0
Monday 8 Oct 2012 18:52

پاکستان کی بقاء کے لیے یو ایس ایڈ کو روس کی طرح پاکستان سے بھگانا ناگزیر ہے

پاکستان کی بقاء کے لیے یو ایس ایڈ کو روس کی طرح پاکستان سے بھگانا ناگزیر ہے
تحریر: محترم عبداللہ

آج کل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یو ایس ایڈ کو بہت نمایاں کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی اصل حقیقت انہی کو پتہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ یو ایس ایڈ کی مثال ایسی ہی ہے کہ آپ کسی ادارے میں کسی کو کینٹین یا سپلائی کا ٹھیکہ بلا کسی معاوضہ دے دیں اور معاوضے کی رقم کا کچھ حصہ وہ ادارے کے اپنی مرضی کے فلاحی کاموں میں صرف کردے اور اس کی تشہیر کرے تو یہ کچھ مناسب بات نہیں ہے۔ پاکستان نے ابتداء ہی سے جس طرح کی مراعات، تحفظ، تجارتی سہولیات امریکہ کو فراہم کی ہیں، یو ایس ایڈ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ابھی حال میں نیٹو کو سپلائی کی جو سہولیات دی تھیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ کراچی سے پشاور تک عام ٹرالر 1800 روپے ٹول ٹیکس دیتا تھا، جبکہ نیٹو کے ٹرالر اس سے مستثنیٰ تھے۔ امریکہ اور نیٹو کی تمام چھوٹی بڑی گاڑیاں پاکستان میں ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ ہوائی اڈے، بلا روک ٹوک امریکیوں کی پاکستان آمد، ملک کی ہر پالیسی خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو، دفاع سے ہو، توانائی سے ہو، خارجہ پالیسی سے ہو امریکیوں کی منشاء و مرضی کو مقدم رکھا جاتا ہے۔

یو ایس ایڈ میں جتنی بدعنوانی ہوتی ہے اس کا شور تو مغربی ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں۔ ان کے تمام منصوبے پاکستان کے حساس علاقوں ہی میں ہوتے ہیں۔ یو ایس ایڈ کے نام پر پاکستان میں آنے والی گاڑیوں کی کثیر تعداد عملی طور پر کسی اور کے زیر استعمال ہوتی ہیں جبکہ ان کی دیکھ بھال اور ایندھن کا خرچہ یو ایس ایڈ کے فنڈ سے دیا جاتا ہے۔ میں خود ایک ایسے شخص سے ملا ہوں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کرم ایجنسی میں مشنری کاموں میں مصروف تھا۔ وہ روانی سے پشتو بولتا تھا اس کی زبان، رہن سہن دیکھ کر بلاشبہ اسے اس دور کے لارنس آف عربیہ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے اور اس طرح کے کردار سینکڑوں میں ہیں اور ان کے پاکستانی گماشتے ہزاروں میں ہیں، جو چند سکوں کے عوض اپنی قوم اور مادر وطن کی حرمت کا سودا کرتے ہیں۔

یہ سلسلہ آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ قارئین کے لیے قدرت اللہ شہاب کی کتاب '' شہاب نامہ '' کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ '' روز اول ہی سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری اور تابعداری نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہمارے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے روس کا دعوت نامہ پس پشت ڈال کر امریکہ کا دورہ قبول کرلیا۔ گورنر جنرل غلام محمد اور صدر سکندر مرزا کے زمانے میں امریکی مشیر ہمارے کاروبار حکومت پر ٹڈی دل کی طرح چھائے رہے۔ کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ایوب نے ہماری افواج کو اس طرز پر منظم اور مسلح کیا کہ ہماری دفاعی شہ رگ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی مٹھی میں دب کر رہ گئی۔

1965ء کی جنگ میں امریکہ کی بے رخی دیکھ کر پاکستان کی عسکری قیادت نے چین سے روابط بڑھائے جس سے ہمیں ہتھیار اور ٹیکنالوجی ملی۔ روس اور عرب ممالک کی ناراضگی مول کر ہم بغداد پیکٹ عرف سیٹو کے رکن بنے تاکہ امریکہ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکہ کے چند عناصر نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی۔ بٹوارہ تو ہندوستان کا ہوا تھا لیکن اس کا چرکہ امریکہ کے کچھ یہودی اور یہودی نواز طبقوں نے بری طرح محسوس کیا۔ 1950ء کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں ایک امریکن کاروباری فرم کاایک نمائندہ کچھ عرصہ سے مقیم تھا، بظاہر اس کا نام Mr Crook تھا لیکن باطن میں بھی وہ اسم بمسمیٰ ثابت ہوا۔ کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی کاروائیوں کا علم ہوتے ہی اسے بلا تاخیر ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا۔ چند قابل قدر مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان میں وقتاً فوقتاً متعین ہونے والے امریکی سفیر اور سفارت کار بھی بعض اوقات ایک مشہور کتاب "The Ugly American" کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے تھے'' صفحہ59,60 ''۔

صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے۔ ان کا اسم گرامی مسٹر بی ایچ اوہلرٹ تھا۔ یہ صاحب نسلاً یہودی تھے اور کسباً کوکا کولا بنانے والی کمپنی کے غالباً وائس پریزیڈینٹ تھے۔ ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں کوئی استقبالیہ تھا۔ وہاں سے فارغ ہوکر ہم لوگ برآمدے میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ مسٹر اوہلرٹ کی گاڑی پہلے آگئی انہوں نے اصرار کرکے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے وہ پاکستان سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہے موٹروں، بسوں، رکشاؤں اور اسکوٹروں کے ہجوم میں بدحواس ہوکر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds (دو پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔

فیض آباد کے چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سیٹ پر جھک گئے۔ مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں مچھر یا مکھی گھس گئی اور وہ بیچارے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ میں نے ازراہ ہمدردی ان سے دریافت کیا ـ '' آپ خیریت سے تو ہیں ؟'' مسٹر اوہرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے'' میں بالکل خیریت سے نہیں۔ میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوںَ وہ دیکھو '' انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کرکے کہا '' وہ دیکھو آنکھوں کا خار۔ میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں، میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے '' میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈ آویزاں تھا جس پر پی آئی اے کا رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھئیے۔ چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 200404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش