانی محکمہ کے ایک افسر نے بتایا کہ پچھلے دو سال سے فیس بک پر سرگرم تمام کشمیری نوجوانوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، اب ہم نے بعض ایسے فیس بک اکاونٹس کے پاس ورڈ بھی معلوم کرلئے ہیں جو اس نیٹ ورک کے ذریعہ سے مہم چلا رہے ہیں، سرکاری آلہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہم سائبر پولیسنگ کے ایک نظام کو حتمی شکل دے رہے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر سے باہر کچھ افراد ایسے ہیں جو کشمیری طلباء کو اکسانے کا کام کرتے ہیں ایسے کئی افراد کی شناخت ہوچکی ہے اور ہم ایسے ہر شخص تک پہنچیں گے جو بھارت کے خلاف آواز بلند کرتا ہو۔
 
لیکن غور طلب ہے کہ انسانی حقوق کے لئے سرگرم ادارہ کولیشن آف سول سوسائٹیز کے خرم پرویز کا کہنا ہے کہ پولیس آج تک یہ ثابت نہیں کرسکی ہے کہ فیس بُک پر کسی کے کچھ لکھنے سے کشمیر میں بدامنی پھیلی ہو۔ اس خوف و دہشت کے نتیجہ میں کشمیر کے اکثر نوجوانوں نے اپنے فیس بک اکاونٹس بند کر دیئے ہیں اور جو ابھی تک فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں انہوں نے اس کے استعمال کی نوعیت بدل دی ہے، فیس بک استعمال کرنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اب ہم فیس بک پر گرمی، سردی اور اشیاء خورد و نوش کا تذکرہ کرنے سے بھی ڈرتے ہیں، اپنی مظلومیت کا دفاع کرنا تو دور کی بات ہے۔
خبر کا کوڈ : 154404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش