0
Friday 4 Sep 2015 15:53

غزہ اور یمن

غزہ اور یمن
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان


یوں تو سرزمین فلسطین پر غاصب اسرائیلی قبضہ کے آغاز یعنی 1948ء سے ہی فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اور تاریخ میں ایسے ایسے اوراق رقم کرتا چلا گیا جس کے بارے میں شاید دور حاضر کی نام نہاد مہذب دنیا نے سنا تھا اور نہ پڑھا تھا، اسی فلسطین میں ایک علاقہ غزہ کے نام سے موسوم ہے کہ جہاں تقریباً اٹھارہ ملین آبادی ہے اور اس آبادی کے ساتھ صیہونیوں نے ایسے ایسے مظالم کئے ہیں جو شاید پورے فلسطین میں کسی اور خطے میں نہ کئے ہوں گے، یاد رہے کہ صیہونیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، لبنان میں صبرا و شتیلا کیمپوں پر بھاری گولہ بارود سے حملہ کیا اور نتیجہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، اسی طرح لبنان پر صیہونی جارحیت، شام کے علاقے پر قبضہ، مصر کی وادی سینا پر صیہونیوں کے قبضہ سمیت دنیا بھر میں جاری دہشت گردانہ کارروائیوں کی براہ راست اور بالواسطہ مدد کرنا صیہونیوں کا وطیرہ رہا ہے، لیکن غزہ ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں ان سب سے بڑھ کر صیہونیوں نے انسانیت سوز مظالم کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ جس پر ہر ذی شعور کی جہاں آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے، وہاں کلیجہ بھی پھٹ جاتا ہے۔

ماضی بعید کی بات نہیں کرتے آیئے گذشتہ برس کی ہی بات کرتے ہیں کہ جب ماہ رمضان المبارک میں غاصب اسرائیل نے غزہ پر ایک جنگ مسلط کی اور اس جنگ کا طریقہ کار یہ تھا کہ اسرائیلی ظالم افواج سمندر اور زمین سمیت فضاء سے مظلوم فلسطینیوں پر گولہ بارود کی بارش کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا غزہ خون اور آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا، دسیوں ہزار افراد اس پچاس روزہ دہشت گردانہ کارروائی میں شدید زخمی ہوئے، تین ہزار سے زائد معصوم بچے، خواتین سمیت عام شہری موت کی نیند سلا دیئے گئے، ظلم کی انتہا دیکھئے زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا لیکن صیہونی افواج نے ان اسپتالوں پر بھی بمباری کر دی اور پورے کے پورے اسپتال اور طبی امداد کے مراکز زمین بوس ہوگئے، یہی حال اسکولوں اور دیگر عمارتوں کا ہوا کہ جہاں اپنے گھروں کی بربادی اور تباہی کے بعد پناہ لینے والے فلسطینیوں پر گولہ بارود کی بارش کی گئی اور نتیجہ میں وہ تمام عمارتیں کہ جہاں فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے، سب کی سب دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات میں بدل گئیں، حتیٰ اسرائیلی ظالموں نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں چلنے والے اسکولوں کی عمارتوں کو بھی نہ بخشا اور ایسے اوقات میں ظالمانہ کارروائیاں انجام دیں جب فلسطینی مساجد میں نماز، یا اپنے گھروں میں سحر و افطار میں مصروف عمل تھے، خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل نے غزہ کے ان اٹھارہ لاکھ افراد پر زندگی تنگ کر دی اور دہشت گردی کی ایسی مثال قائم کی کہ شاید ہی دنیا میں ایسی مثالیں پہلے یا اس کے بعد ملیں گی۔

دنیا میں آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے مسائل پیدا کئے گئے ہیں، اس کے بارے میں ماہرین سیاسیات اور اسٹراٹیجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدت تحقیق اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان تمام تر دہشت گردانہ کارروائیوں کے تانے بانے بالآخر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے جا ملتے ہیں، اس حوالے سے بہت ساری وجوہات بیان کی جاتی ہیں، جن میں ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جو طریقہ کار صیہونیوں نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کا روا رکھا ہے، اسی طرح کی تکنیک ہمیں دنیا کے متعدد ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں نظر آتی ہے، یا اس کی کسی حد تک جھلک پائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی بات کریں تو یہاں دیکھا گیا ہے کہ صیہونی طریقہ کار کافی حد تک دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل رہا ہے، یعنی پہلے عام شہریوں پر دہشت گردانہ حملے کئے جاتے ہیں اور جب زخمیوں کو علاج معالجہ اور طبی سہولیات کے لئے اسپتالوں کی طرف لے جایا جاتا ہے تو وہاں پر بھی اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائی انجام پذیر ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں بڑا نقصان ہوتا ہے، اسی طرح عام بازاروں اور مذہبی عبادت گاہوں کو بھی ٹھیک اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس طرح کے صیہونی فلسطین میں انجام دیتے رہتے ہیں، جس طرح صیہونیوں نے معصوم بچوں اور خواتین پر رحم نہیں کیا، اسی طرح ان کے اشاروں پر چلنے والے دہشت گرد گروہوں نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا، اس کی واضح اور تازہ مثال بھی پاکستان میں موجود ہے کہ پشاور میں اسکول کے بچوں اور خواتین کو کس سفاکانہ انداز سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، ایسی مثالیں مقبوضہ کشمیر، برما، لبنان، شام، عراق اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی گئی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ صیہونزم نے نہ صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے بلکہ دہشت گردی اور صیہونزم کو فلسطین سے باہر ایکسپورٹ بھی کیا ہے، جس کے باعث آج پوری دنیا دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔

اب ذرا یمن کی صورتحال کی طرف آیئے تو آپ کو یہاں پر بظاہر ایسا دکھایا جا رہا ہے کہ شاید یمن میں کوئی باغی گروہ ہیں، باغی ہمیشہ وہ ہوتے ہیں کہ اس ملک کے باشندے نہ ہوں یا اپنے ملک کو پسند نہ کرتے ہوں یا پھر اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوں جبکہ یمن میں جن لوگوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں طوفان نامی حملوں کی آڑ میں یک طرفہ جنگ کا آغاز کیا گیا ہے، وہ لوگ دراصل یمن کے قدیمی قبائل اور باشندے ہیں اور جو یمن کے اندر رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں، ان کا مطالبہ بہت سادہ سا ہے، جس میں وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار عوامی نمائندوں اور ایماندار افراد کے ہاتھ میں ہو، جس کے انتخاب میں امریکہ سمیت برطانیہ اور کوئی یورپی ممالک اور خطے کی خلیجی ریاستیں اثر انداز نہ ہوں۔ اسی طرح انہوں نے دوسرا اہم مطالبہ امریکی مداخلت کے خلاف رکھا ہے، تیسرا مطالبہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں اور صیہونی غاصب ریاست کو ایک ناجائز اور غیر قانونی ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ بہرحال سعودی عرب نے بظاہر تو یمن پر حملوں کا آغاز کر رکھا ہے اور اب اس بات کو بھی ایک سال کے لگ بھگ کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے، لیکن یہاں بھی جو غور کرنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بظاہر تو دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب خطے میں اپنے کنٹرول کے لئے جنگ کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس جنگ میں اسرائیلی ہوائی جہازوں سمیت اسرائیلی اسلحہ اور اسرائیل کی فضائی افواج کے پائلٹ حملوں میں بنفس نفیس شریک ہیں، یہاں بھی گذشتہ برس کی غزہ جنگ کی طرح یمن کے تمام اہم مراکز کو بمباری کے نتیجے میں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی اور اسرائیلی مشترکہ حملوں میں اب تک شہید ہونے والے بچوں کی تعداد ہی صرف پانچ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ اجتماعی طور یہاں بھی غزہ کے مظلوموں کی طرح دس ہزار سے زائد یمنی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، یمن کے اسپتالوں کو بھی غزہ کے اسپتالوں کی طرح تباہ کر دیا گیا ہے، یمن کے اسکولوں کو بھی غزہ کے اسکولوں کی طرح نابود کر دیا گیا ہے، یمن کے عوام بھی غزہ کے عوام کی طرح سڑکوں پر ہیں، یمن کے عوام بھی غزہ کے اسرائیلی محاصرے کی طرح عرب خلیجی محاصرے کا شکار ہیں، یمن میں بھی غزہ کی طرح زندگی تنگ کر دی گئی ہے، یمن کے عوام کو بھی غزہ کے عوام کی طرح بین الاقوامی امداد تک رسائی نہیں دی جا رہی، غرض یہ کہ غزہ اور یمن ایک ہی صورتحال اختیار کرچکے ہیں اور جہاں عرب حکمرانوں کے یمن پر حملے کی آڑ میں کئی ایک مذموم مقاصد ہیں، وہاں سرفہرست ایک مقصد واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ یمن کے اندر اس قدر خونریزی کی جائے کہ یمن کے عوام فلسطینیوں کی حمایت میں اور صیہونزم کے خلاف لگائے جانے والے نعرے کو فراموش کر دیں اور یہ سازش صرف یمن ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی بشمول پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لبنان اور مصر سمیت اردن اور سوڈان اور افریقی ممالک میں بھی کی جا رہی ہے، تاکہ فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں دم توڑ جائیں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک مقاصد کے جن کی تکمیل کے لئے پہلے ہی درج بالا ذکر کئے گئے ممالک میں داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ موجود ہے، ان صیہونی مقاصد کو مزید تقویت فراہم ہو اور دنیا کے عوام فلسطینیوں کے حقوق اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کر بیٹھیں۔ البتہ صیہونزم کی سازشیں تاحال دنیا کے باضمیر اور شجاع انسانوں کے سامنے دم توڑ رہی ہیں اور یہ سب صرف اور صرف اسلامی مزاحمت کی اسرائیل اور اس کے پیدا کئے گئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری مزاحمت کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 483955
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش