0
Thursday 17 May 2012 00:09

عوامل اتحاد اور اُمّتِ مسلمہ ۵

عوامل اتحاد اور اُمّتِ مسلمہ ۵
تحریر: غلام علی گلزار

عالمی اسلامی قیادت کے محرکات و عوامل:

مسلم دنیا کا طبیعاتی محل و قوع جو افریقہ سے مشرقی یورپ ایشیاء کے وسط و جنوب اور مشرقی ایشیاء کے بعض حصوں پر محیط ہے صدیوں تک عظیم تہذیبوں کا گہوارہ پیامبران کرام ع کا مسکن اور علم و تحقیق کی تجربہ گاہ رہ چکا ہے، جغرافیہ کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، تیل اور گیس کی دریافتوں نے اس کی سیاسی اہمیت کے نئے دروازے جب سے کھولے اس خطہ کے ساتھ دوستی یہاں کے اقدار و اخلاق اور امن کو دوسرے پیمانوں سے ماپا جا نے لگا، اس پس منظر میں اگر مسلم دنیا اسلامی اقدار و اخوت کی بنیاد پر متحّد ہو گئی ہوتی، اس کو سیاسی استحکام حاصل ہوا ہوتا اور علمی پیش رفت میں ماضی کی طرح (مجموعاً) اس خطہ کا حصہ قابل تقلید ہوتا، کس خارجی طاقت کی مجال تھی کہ آکے اس پر حکم چلاتی اور اس کے اثر سے نکل کر انسانیت اخلاق اور آزادی کے معنوں کو اپنے پیمانہ سے تولتی! 

بد قسمتی سے مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں کے درمیان نفرت و تفرقہ کے نتیجہ میں خلافت عثمانیہ کے زوال سے مغربی طاقتوں کو مسلم بلاک کے اندر انتشار پھیلانے اور مشرق میں اپنے زیر اثر کالونیاں بنانے کا موقعہ ملا، اُن کی کوششیں امّت مسلمہ کو پارہ پارہ کر نے پر مرکوز رہیں، جن کے پیچھے ان کے رذیّل مفادات و مقاصد کار فرما تھے، صورت حال ایسی بدلی کہ مورخین نے خلافت عثمانیہ کو قصئہ کہنہ قرار دیا، یہ وہ سانحہ ہے کہ جس کے بعد مسلم دنیا میں انتشار، غیر یقینیت اور خوف و ہراس پھیل گیا، اس گھبراہٹ و تردُد میں وہ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارتے رہے۔ 

دشمنان اسلام کا ایک میٹھا وار ”قوم پرستی“ کا نعرہ تھا، جس کو اہل یورپ نے چرچ کی چیرہ دستیوں کے خلاف آزمایا تھا، اس سلسلے میں عربوں کو ترکوں اور عجمیوں کے خلاف الجھایا گیا، انہیں تاثر دیا گیا کہ ”عرب“ بالا تر ہیں غیر عربوں پر۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد متعدد مسلم مملکتوں کے اوپر سامراجی قوتوں کا اثر و رسوخ اور بعض پر تسلط قائم کر نے کے پیچھے یہ حربہ بھی بروئے کار لایا گیا، جو اُن کے مفاد میں ثابت ہوا، کیونکہ دینی/آئیڈیل جذبہ کو کمزور کرنے کے لئے ان ممالک کے اندر قومیت کے جذبات کو بھڑکا کر وفاق یا اتحاد کی فضاء کو مسموم کر دیا گیا، مذکورہ انتشار اور مغالطہ کی صورت حال کے اندر مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر تے رہے، بعض علماء نے ”سکیولرزم“ کو اس بحران کا حل قرار دیا، اُن کی نظر میں اب نئے چلینجوں کا مقابلہ کر نے کے لئے ”اسلام“ میں کوئی فعالیت نہیں رہ گئی تھی۔
 
وقت گزرنے کے ساتھ یورپ میں رونماء شدہ صنعتی انقلاب اور نشاة ثانیہ سے مسلم دنیا علم و تکنیک اور اقتصاد کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں ”لینے والوں“ کی صف میں آگئی (جب کہ دور وسطی میں دینے والوں میں تھی)، البتہ بیسوی صدی کے اواخر میں بہت سے صاحبان نظر علماء نے انحطاط کا تجزیہ کرنے کے بعد امّتِ مسلمہ کو پھر سے اسلام کے اصول و خطوط پر نئے تقاضوں کو حل کر نے اور معاشرتی/ملکی سطح پر منظم ہونے کے فارمولوں کو پیش کیا، جس سے مسلم دنیا کے طول و عرض میں ایک چھینٹا لگا، احساسات ہوش میں آنے لگے، جن میں خصوصی طور پر: امام حسن البناء، سید قطب، امام موسیٰ صدر، سید جمال الدین افغانی، علامہ سید ابو العلاء مودودی، علامہ اقبال، امام خمینی اور آیت اللہ با قر الصدّر نے آگے آکر بڑی پامردی کے ساتھ امّت مسلمہ کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت و سالمیت کی بحالی کے لئے بیداری کی تحریک دی۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ جیّد علماء کے افکار کی روشنی میں بعض اہم عوامل کو ذیل میں زیر غور لایا جائے، جن کو اگر ”اساسی خط“ کے طور پر اختیار کیا جا ئے تو امید ہے کہ مستقبل قریب میں امّت مسلمہ کو مجتمع کرنے میں موئثر ثابت ہو گا۔ متعدد مکاتب فکر اسلامی کے درمیان اتحاد کے لئے ٹھوس اصول موجود ہیں، فرد اور معاشرت کی سطح پر اسلام کے اساسی اصول یعنی توحیدّ (اللہ کو خالق، مالک، احد جاننا)، رسالت و ختم نبوت ( انبیاء اور خاتم ا لنیبیں پر عقیدہ) اور آخرت (روز حساب/قیامت کے دن محشور ہونا، سزا و جزا، عقیدہ آخرت)، نیز قرآن و سنّت (سیرت/قول و فعل پیغمبر اکرم ص) سے رہنماء خطوط مہیّا کئے جاسکتے ہیں۔ 

جیّد عصری مفسرین قرآن اور معروف محدثین کے لئے ضروری اور گنجائش ہے کہ وہ ایک دوسرے سے رابطہ کریں اور مل کر احادیث رسول ص میں (اصول حدیث کی رو سے) تجزیہ کے بعد متفقّہ طور پر ایک اسلامی ریاست کے لئے قرآن و سنت کے رہنماء خطوط کی روشنی میں منشور ( Constitution) تیار کریں، ہم آہنگ بنیادی اصول کی اولین سطح کے علاوہ ثانوی سطح کے ذیلی معاشرتی قوانین (Social Bylaws) کو بھی مل بیٹھ کر (متعلقہ ممالک کی سطح پر) متعین و مرتب کیا جا سکتا ہے، ان کے علاوہ متعلقہ معاشرہ کی نوعیت کے مطابق مختلف مکاتب فکر کے لئے ’شخصی قوانین (Personal laws) کو متعارف کیا جاسکتا ہے، مذکورہ مرکزی خیال کو واضح کر نے کے لئے مسودئہ آئین کو عوامل کی طبقہ بندی کی رو سے دوحصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے: 

(۱)مستقل عوامل، یہ دو حصوں پر مشتمل ہو نگے:
(الف) (i) آئین کی وہ دفعات جن کا تعلق بنیادی عقائد اور اصول سے ہے۔
(ii) بنیادی حقوق ضمانتیں اور سماجی فرائض (بحثیت شہری)
(ب) شخصی قوانین مربوط بہ فقہ(متعلقہ گھرانوں کے لئے)
معروف مسالک (مکاتب فکر و فقہ) اہل سنت میں چار ہیں: حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ (من جملہ طریق کار اہل حدیث) اور پانچواں جو اہل تشیعہ میں سب سے معروف اور متعارف ہے یعنی امامیہ (جعفریہ)
(۲) عارضی (تبدیل پذیر) عوامل: حکومت چلانے کے نقوش اور عمل آوری کی کاروائی سے متعلق حصہ، ذیلی عناوین:
(i) معاشرہ کی نوعیت
(ii)قومیت/قومیتوں کے تمدنی ابعاد
(iii) متعلقہ زمان و مکان سے وابستہ مسائل و روابط۔

منشور کے ذیلی قوانین کے حصہ کو ”سماجیاتی ذیلی قوانین“ کا نام دیا جا سکتا ہے، نوعیت کی مثال: ایک ایسے ملک کو لیجئے جہاں سُنی مسلم قطعی اکثریت میں (مثلاً 90 فیصد) یا زیادہ ہیں، وہاں مذکورہ ”سماجیاتی ذیلی قوانیں (Social By laws) شیخین کے نقوش اور اُن سے منسلک خطِ تجربہ پر مرتب کئے جاسکتے ہیں، یہاں پر عراق کے شہید آیت ا للہ باقر ا لصّدر (حوالہ 1975ء)  جو جید عالم/مجتہد اسلامی اصول و نظام پر مشتمل متعدد کتب کے مصنّف مثلِ اسلامی بنک، ہماری معیشت، ہمارا فلسفہ وغیرہ کے مصنف تھے) کے مثالی فتاویٰ کا حوالہ دیا جاتا ہے، جنہوں نے مصری مسلمانوں کے بارے میں پیغام (فتویٰ کی صورت میں ) دیا تھا کہ: ”اگر وہ وہاں جوہری اسلامی اصول و عقائد اور شخصی (مسلکی) قوانین کی ضمانت کے ساتھ شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر) کے طریق کار پر حکومت قائم کریں، ہم مکمل تعاون پیش کر یں گے! “۔۔۔البتہ ایسا تجربہ ایک ایسے ملک/معاشرہ میں جہاں مختلف اسلامی مسالک کے مسلمانوں کی خاصی تعداد (ایک مخلوط معاشرہ کی شکل میں)ہو قابل قبول اور کامیاب نہیں رہ سکتا ہے۔
 
اس لئے وہاں مستقل عوامل پر کاربند رہتے ہوئے ”اجتماعی ذیلی قوانین“ کو مختلف/متعدد مسالک کے علماءِ مجتہدین مل بیٹھ کر ”اجتہاد“ کے ذریعے متفقہ طور پر متعین و مرتب کر سکتے ہیں، علاوہ ازیں جب (مذکورہ نوعیت کے) ذیلی قوانین یا اصلی اقدامات کے سلسلے میں علماء کے لئے آپسی تبادلہ نظر یا بحث و تمحیص ضروری ہو جائے انہیں قرآنی حکم کو معیار کے طور پر اپنانا چاہئے، جہاں تاکیدی ارشاد ہے: حکمت (معقول اپروچ) موعظہ حسنہ (دل آزاری کے بغیر اخلاقی انداز کی گفتگو) اور جدال احسن (اعتراض کا خوشنما طریقہ)، کسی ایسے ملک میں جہاں قطعی اکثریت کسی خاص مکتب فکر(مسلک ) کی ہو جہاں جہاں اختلاف بین ا لمکاتب/مسالک پا یا جا تا ہو، نیز دوسری مذہبی اقلیتوں کے بارے میں شخصی قوانین کی ضمانت کا مہیا کیا جا نا ضروری ہے، چنانچہ پانچ معروف اسلامی مذاہب (مذاہب خمسہ) کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پچاس سے ستر فیصد تک کے مسائل ایک جیسے ہیں یا بعض جزوی خصوصیّات کے اندر قریب ہیں، حتیٰ کہ زندگی کے متعدد مسائل کے اندر بنیادی انسانی/اخلاقی قواعد و اخلاق دوسرے متعدد مذاہب میں بھی یکسوئی کے حامل ہیں، بنیادی انسانی اقدار کے تحفظ کے سلسلے میں اجراء شدہ قوانین کی پیروی بلا لحاظ مذہب و ملّت تمام لوگوں پر ضروری ہے۔ 

اسلام عالمی انسانی اخوت امن اور تحفظ نفس کے حق میں اصولی اور معقول منشور مہیا کرتا ہے، اسلام قرآن و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کے ذریعے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پیغمبر اسلام ص کے زمانہ سے ہی قرآن و سنت سے احکام کے استنباط کی طرف توجہ مبذول کر دی گئی تھی، دور خلافت میں بھی بہت سارے مسائل کو اجتہاد کے ذریعے حل کیا گیا، اجتہادی عمل کے نتیجہ میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی اجتہادی مکاتب کا سلسلہ اہل سنت مسلمانوں کے اندر چلا آیا ہے، شیعہ مسلمانوں کے اندر ”امامیہ“ منظم، متواتر اور اولین متعارف شدہ مکتب اجتہاد ہے، یہ مربوط اجتہادی سسٹم مرکز سے محیط تک عالمی سطح پر متعارف و مرتب ہے، ان تمام صلاحیتوں سے لیس ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی پیش آنے والے مسئلے کا قرآن و سنت کی رُو سے حل پیش کردے۔
 
علماء اہل سنت کے لئے فوری نوعیت کا اہم موقعہ ہے کہ وہ اجتہاد کا دروازہ منظم اور مجتمع طریقے سے درست کر لیں تاکہ ایک ”عالمی اجتہادی کونسل“ مرکزی طور پر تشکیل پائے جانے کی راہ ہموار ہو سکے، جو اجتماعی/عالمی سطح کے اہم اور نئے ہمہ جہت مسائل کا (متفقہ)حل جاری کرے، جس کی بدولت مختلف اقوام/مسالک کے مابین انتشارِ نظر کی خلیج کو کم کیا جا سکے، چنانچہ جب اور جہاں (ایسے اجتہادی مسائل پر) فتویٰ مختلف طرفوں اور زاویوں سے جاری/صادر ہوتا ہے تو فتویٰ میں اختلاف کی صورت کو دشمنان اسلام ہوا دیکر قوموں/ملکوں/مسلکوں کی خلیج کو اور زیادہ وسیع کر تے ہیں، چاہے افتاوی مراکز مثلاً الازھر، مدینہ، دیوبند، بریلی، ملیشاء، پاکستان یا کسی اور مرکز کی طرف سے فتویٰ صادر ہو جائے۔
 
امّت کی فوری اور اہم ضرورت کے طور پر ”اجتہاد“ کے ایک عالمی مرکز کا ہونا مناسب و مفید ہے، البتہ اہل سنت کے مفتیان کرام/مجتہدین کے درمیان اجتہاد کے سلسلے میں طریقہ و خطوط استنباط کے درمیان ہم آہنگی پائے جانے کے سبب اتفاق نظر پیدا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ”اہل حدیث“ کی سطح پر بھی عمومی نوعیت کے احکام فقہ (مدونہ/مروجہ/متعارفہ) کے ایک مجموعہ کو جاری کیا جا چکا ہے، کیونکہ ہر فرد کے لئے یہ ممکن نہیں کہ قرآن و سنت سے براہ راست حکم نکالے، خصوصاً موجودہ صورت حال کے اندر جب نئے سوالات (اجتماعی تقاضے) نزاکت خیز اور گہرے ہو تے چلے جا رہے ہیں، تفقہ، اجتہاد و افتاء کے دائرہ کار میں ماہرین کی مجلس (Council/Bench) کبھی کسی صورت حال کی نزاکت و خصّوصیت کے پیش نظر (چار سنی مسالکِ فقہ کے درمیان) ایک مسلک سے دوسرے مسلک کے مروّجہ حکم/فتویٰ پر متفق ہو کر جاری کر تے ہیں/کر سکتے ہیں، جیسا کہ قریباً ۴۳ برس قبل مصر کے جامعہ الازہر کی طرف سے نکاح بالاصالت کی بجائے نکاح بالوکالت کا اطلاق و اجراء کیا گیا تھا تاکہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے قابو سے باہر ہو چکی صورتحال پر کنٹرول کیا جا سکے۔ 

جہاں تک بین ا لاقوامی سطح کے وسیع سماجیات و سیاسیات کے مربوط مسائل کے اندر مفہومی نقطات، اسلامی تہذیب و اخلاق کے مستقل خطوط، دعوت الی اللہ کے اصول و مساعی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور اسلامی تشخص کے آثار کی حفاظت کا تعلق ہے، سنی اور شیعہ کے آپسی عالمی اجتہادی فورم (مرکز) کے انصرام و استحکام سے یہ موثر و آسان ہو سکتا ہے اور امّت مسلمہ کے اتحاد اور عالمی اسلامی قیادت (امامت) کی فضا مسطح ہو سکتی ہے۔ 
’’جاری‘‘
خبر کا کوڈ : 162530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش