0
Saturday 28 Mar 2015 16:45

اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے؟

اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی

جب سے سنا ہے کہ پاکستانی فوجی یمن کے عوام کے خلاف سعودی سربراہی میں جاری خلیجی آپریشن میں شرکت کے لیے جا سکتے ہیں دل ڈوبنے سا لگا ہے۔ ہم نے تو اپنے سجیلے جوانوں کے بارے میں سن رکھا تھا کہ:
اے دین نے میرے داتا دی
کی لبھنی ایں توں بزار کڑے

اگرچہ ابھی تک افواج پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں آیا کہ ہم نے اس خلیجی جنگ میں شرکت کرنی ہے یا نہیں تاہم کوئی وضاحتی بات یا تردید بھی سامنے نہیں آئی جو بذات خود تشویشناک ہے۔ سعودیہ نے پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کیا اور زمینی مدد کا تقاضا کیا۔ مجھے تو سعودی فرمانرواﺅں کی ہمت کی بھی داد دینی ہوگی کہ جنہوں نے یہ سوچ لیا کہ پاکستانی فوجی بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔ پیسے یقیناً ان کے پاس بہت ہیں جس سے تقریباً وہ دنیا کی ہر چیز خرید سکتے ہیں لیکن کیا افواج اور انسان بھی ایسی چیزیں ہیں جنہیں رقم دے کر خریدا جاسکے، کجا قوم کا افتخار اور دلوں کی دھڑکن افواج پاکستان۔ یہ پیشکش ہی پاکستانی قوم کے منہ پر طمانچہ ہے۔  ملک کی مین اسٹریم پارٹیز اور دفاعی ماہرین نے پاکستانی افواج کے ”العاصفة الحزم “ میں متوقع شرکت پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اس تشویش کو قابل اعتنا بھی سمجھا جائے گا؟

عرب ریاستوں کی پاکستانی سامان حرب کے حوالے سے دلچسپی ہمارے لیے خوش آئند ہے تاہم ان منفعتوں کے بدلے ہمیں اپنے سجیلے جوانوں کی قربانی دینا ہوگی، انھیں عرب مفادات کی جنگ کا ایندھن بنانا ہوگا، ملک کا امن و سکون داﺅ پر لگانا ہوگا، دیس میں فرقہ واریت کے جن کو بے لگام کرنا ہوگا، نسلوں کا مستقبل داﺅ پر لگانا ہوگا یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب یہ ملی نغمہ ذہن میں گونجتا ہے کہ

اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے
تو اس فکر کے سامنے ایک بہت بڑا سا سوالیہ نشان آجاتا ہے۔
قارئین کرام! ہم اس جنگ میں شمولیت کے خطرات کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم یمن کے اندرونی حالات کو نہیں جانیں گے۔
2011ء میں مصر، تیونس، لیبیا، شام، بحرین اور دیگر عرب ممالک کے مانند یمن میں انقلابی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک میں یمن کی تمام اپوزیشن جماعتیں الاصلاح، الحق، سوشلسٹ، عشائر، اسماعیلی اور طلبا وغیرہ شریک تھے۔ شمال میں بسنے والے حوثیوں نے بھی اس تحریک کا ساتھ دیا۔ کئی ایک فوجی افسر اور سول عہدیدار عوامی مظاہروں کا حصہ بنے اور انہوں نے حکومت پر واضح کیا کہ ہم مظاہرین پر تشدد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یمن سعودیہ کی جنوبی سرحد پر واقعہ ہے۔

2011ء کی عوامی تحریک کے نتیجے میں علی عبد اللہ صالح کو یمن چھوڑنا پڑا اور اس کی جگہ منصور ہادی کو صدر بنا دیا گیا۔ ہادی کی حکومت بھی یمنی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی اور مصر کے صدر مرسی کی مانند اس حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر مظاہرے شروع ہوگئے۔ مرسی چونکہ سعودی فرمانرواﺅں کا پسندیدہ صدر نہ تھا لہذا عوامی ووٹوں سے منتخب صدر ہونے کے باوجود ملک کے فوجی سربراہ سیسی کو سپورٹ کیا گیا لیکن یمن میں چونکہ منصور ہادی سعودی فرمانراوا کا تابعدار اور مطیع تھا لہذا اس کو سپورٹ کیا گیا۔ سعودی سرپرستی انقلابیوں کے لیے قابل برداشت نہ تھی لہذا ہادی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ طول کھینچتا گیا۔ ملک کی سب سے زیادہ منظم اور طاقتور تنظیم انصار اللہ نے عوامی مطالبات پر قیام کیا اور منصور ہادی کو مجبور کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ہادی مستعفی ہوئے تاہم پارلیمنٹ نے ان کے استعفی کو قبول نہ کیا، مظاہرے جاری رہے ملک کی مختلف جماعتیں اس مسئلے پر مختلف موقف کی حامل رہیں۔ اخوان کی جماعت الاصلاح جو یمن میں ایک طاقتور جماعت شمار کی جاتی ہے منصور ہادی کی حامی تو نہ تھی تاہم حوثیوں کی بھی حامی نہ تھی تاہم ملک کے دیگر اہم گروہ جن میں قبائل کا اتحاد، الحق، سوشلسٹ، طلباء اور 2011ء کے انقلاب میں ابھرنے والی تحریکیں شامل ہیں انصار اللہ کی حامی ہیں۔

منصور ہادی اور ان کی کابینہ کے استعفی کے بعد ملک میں حالات دگر گوں ہوگئے، یمن ایک قبائلی معاشرہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے اختلافات پر جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ ہادی اور ان کی کابینہ کے استعفی نے بھی ایسی صورتحال پیدا کردی جس میں محسوس ہوتا تھا کہ ملک کی متحارب قوتیں ایک دوسرے کے مدمقابل آکھڑی ہوں گی۔ زیدی جو تیسری صدی ہجری سے 1962ء تک یمن کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے تھے نے ملک کے دارلخلافہ کا انتظام سنبھال لیا۔ تقریبا ہزار برس کی حکومت کے بعد جب زیدیوں سے اقتدار چھنا تو حریف مخالف یعنی علی عبد اللہ صالح اور ان سے پہلے صدور جو خود بھی زیدی المسلک تھے نے اس علاقے میں کسی بھی نئی بغاوت کو پنپنے سے روکنے کے لیے شمالی یمن کو پسماندہ رکھا۔ اس کام میں علی عبد الصالح کو علاقائی طاقتوں کی بھی پشت پناہی حاصل رہی۔ حوثیوں کا ایک مرتبہ پھر یمن پر کنٹرول خطے کے حکمرانوں کے لیے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ زیدی جب بھی اٹھے تو ان کے قدم فقط یمن تک محدود نہ رہے بلکہ ان کی خلافت کا خطبہ حجاز میں بھی پڑھا گیا۔ شریف مکہ انہی زیدی اماموں کا متعین کردہ حاکم تھا۔

انصار اللہ کے صنعا پر قبضے کے بعد ملک میں مذاکرات کا دور دوبارہ شروع کیا گیا۔ بجائے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کے انصار اللہ نے ملک کے تمام گروہوں کو حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات کی دعوت دی۔ حکومت سازی کا یہ عمل اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی جاری رہا جس میں صدر منصور ہادی نے بھی کئی مرتبہ شرکت کی۔ منصور ہادی کے جانے کے بعد بھی ان مذاکرات کا ایک دور ہوا تاہم کسی حتمی نتیجہ پر نہ پہنچا جاسکا۔ جس کے سبب انصار اللہ اور ان سے متفق یمنی جماعتوں نے ایک قرارداد کا اعلان کیا جس کے مطابق یمن میں عبوری دور کے لیے ایک پارلیمنٹ تشکیل دی جائے گی، جو ملک میں صدارتی کونسل کا چناﺅ کرے گی۔ یہ صدارتی کونسل پانچ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ ملک کے آئین کی تشکیل نو کا کام عبوری پارلیمنٹ کے سپرد کیا گیا۔ یمنی عوام کے اکثر حلقوں نے اس اعلان پر خوشی کا اظہار کیا تاہم بعض حلقوں منجملہ الاصلاح نے اس قرارداد کو یکطرفہ اقدام قرار دیا۔

اسی دوران میں منصور ہادی دوبارہ ظاہر ہوئے اور انہوں نے جنوبی شہر عدن سے حکومت چلانے کا اعلان کر دیا۔ فوج اور سول اداروں کے بہت سے افسران ہادی المنصور کے تابع فرمان نہ رہے۔ اسی طرح مختلف قبائل بھی ہادی المنصور کے مخالف تھے۔ ہادی کی حکومت سے باغی فوجی افسران، انصار اللہ اور ان کے حامی قبائل نے منصور ہادی کے اس اعلان کے بعد عدن کا رخ کیا اور وہاں سے منصور ہادی کو فرار پر مجبور کرکے عدن کا کنڑول بھی سنبھال لیا۔ یہ صورتحال خلیجی ریاستوں کے لیے قابل برداشت نہ تھی چونکہ یمن کی اہم بندرگاہ ” المندب “ کا حوثیوں کے ہاتھ چلے جانا خلیجی ریاستوں کے لیے ایک بہت بڑا معاشی دھچکہ ثابت ہو سکتا تھا۔ خلیجی ریاستوں کا تیل اور کاروباری جہاز اسی بندرگاہ کے راستے یورپ اور دیگر ممالک میں جاتے ہیں، اگر یہ بندرگاہ کسی باغی یا آزاد گروہ کے کنڑول میں چلی جائے تو خلیجی ممالک کے کاروبار کو بری طرح متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس اہم امر کو پس پشت ڈالتے ہوئے یمنی قبائل، انصار اللہ اور افواج یمن کی اس پیشرفت کو جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا اور ایران کو اس تحریک کا اصل محرک ظاہر کرکے یمن پر حملوں کا اعلان کر دیا گیا۔

قارئین کرام! میں نے یمن کی صورتحال کو حقائق کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران یقیناً یمنی تحریک کا حامی ہے اور اس حوالے سے مدد بھی فراہم کر رہا ہے تاہم اس مدد کو فوجی مدد کہنا غلط ہے کیونکہ یمنی معاشرہ ایران کی اس معاملے میں مداخلت سے بہت پہلے کا ایک قبائلی اور جنگجو معاشرہ ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس ملک میں ہر فرد کے پاس کم از کم تین بندوقیں ہیں۔ قبائلی روایات اور جنگی تربیت عربوں کا ہمیشہ سے خاصہ رہی ہے۔ ان چیزوں کے لیے انہیں ایران یا کسی اور ملک سے مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ یمنی عوام اور انقلابی کمیٹیوں کی گزارش پر اخلاقی، سیاسی اور فنی معاونت فراہم کرنا ہر ملک کا حق ہے۔ ایسی ہی حمایت سعودی حکمران علی عبد اللہ صالح اور منصور ہادی کو دے رہے تھے۔ امریکہ تو اس سے بھی ایک ہاتھ بڑھ کر یمن میں دخیل تھا اور وہ یہاں القاعدہ کے خلاف جنگ کے بہانے باقاعدہ فوجی تنصیبات بھی رکھتا تھا۔ اس وقت کسی کو برا نہ لگا کہ یہ حمایت کیوں اور کن بنیادیوں پر کی جا رہی ہے۔ ایران کی حمایت کو فرقہ وارانہ قرار دینا بہت آسان ہے تاہم حماس کی مانند حوثیوں کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایران ان کی مسلکی بنیادوں پر حمایت کر رہا ہے چونکہ حوثی شیعہ مسلک سے نہیں ہیں۔ حوثی زیدی ہیں اور حنفی فقہ کے پیروکار ہیں۔

اب ایسی گھمبیر صورتحال میں ایک اسلامی، نظریاتی اور ایٹمی قوت کا کسی ایک گروہ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جانا مملکت، اس کے تشخص، مقام اور منصب کو زیبا نہیں۔ ہمارا کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کریں۔ اگر واقعاً ایران اور سعودیہ کے مابین کوئی مسلکی اختلاف یا بداعتمادی کی فضا ہے تو اسے حل کرنا پاکستان سمیت مسلم امہ کے ذمہ دار ممالک کا فرض ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے کہ ہم اس جنگ میں ایک فریق بنیں اور کسی ایک برادر اسلامی ملک کو راضی کرکے کسی دوسرے برادر اسلامی ملک کو ناراض کریں۔ (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا)
خبر کا کوڈ : 450572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش