1
0
Monday 8 Oct 2012 19:03

امریکی سفارتکاروں کی گلگت میں پراسرار سرگرمیاں

امریکی سفارتکاروں کی گلگت میں پراسرار سرگرمیاں
تحریر: نجیم شاہ

پاکستان کا شمالی علاقہ تاریخی طور پر تین ریاستوں گلگت، بلتستان اور ہنزہ پر مشتمل تھا۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجہ نے لشکر کشی کے ذریعے ان علاقوں پر زبردستی قبضہ کرکے انہیں کشمیر کا حصہ بنا دیا تھا، چنانچہ پاکستان کی آزادی کے وقت یہ علاقے کشمیر کا حصہ سمجھے جاتے تھے، مگر یہاں کے باشندوں نے اپنی علیحدہ حیثیت برقرار رکھی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہاں کے لوگوں نے بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑ کر اس سرزمین کو پہلے آزاد کرایا اور پھر پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کر دیا، جبکہ 2009ء میں حکومتِ پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان علاقوں کو پاکستان کا صوبہ بناکر یہاں پہلی دفعہ انتخابات کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بلتی شہزادے کی بغاوت پر ڈوگروں کی بلتستان میں آمد ایک فوجی جارحیت کے انداز میں ہوئی تھی، لہٰذا فوجی جارحیت کو بنیاد بنا کر اس خطے کو کشمیر کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور پاکستان سے الحاق کے بعد یہ علاقہ متنازعہ نہیں، بلکہ پاکستان کا آئینی و قانونی حصہ ہے۔

گلگت بلتستان جیو اسٹریٹجیکل پوائنٹ آف ویو سے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا علاقہ ایغور واقع ہے۔ شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہے۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند پچاس چوٹیاں واقع ہیں، جبکہ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اس علاقے میں ہے، جبکہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیر بھی اس خطے میں واقع ہیں۔ یہ علاقہ تین ایٹمی ممالک پاکستان، چین اور بھارت کے نقطہ اتصال پر ہونے کے باعث جہاں ان ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہاں امریکہ کی بھی اس علاقے میں روز بروز دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔

دنیا کے بلند ترین میدانِ جنگ سیاچن کے قریب ہونے اور پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ شاہراہ قراقرم کا اس علاقے سے گزرنے کے باعث یہ خطہ جہاں ان دونوں ممالک کے لیے دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں امریکہ اور بھارت کی اس خطے میں سرگرمیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاک چین دوستی کو پیوندِ خاک کیا جائے، تاکہ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کا گرم پانیوں تک رسائی کا راستہ روکا جا سکے۔ کیونکہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک عرصہ سے خاموش جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں پاکستان کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔

اگر چین گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بہت جلد سپر پاور بن جائیگا۔ جبکہ چین کی ابھرتی طاقت کو روکنا اور اپنی سپرپاوری کو برقرار رکھنا امریکی خارجہ پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ اسی مقصد کے لئے امریکہ اور بھارت کی طرف سے پہلے بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور اب گلگت بلتستان میں بغاوت کو ہَوا دی جا رہی ہے۔ سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس جیسے واقعات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اب یہاں بھی ایک خاص منصوبے کے تحت حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔

یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ جب گلگت بلتستان میں کام کرنے والی متعدد این جی اوز اپنے کاموں کے لئے یو ایس ایڈ سے امداد کے لئے رابطہ کرتیں تو انہیں کورا جواب دیا جاتا کہ ہمارے پاس تمہیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ ہمارا فوکس تو صرف خیبر پختونخواہ ہے، مگر اب یک دم امریکہ نہ صرف اس علاقے کی ترقی کے لئے فنڈز فراہم کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے، بلکہ یہاں کے طلباء و طالبات کو امریکی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ پر اعلٰی تعلیم کے لئے مواقع فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے چکا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل اسکردو میں پاکستان کی اپنی فنڈنگ سے تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچنے والے سدپارہ ڈیم کے لئے بھی ازخود ایک خطیر رقم دینے کا اعلان کر چکا ہے۔

یہ وہی سدپارہ ڈیم ہے جسے فروری 2007ء میں پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن خفیہ اداروں کی بروقت کارروائی پر سدپارہ جھیل کے عین اوپر پہاڑی پر چھپائے گئے چھ عدد راکٹ لانچر ناکارہ بنا دیئے گئے تھے۔ دنیا حیران ہے کہ امریکہ کی یک دم شمالی علاقہ جات میں اتنی دلچسپی کیوں بڑھ گئی ہے کہ وہاں ڈویلپمنٹ کے نام پر ایک خطیر رقم خرچ کرنے کو تیار ہے، جبکہ ساتھ ہی ایسے انکشافات بھی ہو رہے ہیں کہ قوم پرستی کو ہَوا دینے کے نام پر فنڈز کا بہاؤ تیز کرکے امریکہ اس علاقے میں گریٹ گیم کھیلنا چاہتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق گلگت کا دورہ کرنے والے امریکی سفارتکاروں کے وفد کی غیر اعلانیہ اور پُراسرار ملاقاتوں میں قوم پرستوں کو چین کے خلاف بھڑکانے اور اس علاقے کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تحریک کا انکشاف ہوا ہے۔ گلگت میں چینی مفادات اور پاکستان کے اہم ترین ڈیمز کے منصوبے ہیں۔ جبکہ یہ خطہ مذہبی فسادات کی زد میں بھی رہا ہے، جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں یہ علاقہ حساس ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی سفارت کاروں کے وفد نے غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے وہاں ایسی پراسرار سرگرمیاں دکھائیں جو ملکی سلامتی کے منافی سمجھی جاتی ہیں۔

میڈیا پر ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ امریکی سفارت کاروں کے وفد اور قوم پرست لیڈروں کے درمیان ملاقاتوں میں یہ طے پایا کہ اگر قوم پرست جماعتیں کھل کر پاکستان مخالف تحریک شروع کر دیں تو امریکہ ایسی تحریک کی حمایت کرے گا۔ ان ملاقاتوں کے بعد قوم پرستوں نے حکومتِ پاکستان پر کھلی تنقید کی اور اپنے لیے الگ ریاست کا مطالبہ بھی کیا۔ جبکہ ملک کا ایک مؤقر روزنامہ اخبار اپنی گزشتہ سال پندرہ اپریل کی اشاعت میں یہ انکشاف کر چکا ہے کہ انتخابات میں قوم پرستوں کی شکست کے بعد ایک طرف اس علاقے میں عدم استحکام کو ہَوا دینے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف پکڑے جانے والے پیغامات میں انکشاف ہوا ہے کہ بالاورستان نیشنل فرنٹ پاک چین ٹریڈ کو ہدف بنانے کے لیے حکومت مخالف ریلیاں شروع کرنے کی منصوبہ بندی اور اس ریجن میں امریکی اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کام کر رہا ہے۔

اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ بی این ایف کے عہدیدار آزاد گلگت بلتستان کی تحریک کے لئے امریکی مدد کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور جیسے ہی ایسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی تو امریکہ اس تحریک کی حمایت شروع کر دے گا۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ گزشتہ سال امریکہ کی ایک سرکردہ یونیورسٹی میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار میں امتیاز نامی ایک ایسے شخص کے کردار کو سراہا گیا تھا کہ جس نے مارچ 2011ء میں مقامی ٹی وی پروگرام میں آزاد گلگت بلتستان کی بات کی تھی، جبکہ یہ انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ 2006ء میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے ایک فرضی رہنماء نے کابل میں بھارتی سفارتی عملے کے ساتھ ملاقات کی، جس کے بعد سے اس تنظیم کو باقاعدہ بھارتی امداد ملنا شروع ہوئی۔

ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی قوم پرستوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی تو امریکہ نے اس تحریک کی حمایت کے لئے ان سے رابطے تیز کر دیئے۔ امریکی سفارت کاروں کے وفد کا حالیہ دورہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان ملاقاتوں میں امریکہ نے جہاں قوم پرستوں کو چین کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے پر مراعات دینے کی پیش کش کی، وہاں پاکستان مخالف مؤقف کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی اور ساتھ ہی امریکہ بعض ترقیاتی منصوبوں میں بن بلائے مہمان کی طرح شریک بھی ہونے لگا ہے۔

کچھ عرصہ قبل یو ایس ایڈ کی جانب سے زراعت، دام پروری اور دیہی ترقی کے شعبوں میں امریکی امداد کے حوالے سے قومی و علاقائی اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے جاتے رہے۔ تب بھی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے کہ امریکہ یہاں کی زراعت سے وابستہ ہونے کی بناء پر یو ایس ایڈ کے بہانے اس خطے کے تمام قریوں اور کوچوں تک باآسانی رسائی چاہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کو چوکنا ہو جانا چاہئے، تاکہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے شرپسند عناصر اس حساس ریجن کی صورتحال کو عدم استحکام کا شکار نہ کر سکیں۔ اہلِ پاکستان کو امریکی سفارتکاروں کے دورہ گلگت پر ہرگز اعتراض نہیں اور نہ ہی امریکہ کی طرف سے وہاں مختلف شعبوں میں تعاون پر کوئی اعتراض ہے۔

عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں تعاون کرنا یقین لائق تحسین ہے، مگر اس دورہ کے دوران اس وفد کی جو پراسرار سرگرمیاں رہیں، وہ باعثِ تشویش ہیں اور ایسی صورتحال میں آئندہ کے لیے امریکی سفارتی عملے کو صرف اسلام آباد تک ہی محدود کر دینا ضروری ہے۔ قوم پرست رہنماؤں کے خدشات اپنی جگہ، لیکن انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں بلکہ اُسے اپنا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سفارتی وفد اپنی ملاقاتوں کے ذریعے قوم پرست لیڈروں کے منہ سے وہ بات بھی اگلوانے میں کامیاب ہوگیا جو اُن کا اصل ایجنڈا تھا۔ امریکہ چین کا راستہ روکنے کے لئے جو گریٹ گیم بلوچستان میں کھیل رہا ہے، اب اس کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک پھیلانے میں مصروف ہے۔ اسی لئے پچھلے دنوں لائن آف کنٹرول پر چینی فوج کی موجودگی کا شوشا چھوڑا گیا۔

آج یہ امریکی سفارتکار گلگت میں آکر ہم سے ہی پوچھ رہے ہیں کہ آپ کو صوبہ چاہئے یا پھر پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ کیا ہماری خود مختاری کی ضمانت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔؟ گلگت بلتستان کے عوام ایک عرصہ سے خود کو آئینی حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو یقیناً اُن کا حق بھی ہے، اس لئے حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خطے کے عوام کو اُن کے آئینی حقوق اور پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی دے۔
خبر کا کوڈ : 201455
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
This is Warning for Pakistani people
ہماری پیشکش