0
Friday 30 Jan 2015 18:30

حزب اللہ سے خوفزدہ صہیونی حکمران اور یہودی عوام

حزب اللہ سے خوفزدہ صہیونی حکمران اور یہودی عوام
تحریر: ثاقب اکبر
 
اس وقت (30 جنوری 2015ء بروز جمعہ بوقت عصر) جب ہم یہ سطور سپرد قلم کر رہے ہیں تو لبنان سمیت پوری عرب دنیا بلکہ مشرق وسطٰی کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے خصوصی خطاب کے منتظر ہیں جو بیروت میں سید الشہداء کمپلیکس میں ویڈیو لنک کے ذریعے کیا جائے گا۔ یقینی طور پر اس خطاب کا تعلق علاقے کی موجودہ صورت حال سے ہے جو 18 جنوری 2015ء کو شام کے صوبے قنیطرہ میں اسرائیل کے اس فضائی حملے سے تیز رفتاری سے تبدیل ہونا شروع ہوئی، جس میں حزب اللہ کے 6 سپاہی اور سپاہ پاسداران کے ایک جنرل محمد علی اللہ دادی کی شہادت واقع ہوئی۔ حزب اللہ کے 6 شہید سپاہیوں میں اسلامی مزاحمت کے بانی راہنماء جواد مغنیہ کے جواں سال صاحبزادے جہاد مغنیہ بھی شامل تھے۔

اس واقعے کے بعد حزب اللہ نے مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے اسرائیلیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔ اس سلسلے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے دو الفاظ پر مبنی پیغام میں اپنا مقصد واضح کر دیا تھا۔ انھوں نے اسرائیلیوں سے کہا تھا ’’جھزوا ملاجئکم‘‘ یعنی اپنی پناہ گاہیں تیار کرلو۔ حزب اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق گذشتہ بدھ 28 جنوری 2015ء کو صہیونی فوجیوں سے اپنا انتقام لے لیا۔ اس کے بعد سے پورا خطہ ایک غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہے۔ آئندہ چند دنوں میں کیا واقعات رونما ہونے والے ہیں، اس کی واضح پیش گوئی تو نہیں کی جاسکتی، لیکن سید حسن نصراللہ کے خطاب کے بعد اور علاقے کی صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لے کر کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
 
جہاں تک صہیونی ریاست اسرائیل کے اندر کی صورت حال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات اب مخفی نہیں رہی کہ خوف کا ایک عالم ہے جو حکمرانوں سے لے کر عوام تک، سب پر طاری ہے۔ 
 اسرائیل کی موومنٹ پارٹی کی سربراہ و سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) نے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ اس کے لڑائی پر مبنی طرز عمل نے اسرائیل کی دفاعی طاقت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے جو نیا ملٹری فارمولا اختیار کیا ہے، اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج اپنی جنگ کی گذشتہ حکمت عملی پر عمل پیرا نہیں ہوسکے گی۔ انھوں نے حزب اللہ کی راکٹ چلانے کی طاقت کا بھی ذکر کیا، جس سے اسرائیل کی سرزمین کو بھاری نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔

 اس وقت اسرائیل کے شمال میں عوام نہایت پریشانی میں وقت گزار رہے ہیں، انھیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ان کی زمین کے نیچے سے حزب اللہ کے سپاہی اچانک نکل آئیں گے۔ انھیں اپنی زمین کے نیچے سے کھدائی کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ اس علاقے کے عوام باقاعدہ اپنی حکومت کو شکایت کر رہے ہیں کہ انھیں کھدائی کی اونچی آوازیں زمین کے نیچے سے سنائی دے رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت انھیں مطمئن کرنے کے لئے جو طریقہ کار اور الفاظ استعمال کر رہی ہے وہ مزید خوفزدہ کر دینے والے ہیں۔ حکومت ایک طرف ان علاقوں میں کھدائی کر رہی ہے جہاں کے لوگوں کو زمین کے نیچے سے آوازیں آرہی ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع موشے یالون کہہ رہے ہیں کہ حزب اللہ کو سرنگوں کے ذریعے سے اسرائیل میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں، وہ اس کے بغیر ہی اسرائیل کے اندر داخل ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر دفاع کے الفاظ قابل مطالعہ ہیں۔
We have been examining every single complaint by residents of the north who say they hear construction and drilling sounds underground, and so far we have found nothing. But if Hezbollah wants to infiltrate Israel, they don\'t need tunnels. 

حزب اللہ سے اپنے عوام کو ڈرانے والے فقط اسرائیلی وزیر دفاع ہی نہیں بلکہ خوف میں مبتلا دیگر صہیونی حکام بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس ریسرچ کے سربراہ برگیڈیئر جنرل اطائی برون (Itai Brun) بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اب جنگ چھڑی تو حزب اللہ ایک ہزار میزائل روزانہ کے حساب سے مقبوضہ سرزمین پر فائر کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ جنگ حزب اللہ کے لشکر اسرائیلی علاقے میں لڑیں گے اور وہ اس دوران میں بہت سے اسرائیلی علاقوں پر قبضہ کرلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ کے قریب میزائل موجود ہیں، جو اسرائیل کی تزویراتی سہولیات کو تباہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ حزب اللہ آئندہ جنگ میں اسرائیل کو شکست دے گی اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ 

 بیروت کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کی طرف سے مسلسل اسرائیل سے کہا جا رہا ہے کہ اس نے قنیطرہ میں جو حماقت کی ہے، اس کے جوابی تکلیف دہ تھپڑ (Painful Slap) کو حوصلے سے اور خاموشی سے برداشت کرلے۔ خود اسرائیل میں بھی اس وقت جو صورت حال دکھائی دے رہی ہے، وہ اس امر کی حکایت کرتی ہے کہ اسرائیل اپنے ماضی سے قطع نظر اتنے بڑے واقعے پر کوئی بڑا ردعمل ظاہر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ آزاد ذرائع کے مطابق 28 جنوری کے حزب اللہ کے حملے میں شبعا فارمز میں اسرائیلی فوج کی 9 گاڑیاں اور ان میں سوار کم از کم 15 فوجی ہلاک ہوئے ہیں، کیونکہ اگر فوجی نقطۂ نظر سے اندازہ لگایا جائے تو ہر گاڑی میں 2 افراد ضرور سوار ہوں گے اور تمام گاڑیاں بہت بری طرح سے تباہ ہونے کی واضح شہادتیں موجود ہیں۔

اسی لئے بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ ان میں سوار تمام اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل پہلے تو یہ کہتا رہا کہ اس کے 4 یا 5 سپاہی زخمی ہوئے ہیں، جب کہ بعد میں اس نے یہ اعلان کیا کہ اس کے 2 فوجی ہلاک اور 7 زخمی ہوئے ہیں، کیونکہ اس کے لئے یہ ثابت کرنا ممکن نہ تھا کہ 9 گاڑیوں میں فقط 4 یا 5 افراد موجود تھے، اس لئے اس نے 9 کی گنتی پوری کر دی ہے۔ اسرائیل کے ماضی کو دیکھا جائے تو وہ اس کی نسبت نہایت چھوٹے واقعات پر بھی بہت تیز رفتاری سے اور وسیع پیمانے پر جواب دیتا رہا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک بہت بڑے مخمصے سے دوچار ہے۔ لبنان کے ساتھ ملحق علاقوں میں ہر طرح کی آمد و رفت بند ہوچکی ہے، بیشتر شہریوں کو وہاں سے نکالا جا چکا ہے اور جو وہاں موجود ہیں انھیں گھروں میں رہنے کا حکم دیا جاچکا ہے اور جو لوگ موجود ہیں وہ شدید طورپر خوفزدہ ہیں۔
 
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے جواب میں جولان کے علاقے کا انتخاب نہیں کیا کیونکہ جولان شام کا حصہ ہے۔ حزب اللہ نے شبعا فارمز کا انتخاب کیا ہے جو درحقیقت لبنانی سرزمین کا حصہ ہے اور اسرائیل کا اس پر قبضہ ہے۔ اس لحاظ سے اس نے اپنے علاقے پر ناجائز طور پر قابض فوج پر حملہ کرکے اپنے لئے حملے کا جواز باقی رکھا ہے۔ اسرائیلی فوج کے اندر بھی خوف کی ایک لہر دوڑ چکی ہے اور اس کے فوجی حکمران اپنے بیانات سے اس خوف میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں، جب کہ پہلے ہی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد 2013ء کی نسبت دو برابر ہوچکی ہے۔ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر اسرائیلی عوام کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہو جائے تو وہ کہیں ان ملکوں کو واپسی کا سفر شروع نہ کردیں، جہاں سے ان کو لا کر اسرائیل کو قائم کیا گیا ہے۔
 
 اس وقت موقع ہے کہ یہودی مذہبی راہنماء اور یہودیوں کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھنے والے گروہ استعماری طاقتوں اور صہیونیوں کے یرغمال بنائے گئے ان یہودیوں کو اسرائیل سے آزاد کروانے کے لئے آواز بلند کریں، جو اس وقت مقبوضہ فلسطین کے اندر اپنے خطرناک مستقبل سے بے خبر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کے اندر موجود عام یہودیوں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے اور انھیں آگ اور خون میں دھکیلنے کی صہیونی اور استعماری سازشوں کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔ انھیں جلد ازجلد اپنے اصل ملکوں میں واپس آنے کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے، تاکہ ایک طرف فلسطین کے اصلی باسی اپنی سرزمین پر سکھ اور چین کی زندگی کا آغاز کرسکیں اور دوسری طرف جذباتی فضا میں اور گمراہ کن نعروں کے نتیجے میں اپنی آرام دہ زندگی کو ترک کرنے والے یہودیوں کو پھر سے واپس آکر اپنے اپنے ملکوں میں چین سے زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔
خبر کا کوڈ : 436046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش