0
Tuesday 8 Sep 2015 13:19

امت مسلمہ کا اتحاد اور درپیش چیلنجز

امت مسلمہ کا اتحاد اور درپیش چیلنجز
تحریر: زہرا سلیمانی پور

ان مسائل میں سے ایک جن پر ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تاکید کی ہے، امت مسلمہ کی وحدت کا مسئلہ اور ہر قسم کے تفرقے اور نظریاتی و مذہبی ٹکراو کا خاتمہ ہے۔ اسلامی اتحاد کا عملی نتیجہ مسلمان حکومتوں اور اقوام کے درمیان فاصلوں میں کمی اور مستضعفین جہان کے درمیان ہم آہنگی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اسلامی اتحاد اور وحدت سماجی و سیاسی اختلافات کو کم ترین حد پر لانے اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشروں کی مدیریت کو آسان بنانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف اتحاد بین المسلمین غیر اسلامی اور استکباری عالمی قوتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت بھی اسی نقطہ نظر کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔ امت مسلمہ میں اتحاد اور وحدت کی اس قدر اہمیت اور ضرورت کے باوجود آج عالم اسلام میں بعض شدت پسندانہ مذہبی گروہوں کی تشکیل اور خطے کی بعض حکومتوں کی جانب سے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے ان گروہوں کی حمایت اور مدد نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور وحدت کی فضا کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ لہذا آج مذہبی فرقہ واریت عالم اسلام کی ایک بڑی مصیبت اور مشکل بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلام دشمن قوتیں بھی اس مذہبی فرقہ واریت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اسلامی دنیا پر کاری ضرب لگا رہی ہیں۔ عالمی استکباری قوتیں مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کو ہوا دے کر عالم اسلام میں موجود عظیم قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں، اس بہانے مسلمان ممالک پر فوجی قبضہ قائم کر رہی ہیں، اسلامی تہذیب و تمدن کے مکمل خاتمے کیلئے روز بروز ان کی گستاخیوں اور توہین آمیز اقدامات میں شدت آ رہی ہے اور اپنے پست مقاصد کی تکمیل کیلئے کئی اسلامی ممالک میں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں کو برسراقتدار لا چکی ہیں، جو ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ تحریر حاضر میں امت مسلمہ کے اتحاد اور وحدت میں درپیش رکاوٹوں اور چیلنجز کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے قائدین کی نظر میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت:
اگر انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرامین اور سیاسی و سماجی سیرت پر توجہ دیں تو اس حقیقت کو جان لیں گے کہ ان کی نظر میں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور وحدت کا مسئلہ صرف ایک اخلاقی نصیحت یا ثقافتی و سماجی قدر تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اسلام دشمن قوتوں اور استعماری طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی معاشروں کی تقویت کیلئے بنیادی ترین اور بہترین طریقہ کار اور اسٹریٹجی کی حیثیت کا حامل تھا۔ دوسرے الفاظ میں "عالم اسلام میں اتحاد" کے قیام پر مبنی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اسٹریٹجک منصوبے کو "وحدت" نامی اسٹریٹجک عنوان کے تحت ایک سیاسی نظریئے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ "امت مسلمہ" سے متعلق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف اور بیانات کو اس عظیم شخصیت کی دینی – سیاسی سوچ اور نقطہ نظر کا عکاس قرار دیا جاسکتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مخصوص فقہی نقطہ نظر کی روشنی میں اسلام کے پیروکاروں اور دین دار حضرات کو ہر قسم کے قومی، نسلی اور مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر "توحید" کے پرچم تلے اکٹھا ہونے کی دعوت دیتے رہے، تاکہ اس طرح ایک طاقتور مسلم امہ کو معرض وجود میں لایا جاسکے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر اور سوچ درحقیقت انہیں مطالب کی عکاسی کرتی ہے جو دینی تعلیمات، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین اور سیرت میں پائے جاتے ہیں۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی امت مسلمہ کے بارے میں اسی توحیدی نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خداوند متعال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا مقصد توحید بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهٰادَةً قُلِ اَللّٰهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ أُوحِيَ إِلَيَّ هٰذَا اَلْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَغَ أَ إِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اَللّٰهِ آلِهَةً أُخْرىٰ قُلْ لاٰ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمٰا هُوَ إِلٰهٌ وٰاحِدٌ وَ إِنَّنِي بَرِيءٌ مِمّٰا تُشْرِكُونَ (سورہ انعام / آیہ ۱۹)۔
ترجمہ: "ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرین انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ دو کہ خدا ہی مجھ میں اور تم میں گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے آگاہ کر دوں کیا تم لوگ اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ اور بھی معبود ہیں (اے محمد «صلی الله علیه و آلہ وسلم» !) کہہ دو کہ میں تو (ایسی) شہادت نہیں دیتا کہہ دو کہ صرف وہی ایک معبود ہے اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔"

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی بار تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
"اسلام آیا ہے تمام اقوام عالم، عرب و عجم، ترک و فارس، سب کو آپس میں متحد کرے اور امت مسلمہ کے نام سے دنیا میں ایک عظیم امت تشکیل دے۔ عالمی استعماری طاقتوں اور اسلامی ممالک میں ان کے پٹھو عناصر مسلمانوں میں نفرت پیدا کرکے انہیں ایکدوسرے سے جدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ مسلمانوں کے درمیان اس اخوت اور برادری کے جذبے کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو خدا نے ان کے درمیان پیدا کیا ہے اور مسلمانوں کے درمیان ترک، کرد، عرب، فارس، عجم وغیرہ کے ناموں سے تفرقہ اور اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ عالمی طاقتیں مسلمانوں کو ایکدوسرے کا دشمن بنانا چاہتی ہیں اور یہ اسلامی اور قرآنی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دنیا کے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ان سب کو چاہئے کہ وہ اسلام اور توحید کے پرچم تلے متحد ہو جائیں۔" (صحیفہ نور، جلد 13، صفحہ 443)

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اہل تشیع اور اہلسنت مسلمانوں کے درمیان دین کی اہم اور بنیادی تعلیمات میں مشترکہ نقطہ ہای نظر اور بعض فرعی مسائل میں اختلاف کے ناطے عالم اسلام کو ایک واحد، متحد اور ہماہنگ نظام قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کا خدا ایک، پیغمبر (ص) ایک، قیامت اور روز جزا پر عقیدہ ایک، قبلہ ایک، نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسے احکام پر عقیدہ ایک ہے جبکہ بعض اعتقادی اور نظریاتی اختلافات موجود ہیں جو مسلمانان عالم کو ایک اسٹریٹجک اتحاد بنانے اور آپس میں متحد ہونے سے نہیں روک سکتے۔ لہذا عالم اسلام بڑے پیمانے پر مشترکہ دینی تعلیمات، ثقافتی، سماجی، معیشتی اور سیاسی اقدار کے پیش نظر اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور مسلمانان عالم اسٹریٹجک سیاسی وحدت کی جانب قدم بڑھانے اور ایک عظیم امت واحدہ اسلامی تشکیل دینے کی بھرپور پوزیشن میں ہے۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ان کے جانشین ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے بھی ہمیشہ سے اتحاد بین المسلمین کو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل مسئلہ قرار دیا ہے اور اس پر خاص توجہ دی ہے۔ امت واحدہ مسلمہ کا مسئلہ امام خامنہ ای کی سیاسی و ثقافتی سوچ میں انتہائی بنیادی اور کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں اس مسئلے کی اس قدر اہمیت ہے کہ وہ اسلامی وحدت کو ایک "اسٹریٹجک مسئلہ" قرار دیتے ہیں اور ہمیشہ امت مسلمہ کے علماء، روشن خیال حضرات اور معروف سیاسی شخصیات پر قرآن کریم کی تعلیمات اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقیدت و محبت کی بنیاد پر آپس میں متحد ہوجانے پر زور دیتے ہیں۔ امام خامنہ ای کی نظر میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہر قسم کے اختلاف اور تفرقے سے دوری عالمی استعماری نظام کے مقابلے میں اجتماعی جدوجہد اور عالم اسلام کے مفادات کے تحفظ کا زمینہ فراہم کر سکتا ہے۔

ولی امر مسلمین جہان نے اس بارے میں نہ صرف ملت ایران بلکہ تمام عالم اسلام کو آپس میں متحد رہنے کی تاکید کی ہے اور اس بارے میں فرمایا ہے: "اسلامی وحدت و ہماہنگی یعنی مسلمان اقوام ایکدوسرے سے قریب ہو کر ایکدوسرے کی ہمراہی کریں۔ ملت ایران مسلمان اقوام کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط بنائے۔ مسلمان اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے مربوط مسائل اور ایشوز کے بارے میں سب کا ایک موقف ہو اور اس سلسلے میں سب ایکدوسرے سے تعاون کریں۔ اسی طرح ہر مسلمان قوم اپنی صلاحیتوں کو دوسری مسلمان قوم کے خلاف استعمال ہونے سے بچائے۔"
امام خامنہ ای کے فرامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی وحدت و اتحاد نہ صرف ایک مسلمان قوم کے اندر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے زیادہ اہم اور ضروری یہ ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمان اقوام اور ملتوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کی فضا قائم ہو جائے۔ جیسا کہ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں: "اسلامی وحدت کا ایک پہلو تمام اسلامی دنیا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آپس میں متحد ہو جائیں، ایکدوسرے کی مدد کریں۔ اس میں مسلمان حکومتیں بھی شامل ہیں اور مسلمان اقوام بھی۔ اسلامی حکومتیں اپنی مسلمان اقوام کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عظیم وحدت اور اتحاد کی تشکیل میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔"
اتحاد بین المسلمین کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے اس میں درپیش رکاوٹوں اور چیلنجز کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور امت مسلمہ کو ان پر توجہ دینے اور ان کے بارے میں ہوشیار رہنے کی ترغیب دلائی ہے۔ امام خامنہ ای کی نظر میں اتحاد بین المسلمین کی راہ میں بعض اہم رکاوٹیں غلط فہمیاں، حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنا اور دشمن کے منصوبوں سے غفلت برتنا ہے۔ ان امور سے غفلت بعض افراد کا اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو جانے کا باعث بنتی ہے۔ اس تمہید کے ساتھ اب ہم امت مسلمہ کے اتحاد میں حائل رکاوٹوں اور درپیش چیلنجز کا جائزہ لیتے ہیں۔

اسلامی اتحاد و وحدت کو درپیش چیلنجز:
اسلامی دنیا کے جغرافیے پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے اسٹریٹجک خطوں کا بڑا حصہ مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔ اس وجہ سے اسلامی ممالک کو فائدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اہم خطرات کا بھی سامنا ہے۔ لہذا اگر مسلمانان عالم آپس میں متحد ہو جاتے ہیں تو جدید اسلامی تہذیب و تمدن کی ترقی اور نشوونما کی خطر مسلمانوں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا نکھار ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح بین الاقوامی مغربی آرڈر سے متعلق اسلامی ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں اختلافات اور انتشار کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ہماہنگی اور یکجہتی پیدا ہو جائے گی۔ اسلامی ممالک کے درمیان یہ اتحاد اور انسجام مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی طاقت کو چیلنج کرنے اور اس کے خاتمے کیلئے انتہائی موثر واقع ہوسکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک میں اس قدر عظیم صلاحیتیں اور توانائیاں ہونے کے باوجود کئی وجوہات کی بنا پر مسلمان حکمرانوں کے درمیان فاصلے اور حتی بعض کے درمیان دشمنی پائی جاتی ہے۔ ان اختلافات کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1)۔ مذہبی نظریات اور نقطہ ہای نظر میں اختلاف:
ترکی، ایران اور سعودی عرب کا شمار اسلامی دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے، جن میں سے ہر کوئی مسلمانوں کا سرپرست ہونے کا دعویدار ہے۔ یہ تینوں مسلم ممالک مختلف نظریات اور نقطہ ہای نظر کے مالک ہیں۔ ترکی اس وجہ سے عالم اسلام میں ایک اہم اور ممتاز حیثیت کا حامل ہے کیونکہ وہ اسلامی دنیا خاص طور پر سنی مسلمانوں کے محافظ کے طور پر خلافت عثمانیہ کا وارث تصور کیا جاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کئی صدیوں تک مسلمانوں خاص طور پر سنی مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت کے طور پر قائم رہ چکی ہے۔ لہذا جب رجب طیب اردگان ترکی کی اسلامی وراثت کی بات کرتے ہیں تو اہلسنت مسلمانوں کے ذہنوں میں "اسلامی خلافت" کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ البتہ بعض عرب ممالک نہ صرف عثمانی سلطنت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس کی نسبت شدید نفرت کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں ایران اور ترکی کے درمیان بنیادی اختلافات میں سے ایک دو حکومتی نظاموں یعنی ایران پر حکمفرما اسلامی جمہوری نظام اور ترکی میں موجود سیکولر اسلامی نظام جس میں سیاست اور دین میں جدائی کے باوجود عوام کے اسلامی رجحانات اور جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے، کے درمیان شدید رقابت ہے۔ یہ رقابت خاص طور پر عرب دنیا میں رونما ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک جسے مغربی ذرائع ابلاغ "عرب اسپرنگ" سے تعبیر کرتے ہیں، کے معرض وجود میں آنے کے بعد زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ ترکی کی آبادی کا 90 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس ملک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سیکولر نظام حکومت برسراقتدار آچکا ہے اور جس قدر ایران خود کو ایک مذہبی ملک ظاہر کرنے پر تاکید کرتا ہے، اسی قدر ترکی خود کو ایک سیکولر ملک ظاہر کرنے پر زور دیتا ہے۔

ایران اور ترکی اپنے اپنے مخصوص نظریات اور نقطہ ہای نظر کے ذریعے مغربی ایشیائی ممالک میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ترکی پر حکمفرما انصاف و ترقی پارٹی خطے میں خلافت عثمانیہ کو احیاء کرنے کے درپے ہے۔ یہ پالیسی 2002ء سے ترکی میں رجب طیب اردگان کے برسراقتدار آنے اور خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے کے بعد زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ جس دوران خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور انقلابی مسلمانوں نے عالمی استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی حکمرانوں جیسے حسنی مبارک، بن علی، معمر قذافی اور عبداللہ صالح کو ایک ایک کر کے سرنگون کرنا شروع کر دیا تو ترکی نے بھی خلافت عثمانیہ کے احیاء سے متعلق اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ ترک حکام کا تصور تھا کہ مشرق وسطٰی کا خطہ طاقت کی خلا کا شکار ہوچکا ہے اور خطے کے انقلابی مسلمان ایک جدید آئیڈیالوجی کی تلاش میں ہیں، لہذا ترکی انہیں اپنا نظام حکومت متعارف کروا سکتا ہے۔ 2009ء میں ڈیوس میں رجب طیب اردگان کی تقریر کا مقصد بھی خود کو خطے کی آزادی پسند تحریکوں کا حامی ظاہر کرنا تھا، تاکہ اس طرح سے ایران اور سعودی عرب کی جگہ ترکی کو عالم اسلام کا نیا ہیرو ظاہر کیا جاسکے۔

ترکی کے برعکس ایران اور سعودی عرب میں حکمفرما سیاسی نظاموں میں دین اور سیاست کے درمیان رابطے پر بہت زیادہ تاکید کی جاتی ہے۔ لیکن سعودی عرب اور ایران کے درمیان مسلکی اختلافات ہونے کی وجہ سے مذہبی حکومت کی نوعیت میں دونوں ممالک اختلاف کا شکار ہیں۔ سعودی عرب میں حکمفرما نظام کی ایک اہم بنیاد "وہابیت" پر استوار ہے، جس کے نتیجے میں سعودی حکومت وہابیت کی تبلیغ اور وہابی دینی مدارس کی ترویج اور پھیلاو کیلئے بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہی ہے اور وسیع اقدامات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے مذہبی علماء ملک کے اندر اور عالمی سطح پر وہابیت کے پرچار کو اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں۔ آل سعود رژیم سعودی عرب کی خام تیل کی پیداوار کے ذریعے عظیم مالی وسائل کی حامل ہے اور وہ ان وسائل کا بڑا حصہ وہابیت کی ترویج پر خرچ کر رہی ہے، جو دین مبین اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر اسے ایک غیر عقلانی اور شدت پسندانہ دین کے طور پر پیش کرتی ہے۔ سعودی مفتی اور مذہبی علماء وہابیت کی ترویج کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مکتب اہلبیت علیھم السلام اور حقیقی محمدی (ص) اسلام کی ترویج کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں سعودی حکام اور مغربی حکام کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران 1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا میں ایسے پہلے ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، جہاں مکتب اہلبیت علیھم السلام کی روشنی میں ولایت فقیہ کا نظام حکمفرما ہوا، جس کے نتیجے میں ایران کی خارجہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا حقیقی اور پہلے درجے کا دشمن قرار دے کر پورے عالم اسلام کو ان شیطانی قوتوں کے مقابلے میں متحد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

2)۔ عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کا کھیل:
ورلڈ آرڈر کے بنیادی قواعد اور عناصر میں سے ایک عالمی طاقتوں کی جانب سے طاقت کے حصول کی کوشش اور اپنی طاقت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں اضافہ کرنا ہے۔ مختلف بین الاقوامی اداروں میں اس اصول کے مطابق عمل کیا جاتا ہے اور ہر ملک اپنے تئیں اس کوشش میں مصروف رہتا ہے کہ اس کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا رہے۔ اسلامی ممالک بھی اس قاعدے سے مستثنٰی نہیں اور وہ بھی اپنی خارجہ پالیسی میں اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سعودی عرب نے خطے کی سب سے بڑی طاقت بننے کی کوششیں تیز کر دیں اور امریکہ سے ایران کی دشمنی کو اپنے لئے بہترین موقع سمجھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان نظریاتی اختلافات، سیاسی جواز اور طاقت کے نظریے اور خارجہ پالیسیوں میں اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے، جن کی بنیاد پر دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں ٹکراو پیدا ہونے لگا۔ عرب ممالک نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خلیج تعاون کونسل کی بنیاد رکھی، تاکہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایران کے مقابلے میں مشترکہ سکیورٹی اور سیاسی اقدامات انجام دے سکیں۔

عالم اسلام کی طاقت کے اہم ترین ستونوں کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے علاوہ مصر کا بھی ذکر ہوتا ہے، جو اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے پیش نظر انتہائی اہم اسلامی ملک ہے۔ البتہ ان دنوں مصر شدید سیاسی بحران کا شکار ہے اور مصری حکام کی زیادہ تر توجہ شدت پسند اسلامی گروہوں کو کنٹرول کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ لہذا یہ ملک علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر زیادہ سرگرم دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح ایک اور اہم اسلامی ملک ترکی ہے، جہاں رجب طیب اردگان کے برسراقتدار آنے کے بعد خاطرخواہ اقتصادی ترقی ہوئی اور ترک حکومت نے اپنی علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر نظرثانی کی۔ ترک حکومت القاعدہ اور داعش جیسے خطے میں سرگرم شدت پسند تکفیری گروہوں کی حمایت کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف اور مفادات کے حصول کیلئے کوشاں ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرکے خلافت عثمانیہ کے احیاء کی کوشش میں مصروف ہے۔ عراق اور شام بھی اگرچہ ماضی میں موثر اسلامی ممالک کے طور پر جانے جاتے تھے، لیکن اس وقت وہ اپنے طاقت اور اثرورسوخ کو بڑھانے کی بجائے اندرونی مشکلات کو حل کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ لہذا علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی طاقت اور اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات اور دوریوں کی ایک اہم وجہ جانی جاتی ہے۔

3)۔ قومی اور نسلی اختلافات:
اسلامی دنیا کئی اقوام جیسے عرب، ترک، کرد، افغان، فارس، بلوچ، پٹھان وغیرہ پر مشتمل ہے، جن میں سے اکثریت عرب باشندوں کی ہے۔ عرب باشندے اپنے درمیان دین مبین اسلام کے آغاز اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے سبب خود کو دوسری اقوام سے برتر تصور کرتے ہیں اور عالم اسلام میں اپنے لئے منفرد اور ممتاز حیثیت کے قائل ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنیا میں اور بھی ایسی اقوام بستی ہیں، جو اپنے قدیم تہذیب و تمدن کی روشنی میں خود کو تاریخی میراث کا حامل تصور کرتے ہوئے اپنے لئے ایک خاص تشخص کی قائل ہیں۔ ترک ایک زمانے میں عظیم اسلامی سلطنت کے مالک رہے ہیں، لہذا وہ عالم اسلام کی لیڈرشپ کیلئے خود کو زیادہ قابل اور حقدار تصور کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں شدید قومیت پسندی پر مبنی تحریکیں بھی جنم لے چکی ہیں، جن میں پان عرب ازم، پان ترک ازم، پان کرد ازم اور پان ایران ازم قابل ذکر ہیں۔ لیکن ایک قوم ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس سے تعلق رکھنے والے افراد ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں یا اس سے متعلق تمام افراد ایک ہی سوچ کے حامل ہوں، بلکہ بعض اوقات ایک قوم کے اندر بھی مختلف نسلیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثال عرب باشندوں میں دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں مختلف نسلیں اور مذاہب پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان، بحرین اور عراق کے اکثر عرب باشندے شیعہ ہیں جبکہ دوسرے عرب ممالک میں سنی باشندوں کی اکثریت ہے۔ عرب دنیا میں جس عنصر نے تمام عرب باشندوں کو ایک تشخص دے رکھا ہے وہ ان کا مذہب، نسل یا کوئی اور چیز نہیں بلکہ صرف عربی زبان ہے۔ خود عرب باشندے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ معروف قومیت پسند عرب تجزیہ کار ساطع الحصری کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں واحد تشخص اور اتحاد کی بنیاد عربی زبان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عرب باشندے مختلف مذاہب اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ چیز جو تمام عرب باشندوں میں مشترک ہے عربی زبان ہے۔ عرب یونین میں شامل افریقی اور ایشیائی عرب ممالک کے درمیان مشترکہ عنصر عربی زبان ہے۔

4)۔ قومی مفادات کو اسلامی مصلحتوں پر ترجیح دینا:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام اور توحیدی اعتقادات کی مرکزیت میں ایک متحد اسلامی معاشرے کے قیام کی غرض سے مبعوث ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی مدینہ منورہ میں ایک ایسے مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی، جس میں کسی شخص کو دوسرے شخص پر اور کسی قومیت کو دوسرے قومیت پر برتری حاصل نہ تھی۔ مدینہ منورہ کے اسلامی معاشرے میں آیات قرآن کریم کی روشنی میں ایک شخص کا دوسرے شخص پر برتری کا معیار صرف اور صرف "تقوی" تھا۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں دوران جاہلیت والے بے جا تعصبات اور خرافات نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا اور غلط اور بے بنیاد وجوہات کی بنا پر افراد ایکدوسرے پر تفاخر اور برتری کا اظہار کرنے لگے۔ آج بھی جب ہم مختلف اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ دین اور مذہب کے احیاء کا دعویدار ہونے کے باوجود اپنی غلط رسموں اور تعصبات پر تاکید کرتے ہیں اور امت مسلمہ اور اسلام کے مفادات پر اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسلام اور دین کی مصلحتوں پر قومی مفادات کو ترجیح دینا امت مسلمہ میں انتشار اور تفرقے کا باعث بن گیا ہے اور اسلامی ممالک کی صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع ہو رہی ہیں۔

5)۔ خطے میں غاصب صہیونی رژیم کا وجود:
اسرائیل کی غاصب اور قاتل صہیونی رژیم کے قیام کے بعد خطے میں اس منحوس حکومت کے کردار سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ خطے میں جنم لینے والے اکثر بحرانوں میں اس غاصب رژیم کا ہاتھ ہے۔ مثال کے طور پر عرب اسرائیل ٹکراو اور نام نھاد امن مذاکرات کا آغاز، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری تنازعہ اور مسئلہ فلسطین وغیرہ۔ بنیادی طور پر مشرق وسطٰی میں امن و امان کی صورتحال خطے میں اسرائیلی اقدامات سے براہ راست مربوط ہے۔ اسرائیل چونکہ ایسے خطے میں واقع ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، لہذا وہ خود کو مسلمانوں کے مقابلے میں کمزور محسوس کرتا ہے اور اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کیلئے ہمیشہ سے اس کی یہ کوشش رہی ہے کہ امریکی حکومت کی مدد سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تفرقے کی آگ بھڑکائے رکھے اور اسلامی ممالک میں پھوٹ ڈال کر اپنی پوزیشن کو مضبوط بنائے۔ اسرائیلی اور امریکی حکام نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے خطے میں ایران فوبیا پھیلانے کی کوشش کی ہے اور عرب ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایران سے انہیں بہت خطرہ ہے۔ اسرائیل یہ شور مچا رہا ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے اور ایران کا جوہری پروگرام درحقیقت اسرائیل اور عرب ممالک کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیلی حکام نے کئی بار ایران کی جوہری تنصیبات کو فوجی حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی ایران کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اسی پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہوئے ریاض نے بھی کئی بار ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور آل سعود رژیم نے ایک طرف امریکی حکومت کو ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی ترغیب دلائی اور دوسری طرف خام تیل کی عالمی منڈی میں ایران کے خلاف اقدامات انجام دے کر ایران سے ٹکر لینے کی کوشش کی ہے۔

6)۔ اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں:
امت مسلمہ کے اتحاد میں ایک بڑی رکاوٹ عالمی استعماری قوتوں کی ڈھکی چھپی اور کھلم کھلا سازشیں، شیطانی اقدامات اور چالیں ہیں۔ یہ قوتیں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو اپنے لئے بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں، لہذا دنیا کے اسلامی ممالک اور مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات، تفرقہ اور دشمنی ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہتی ہیں، جن کے سبب امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں نے اسلامی معاشروں کے درمیان اختلافات اور تفرقہ ڈالنے کو ایک بنیادی پالیسی کے طور پر اپنا رکھا ہے اور وہ اسلامی معاشروں پر تسلط قائم کرنے یا اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے یہ ہتھکنڈہ مستقل طور پر استعمال کرتی آئی ہیں اور اس کے ذریعے اپنے استعماری مقاصد کی تکمیل کرتی رہی ہیں۔ پرانے استعماری دور کے خاتمے کے بعد ان استعماری قوتوں نے اپنی استعماری پالیسیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے مشرق وسطٰی کے خطے میں بدامنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آج مشرق وسطٰی کا خطہ شدید بحران کا شکار ہے اور ہر روز نئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ان تمام بحرانوں کا مقصد خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی پوزیشن مضبوط کرنا اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا ہے۔

نتیجہ:
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے سربراہان کی تاکیدات اور نقطہ ہائے نظر کے پیش نظر ہمیشہ سے اسلامی ممالک خاص طور پر خطے کے عرب ممالک کو اتحاد اور یکجہتی کی دعوت دی ہے اور انہیں موجودہ مسائل اور ایشوز پر ایک موقف اپنانے کی ترغیب دلائی ہے۔ مسلمانوں کا دین ایک ہے، جغرافیائی خطہ ایک ہے، ان کے مفادات اور سکیورٹی مسائل ایکدوسرے سے مربوط ہیں، لہذا انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آپس میں متحد ہو جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی طاقتوں کی نظریں پوری دنیا خاص طور پر مشرق وسطٰی کے خطے میں موجود خام تیل اور قدرتی وسائل کے عظیم ذخائر پر جمی ہوئی ہیں، لہذا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان آپس میں متحد ہوں، کیونکہ ایسی صورت میں ان کے مفادات کو شدید دھچکہ پہنچے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو اس ضمن میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ ان سازشوں کو پہچانتے ہوئے اس حقیقت کو درک کرسکیں کہ بین الاقوامی ایشوز پر ایک موقف اختیار کرنا سب کے فائدے میں ہے۔ اگر اسلامی ممالک اپنی اپنی خارجہ پالیسی میں درست ترجیحات اپناتے ہوئے اسلامی مصلحتوں کو پہلی ترجیح دیں تو یقیناً اس طرح ان کے قومی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ لہذا اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ عالمی استعماری طاقتوں کی من پسند پالیسی کو ترک کر دیں، جس کے تحت دوسرے اسلامی ممالک کی تضعیف کی جاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہوئے آپس میں متحد ہو جائیں۔ اگر تمام اسلامی حکومتیں قرآن و سنت کی حقیقی پیرو ہو کر آپس میں متحد ہوجائیں تو انہیں دنیا میں اس قدر طاقت اور عزت حاصل ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی پیروکاروں کے لائق ہے۔
خبر کا کوڈ : 484714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش