0
Tuesday 14 Aug 2012 01:04

یوم آزادی کے روز

یوم آزادی کے روز
تحریر: نذر حافی
 
بات سیدھی سی ہے کہ مجھے ظالم لوگ درندوں کی طرح نوچ رہے تھے، میرے گھر میں آگ لگی ہوئی تھی، میری دینی روایات پامال ہو رہی تھیں، میری عزت سرعام نیلام ہو رہی تھی، میرے گلے میں جرائم کا طوق اور کاندھوں پر الزامات کا بوجھ تھا، میں دربدر مارا مارا پھر رہا تھا، میرا کوئی وطن اور کوئی ٹھکانہ نہ تھا، میرے خون سے زیادہ گائے کا خون محترم تھا، میری جان سے زیادہ مال مویشی قیمتی تھے۔ میرا جرم میرا قصور یہ تھا کہ میں اِسلام کا نام لیتا تھا اور مسلمان کہلواتا تھا، لوگ میرے دین کا مذاق اڑاتے تھے، میری عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرتے تھے، ایسے میں نظیر اکبر آبادی اقبال، حالی اور محمد علی جناح جیسے لوگ میری مدد کو اٹھے، انہوں نے میرے زخم سہلائے، مجھے میری منزل کا پتہ بتایا، میرے حوصلوں کو بلند کیا، انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ میں ہی فرزندِ اسلام ہوں، میں ہی معمارِ بشریت ہوں اور میں ہی اللہ کے آخری دین کا حقیقی وارث ہوں۔
 
چنانچہ میں اٹھ کھڑا ہوا، میں نے ظالموں اور غاصبوں کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا، سامراجی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوگیا، میں نے اسلام کیلئے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کر دیا، میں ایک ایسے ملک کے خواب دیکھنے لگا جہاں اسلام ہی اسلام ہوگا، جہاں مواخاتِ مدینہ جیسی مواخات ہوگی، جہاں بزمِ رسالت جیسی مساوات ہوگی، جہاں مسندِ اقتدار پر دیندار لوگ جلوہ افروز ہوں گے، جہاں عدل و انصاف کا پرچم لہرائے گا، جہاں کالے اور گورے کی تمیز نہیں ہوگی، جہاں امیر اور غریب کا فرق نہیں ہوگا، جہاں مذہب کی مذہب سے دشمنی نہیں ہوگی۔
 
جہاں انسان کا انسان سے بیر نہیں ہوگا، جہاں جیلوں میں کوئی بے گناہ نہیں ہوگا، جہاں دیہاتوں میں کوئی جاہل نہیں ہوگا، جہاں شہروں میں کوئی فتنہ نہیں ہوگا، جہاں اداروں میں کوئی کرپشن نہیں ہوگی، جہاں پولیس رشوت نہیں لے گی، جہاں فوج عوام کو گولیاں نہیں مارے گی، جہاں عزت و شرف کا معیار تقوی ہوگا، جہاں مارکیٹوں میں ذخیرہ اندوزی نہیں ہوگی اور جہاں دودھ میں پانی نہیں ملایا جائے گا۔
 
میرا یہ خواب ہر غاصب کو ناگوار گزرا، میرا آزادی کا نعرہ ہر ظالم کو برا لگا، چنانچہ مجھے سامراجی شکنجوں میں کسا گیا، مجھے ٹارچر سیلوں میں زد و کوب کیا گیا، مجھے گلیوں اور بازاروں میں رسوا کیا گیا، مجھے مقدس عبادت گاہوں کے اندر خون میں نہلایا گیا، مجھے عزت کی ضربیں لگائی گئیں، مجھے غیرت کے زخم لگائے گئے، لیکن میں مسلسل اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی رہا، میری زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا، لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان اور میرے دل میں صرف ایک ہی عشق موجزن تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔
 
میرے شہر جلے، میری عزت و ناموس داغدار ہوئی، میری جائیدادیں تباہ ہوئیں، مجھے ہجرتیں کرنی پڑیں، میں نے آگ اور خون کا دریا پار کیا اور تب جا کر مجھے میر پیارا وطن پاکستان نصیب ہوا، تب جا کر 14 اگست 1947ء کا وہ حسین سورج طلوع ہوا کہ جس نے میری سسکیوں کو مسرتوں میں بدل دیا، جس نے میری آہوں کو خوشیوں میں تبدیل کر دیا، جس نے میرے اشکوں کو نغموں میں ڈھال دیا، جس نے میرے خوابوں کو حقیقت میں اتار دیا، جس نے میرے جذبوں کو سچ کر دکھایا، جس نے میرے دعووں کو عملی کر دکھایا۔
 
اب میں بہت خوش تھا اب میں اپنے زخموں کو بھول چکا تھا، اب میں ایک آزاد ملک کا آزاد شہری تھا، اب میں ایک باوقار قوم کا عزت مند فرد تھا، اب میں فخر اور اعتماد کے ساتھ سر اٹھا کر چلتا تھا، لیکن لیکن مجھے یہ کیا معلوم تھا کہ اتنے دکھ سہنے کے بعد ملنے والی یہ خوشی بھی عارضی ہوگی مجھے کیا معلوم تھا کہ سامراجی پٹھو اِس آزاد ملک پر بھی حکومت کریں گے، مجھے کہاں خبر تھی کہ اب مجھے غیر نہیں اپنے لوٹیں گے، اب مجھے دشمن نہیں دوست زخم لگائیں گے۔
 
اب مجھ پر برطانیہ کی نہیں اپنی فوج حکومت کرے گی، اب مجھے ہندو جرنیل نہیں مسلمان آفیسر گولیاں ماریں گے، اب میری عبادت گاہوں کے تقدس کو سکھ نہیں نام نہاد مجاہدین پامال کریں گے، اب میرے قتل کے حکم نامے پر انگریز سرکار نہیں، پاکستان حکومت دستخط کیا کرے گی، اب میں غلام ہندوستان کے ٹارچر سیلوں میں نہیں، آزاد پاکستان کے اذیت کدوں میں کچلا جاوں گا، اب مجھے ہندو سینا نہیں بلکہ مسلمان ایجنسیاں اغوا کریں گی، اب میرے قافلوں پر سکھ بلوائی نہیں، بلکہ مسلمان شدت پسند حملے کریں گے۔
 
آئیے! اس سال یوم آزادی کے موقع پر ہم سب مل کر بیٹھیں اور مل کر سوچیں کہ وہ دو قومی نظریہ کہاں گیا، جو ہماری اساس اور بنیاد تھا؟! وہ مائیں کہاں گئیں جو اقبال اور محمد علی جناح جیسے بیٹوں کو جنم دیتی تھیں؟! وہ سیاست دان کہاں کھو گئے جو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے تھے؟! وہ ادیب کہاں چلے گئے، جو اکبر الہ آبادی کی طرح قوم کا درد رکھتے تھے؟! اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے وہ طالب علم اور استاد کہاں چلے گئے، جنہوں نے پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی؟!
 
اس سال 14 اگست کے طلوع ہوتے سورج کی آغوش میں بیٹھ کر میں بھی سوچتا ہوں اور آپ بھی سوچئے! ہم سب مل کر اسلام کے نام پر دہشت گردی، ہدیے کے نام پر رشوت، تفریح کے نام پر فحاشی، امن کے نام پر قتل و غارت، تعلیم کے نام پر جہالت اور جمہوریت کے نام پر آمریت کو کیسے روک سکتے ہیں۔ آئیے مل کر دودھ میں پانی ملانے والوں کو روکیں، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 187211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش