0
Monday 21 Sep 2015 01:25

شجاع خانزادہ کے قاتلوں کی بات

شجاع خانزادہ کے قاتلوں کی بات
تحریر: عمران خان

چند روز قبل نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے یہ انکشاف کیا کہ پنجاب کے سابق وزیر داخلہ شہید شجاع خانزادہ کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، اور ان سے جاری تفتیش کے باعث ان کے نام ظاہر نہیں کئے جا رہے۔ صوبائی وزیر قانون کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب حکومت دہشتگردی کے اس غیر معمولی واقعے کی ’’مزید تحقیقات‘‘ کے جھمیلے سے دور رہنا چاہتی ہے، اور حکومتی سطح پر شہید خانزادہ حملے کی فائل بھی کلوزننگ کے مراحل میں ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بیان سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منڈی بہاؤالدین کے دورے کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ شہید کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے قاتلوں تک پہنچ چکے ہیں اور وہ ہمارے نشانے پر ہیں۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے عوام پر امید تھی کہ خانزادہ کے قاتل اور ان قاتلوں کے پشت پناہ عناصر جلد ہی قانون کے کٹہرے میں ہوں گے۔ تاہم ان امیدوں پر چند روز بعد اس وقت اوس پڑ گئی، جب وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے موقف میں یوٹرن لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ شجاع خانزادہ کا قتل ایک بلائنڈ کیس ہے اور اس میں ابھی تک کوئی بریک تھرو نہیں ملا۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب حکومت کے نزدیک قاتل گرفتار ہوچکے ہیں، لہذا کیس ختم، جبکہ وفاقی حکومت قوم کو طویل اور صبر آزما انتظار کا مشورہ دینے پر آمادہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے موقف میں پایا جانے والا گہرا تضاد عکاسی کرتا ہے کہ صوبائی وزیر داخلہ شہید خانزادہ پر ہونے والا حملہ معمول کی دہشت گردی کے برعکس کچھ ایسے حقائق بھی دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، جس سے چشم پوشی کی ضرورت مسلم لیگ نواز کی پنجاب اور مرکز میں موجود دونوں حکومتیں محسوس کر رہی ہیں۔

یہ وہی مسلم لیگ نواز ہے، جس پر گاہے بگاہے اور اس جماعت کے بعض وزرا پر تواتر کیساتھ دہشت گردوں سے روابط اور ان کی معاونت کے الزامات میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ 16 اگست 2015ء اٹک میں ہونے والے بم دھماکے میں پنجاب کے صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ سمیت 20 افراد شہید ہوگئے۔ اس غیر معمولی خونی حملے کے محرکات، جزئیات، عوامل اور اثرات پر گفتگو سے قبل، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حملے میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا ہوا ہے، کیونکہ شہید شجاع خانزادہ کی صورت میں وزیر داخلہ کے طور پر مسلم لیگ نواز کو ایک ایسی شخصیت میسر تھی، جس نے پارٹی پر دہشتگردوں سے روابط کے تاثر کو زائل کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی۔ جبکہ خانزادہ کی شہادت سے پنجاب میں جاری قومی ایکشن پلان کی کامیابی کیلئے جاری کوششوں کو عملی ٹھیس پہنچی، کیونکہ شہید خانزادہ قیام امن کیلئے دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف میں انتہائی کلیئر تھے۔ دہشت گردی کے خلاف ان کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کے کچھ وزراء نے ان سے یہ درخواست بھی کی کہ دہشت گردوں کے خلاف ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا جائے، تاہم دیرپا قیام امن کے خواب کی تعبیر پانے کیلئے انہوں نے کمپرومائز نہیں کیا۔ شہید خانزادہ کی صورت میں پاک فوج کو ایک ایسا بہادر آفیسر میسر تھا، جو پنجاب کے اندر قومی ایکشن پلان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت پر پاک آرمی چیف نے کہا کہ شہید خانزادہ ایک بہادر افسر تھے۔ اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ شہید خانزادہ اپنے جرات مندانہ موقف میں جتنے کلیئر تھے، ان پر ہونے والے حملے، ان کی شہادت کے حالات و واقعات اور اس کے بعد ہونے والی تحقیقات اتنی ہی ابہام کا شکار ہیں۔

کرنل (ر) شہید شجاع خانزادہ کا تعارف
شہید شجاع خانزادہ 28 اگست 1943ء کو صوبہ پنجاب کے شہر اٹک کے گاوں شادی خان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ضلع اٹک سے حاصل کی اور پھر 1966ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کیا۔ 1967ء میں انھوں نے پاکستان فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔ شجاع خانزادہ نے 1974ء سے 1978ء تک ملٹری انسٹرکٹر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیئے۔ شجاع خانزادہ ان چند افراد میں سے ایک تھے، جو سب سے پہلے 1983ء کو دنیا کے بلند ترین جنگی محاذ سیاچن گلیشئر پر پہنچے تھے۔ انھوں نے 1992ء سے 1994ء تک امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم پاکستانی سفارت خانے میں بطور فوجی اتاشی کے بھی فرائض سرانجام دیئے، اور اسی دوران ایک ایسے معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جو امریکہ اور پاکستان کے درمیان پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے متعلق تھا اور طے پانے کی صورت میں پاکستان ایٹمی صلاحیت کے حصول سے ہمیشہ کیلئے محروم رہتا۔ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے ملٹری انٹیلی جنس میں بھی خدمات انجام دیں اور ان کو 1988ء میں تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔ ان کا تعلق ضلع اٹک کے ایک بااثر خاندان سے تھا۔ ان کے دادا کیپٹن عجب خان انڈین قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے، جبکہ ان کے انکل کیپٹن تاج محمد خانزادہ بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ شجاع خانزادہ تین مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، وہ 2002ء میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پہ پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیرِاعلٰی کے معاون خصوصی رہے۔ 2008ء کے عام اِنتخابات میں انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی، جبکہ 2013ء کے عام اِنتخابات میں وہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ 2014ء میں وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پنجاب بھر میں دہشت گردوں اور کالعدم تنظییوں کے خلاف ایکشن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس طرح پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کیلئے بیرونی کھلاڑیوں کی سکیورٹی فول پروف بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ زمبابوے کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران خود حفاظتی انتظامات کی نگرانی کرتے رہے۔

شہید شجاع خانزادہ پر حملہ اور شہادت
16 اگست 2015ء اتوار کی صبح شہید خانزادہ اٹک میں اپنے آبائی گاؤں شادی خان پہنچے تھے۔ انہوں نے وہاں زیر تعمیر جنازہ گاہ کا دورہ کیا۔ اس کے بعد اپنے ڈیرے پر بیٹھ کے مقامی افراد کے مسائل سن رہے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے نتیجے میں ڈیرے کی چھت زمین بوس ہوگئی۔ جس کے ملبے تلے شہید خانزادہ سمیت متعدد افراد دب گئے۔ دھماکے کے بعد امدادی سرگرمیاں شروع کی گئیں، جو کہ کئی گھنٹوں تک جاری رہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے دوران ملبے کے اندر سے شہید خانزادہ کی آواز آتی رہی، تاہم ریسکیور ادارے صوبائی وزیر داخلہ کو ملبے سے زندہ نکالنے میں ناکام ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کی میت بھی کئی گھنٹوں بعد نکالی جاسکی۔ آئی جی پنجاب نے ابتدائی طور پر میڈیا کو بتایا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ حملے میں دو خودکش بمبار ملوث تھے، ایک باونڈری وال کے باہر کھڑا رہا جبکہ دوسرا اندر وزیر داخلہ سے ملنے گیا۔ انہوں نے بتایا کہ باہر ہونے والا خودکش حملہ اتنا شدید تھا، کہ عمارت کی چھت وزیر داخلہ اور وہاں موجود دیگر افراد پر گر پڑی۔ جس سے ڈیرے کی چھت زمین بوس ہوگئی۔ چھت کے ملبے تلے دب کر پندرہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے، جبکہ باقی افراد کی موت ہسپتال میں یا امدادی سرگرمیوں کے دوران ہوئی۔ دھماکے سے چند لمحے قبل ہی شہید خانزادہ کے صاحبزادے جہانگیر خانزادہ ڈیرے سے باہر نکلے، جس کی وجہ سے وہ اس حملے میں محفوظ رہے، جبکہ ان کے بھتیجے سہراب خانزادہ اسی وقت چائے لینے باورچی خانے میں گئے تھے۔ دھماکے میں صوبائی وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ، ڈی ایس پی سرکل حضرو سید شوکت شاہ گیلانی، سب انجینئر نوید مشتاق، بشیر، عثمان خان، فیاض خان، آصف خان، مرسلین، محمد اجمل، نصیر خان، حاجی زمرد، خیر الوری، سردار خان، رومن، غریب نواز، قیوم خان سمیت کل بیس افراد شہید ہوئے، جن میں شہید خانزادہ کے چھ کزن بھی شامل تھے، جبکہ درجن سے زائد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں یامین، طاہر، خان زمان، بلال خان، مہر خان، شاہد زمان، سلطان بہادر، ساجد کانسٹیبل پولیس، حامد خان، حاجی امریز، زاہد خان، محمد زمان، ظاہر خان، خیر زمان، حاجی عبدل، آغا خان شامل تھے۔ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی۔ حملے کے بعد پنجاب بھر کی سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی۔ صوبہ بلوچستان اور کشمیر کی حکومت نے ایک روزہ، جبکہ پنجاب حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ صوبائی اسمبلیوں میں اس سانحہ کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔

ذمہ داری اور ردعمل
تحریک طالبان جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے بیان میں کہا کہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کو پنجاب کی ایک ساتھی تنظیم (لشکر جھنگوی) کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جبکہ نجی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا کہ حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے براہ راست قبول کی ہے۔ بعض میڈیا رپورٹس میں اس حملے کو داعش اور لشکر جھنگوی کا جائنٹ ونچر قرار دیا گیا۔ حملے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے آپریشن کو انتہائی تیز کرتے ہوئے شوال میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو فضائیہ کے ذریعے نشانہ بنایا، کراچی، بلوچستان، وزیرستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں آپریشن کیا گیا، ان آپریشنز میں پچاس کے قریب دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں صوبائی وزیر داخلہ پر خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس حملے میں ملوث افراد کو پکڑنے میں مدد کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کرنل (ر) شجاع ایک بہادر افسر تھے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے دہشت گردوں کو خبردار کیا ہے کہ ان کی بزدلانہ کارروائیاں حکومت اور ریاستی اداروں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی سے روک نہیں سکتیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کو ہر صورت کامیاب بنائے گی، دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے ڈھونڈ کر ختم کریں گے، قانون نافذ کرنے والے ادارے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنا کام جاری رکھیں، شجاع خانزادہ قوم کے بہادر سپوت تھے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، قربانی رائیگاں نہیں جائیگی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ خودکش حملہ آور ممکنہ طور پر دو تھے، ایک خودکش حملہ آور کی نعش مل گئی ہے، دوسرے کے اعضا ملنے کی اطلاع ہے۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ، آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب، وزیراعظم چودھری عبدالمجید، چیئرمین سینٹ رضا ربانی، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، ڈاکٹر عبدالمالک، پرویز خٹک، مہتاب خان عباسی، ڈاکٹر عشرت العباد، خواجہ آصف، پرویز رشید، سعد رفیق، اسحاق ڈار، شاہد خاقان، رانا تنویر حسین، ریاض حسین پیرزادہ، شیخ آفتاب، انجینئر بلیغ الرحمن، خرم دستگیر خان، عبدالقادر بلوچ، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن، شجاعت حسین، پرویز الہی، خورشید شاہ، سراج الحق، اسفند یار ولی، جی جی جمال، الطاف حسین، فاروق ستار، عمران خان سمیت دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے حملے کی شدید مذمت کی۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ

پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف کی ہدایت پر آر پی او سرگودھا ذوالفقار حمید، سہالہ کالج کے کمانڈنٹ سہیل حبیب تاجک اور کمشنر راولپنڈی زاہد سعید پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا۔ ایک ہفتے کی تحقیقات کے بعد کمیشن کی جانب سے جو رپورٹ جمع کرائی گئی۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید خانزادہ پر ہونے والا حملہ خودکش تھا۔ حملے میں ایک ہی خودکش حملہ آور کو استعمال کیا گیا، جو کہ مقامی، پنجابی نوجوان تھا۔ تاہم حملہ آور کا ریکارڈ نادرا یا پولیس کے پاس موجود نہیں۔ حملہ آور شجاع خانزادہ کی آمد سے پہلے ہی ڈیرے پر موجود تھا، اور کرسی پر بیٹھ کے ان کا انتظار کر رہا تھا۔ حملہ آور کے جسمانی اعضاء شہید خانزادہ کے جسم کیساتھ جڑے ہوئے تھے، جبکہ شہید خانزادہ کے دونوں ہاتھ جسم سے جدا ہوچکے تھے۔ وزیر داخلہ کی آمد پر جامہ تلاشی، واک تھرو گیٹس، میٹل ڈیٹییکرز، جیمرز سمیت کسی بھی قسم کے سکیورٹی اقدامات نہیں کئے گئے تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی غفلت کا ذمہ دار آر پی او راولپنڈی اور ڈی پی او اٹک کو قرار دیا، اور بتایا کہ کال ریکارڈز یا کسی حوالے سے مجرموں کی تلاش میں کوئی مدد نہیں ملی۔

دہشتگردی کا غیر معمولی سانحہ، کالی بھیڑوں کی دلالت
انکوائری کمیشن، آئی جی پنجاب، وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر ذمہ داران نے ابتداء میں ہی یہ کہہ دیا کہ شہید شجاع خانزادہ پر ہونے والا حملہ خودکش تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس سے عمارت کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہو، جبکہ اٹک کے گاؤں شادی خان میں ہونے والے حملے میں پوری عمارت ہی زمین بوس ہوگئی۔ یہاں تک کہ کنکریٹ کی چھت کے نیچے دب جانے سے زیادہ افراد شہید ہوئے۔ اب ایسے دھماکے کی دو ہی صورتیں ہیں، اول یہ کہ حملہ خودکش نہیں تھا، بلکہ عمارت کے کمزور حصوں کے ساتھ ایسا مواد نصب کیا گیا تھا، جو عمارتیں گرانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس خیال کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ عمارت کے گرنے کے کافی دیر بعد تک شہید خانزادہ نہ صرف زندہ تھے، بلکہ وہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے مدد کیلئے بھی پکارتے رہے اور باتوں کا جواب بھی دیتے رہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور آئی جی پنجاب کے بقول ایک خودکش حملہ آور کے جسمانی اعضاء جبکہ ایک ناقابل شناخت لاش جائے وقوعہ سے ملی ہے، چنانچہ ایسی صورت میں اگر خودکش حملہ آور کا جسم کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا تو شہید خانزادہ جن کو قریب جاکر ٹارگٹ کیا گیا تھا، وہ اتنے محفوظ کیسے رہے، کہ ملبے کے نیچے دب جانے کے باجود بھی کچھ دیر تک آواز دیتے رہے۔ میڈیا کو جاری ابتدائی تفصیلات میں بتایا گیا کہ خودکش حملے میں بال بیرنگ اور نٹ بولٹ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اب تک ہونے والے خودکش حملوں میں یہ چیز باآسانی دیکھی جاسکتی ہے کہ خودکش حملہ آور زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں کرنے کیلئے جیکٹس میں نٹ بولٹس اور بارودی مواد میں زہر شامل کرتے ہیں۔ جس کے بعد دھماکے کی صورت میں ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جبکہ کسی عمارت، گاڑی، یا خاص پوائنٹ کو نشانہ بنانا ہو تو اس میں پلانٹڈ بم، یا بارودی گاڑی کے ذریعے مختلف نوعیت کا بارودی مواد استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ ماضی میں عباس ٹاؤن کراچی میں کیا گیا۔ ڈی آئی خان میں عید گاہ کے قریب شہید رمضان کے گھر پر ہونے والے دھماکے میں کیا گیا۔ اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر ہونے والے حملے میں استعمال کیا گیا۔

چنانچہ اگر یہ خودکش حملہ نہیں تھا، تو اس کی تحقیقات کا رخ کچھ اور ہونا چاہئے۔ بقول آئی جی پنجاب یا انکوائری کمیشن کے کہ یہ خودکش حملہ تھا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمارت گرانے کے لئے لامحالہ بارودی مواد کی زیادہ مقدار ضرورت پڑتی ہے۔ ایک خودکش حملہ آور بارود کی اتنی زیادہ مقدار ساتھ لیکر صوبائی وزیر داخلہ کی موجودگی میں ڈیرے تک کیونکر پہنچا۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور نے انتہائی دھماکہ خیز مواد استعمال کیا، جس کی دھمک سے عمارت زمین بوس ہوئی۔ جس سے سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ حملہ آور کا ہدف عمارت تھی، یا شہید خانزادہ، یعنی شخصیت ٹارگٹ تھی، یا بلڈنگ، کیونکہ شخصیات کو ٹارگٹ کرنے کیلئے خودکش جیکٹس میں زیادہ سے زیادہ بال بیرنگ اور نٹ بولٹس کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ عمارتوں کو گرانے کیلئے زیادہ سے زیادہ بارودی مواد کا استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ خودکش حملہ آور کے سینے یا پیٹ پر چھپ نہیں سکتا۔ سرکاری بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مان بھی لیا جائے کہ حملہ خودکش تھا، اور اس کی پلاننگ بعین اسی طرح ہی کی گئی تھی، جس طرح یہ انجام پایا، تو اس سے نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ قومی ایکشن پلان پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایسے شدید دھماکہ خیز مواد کی فراہمی کہ جو اتنی کم مقدار میں ہونے کے باوجود (کہ خودکش حملہ آور اپنے جسم پر باندھ سکے اور محسوس نہ ہو) اتنی زیادہ تباہی پھیلائے، کہ پوری عمارت زمین بوس ہوجائے، کیسے ممکن ہوئی، کیونکہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص دہشتگردی کے ایسے کئی منصوبے ناکام بنائے گئے، جس میں دیسی ساخت سے ہٹ کر کوئی خاص قسم کا بارود یا کیمیکل استعمال کیا جانا تھا۔ اس کی وجہ محض اتنی ہے کہ اداروں نے مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ ایسی اشیا کی ترسیل کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا، جو دہشتگردی کے مقاصد میں استعمال ہوسکیں۔سانحہ اٹک نہ صرف ہائی لیول کی پلاننگ کی غمازی کرتا ہے، بلکہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ حملہ آور علاقے، صوبائی وزیر داخلہ کی ٹائمنگ، گزر گاہوں اور معمولات سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔

کمیشن رپورٹ کے بقول شہید خانزادہ پر خودکش حملہ کیا گیا، تاہم کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں سانحہ کی جو ایف آئی آر درج کی گئی، اس میں خودکش حملے کا ذکر تک شامل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ جائے وقوعہ سے جانوروں کے اعضاء بھی ملے ہیں، جو کہ توجہ طلب ہیں۔ شہید خانزادہ اتوار کی صبح ہی اپنے آبائی گاؤں پہنچے۔ ان کے سکیورٹی سکواڈ اور فیملی کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آج شہید خانزادہ اتنی دیر اپنے ڈیرے پر موجو د رہیں گے اور لوگوں سے ملیں گے۔ شہید خانزادہ جب اپنے ڈیرے پر موجود تھے، اور لوگوں کے مسائل سن رہے تھے، تو ڈیرے سے باہر سکیورٹی سکواڈ نے سکیورٹی سرکل قائم کیا ہوا تھا۔ آئی جی پنجاب کے بقول کے خودکش حملہ آور ڈیرے میں داخل ہوا، اور اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا، وہ خودکش حملہ آور باہر موجود سکیورٹی سکواڈ کو کیوں نہیں دیکھائی دیا، اگر دیکھائی دیا، تو اسے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ شادی خان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے قلیل شہری ایک دوسرے سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اگر کوئی دو مشکوک افراد اندر داخل ہوئے، یا باہر موجود تھے، یا کوئی ایک مشکوک شخص (خودکش حملہ آور) ڈیرے کے اندر موجود تھا تو اہلیان علاقہ، سکیورٹی و ذاتی عملے نے نوٹس کیوں نہیں لیا۔ حملہ ہوجانے کے بعد جب عمارت زمین بوس ہوگئی، تو شہید خانزادہ جو کہ ہوش و حواس میں تھے اور باقاعدہ بات کر رہے تھے۔ انہیں نکالنے کیلئے غیر معمولی تاخیر کیوں کی گئی۔ یہاں تک کہ اسی ملبے تلے جب ان کی شہادت واقع ہوگئی، تو ان کی میت بھی گھنٹوں بعد اس وقت نکالی گئی، جب یقین ہوچکا کہ شجاع خانزادہ اب شہید ہوچکے ہیں۔ حملے کی غیر معمولی پلاننگ، شدید دھماکہ خیز بارودی مواد (جس کا استعمال پہلی مرتبہ سامنے آیا)، زمین بوس عمارت کے ملبے کو ہٹانے میں غیر معمولی تاخیر، سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہید شجاع خانزادہ کو نہایت منظم طریقے سے ہٹایا گیا ہے، اور دہشت گردی کی اس کارروائی میں صرف بیرونی عوامل کارفرما نہیں ہیں، بلکہ دہشتگردوں کو اندرونی مدد بھی حاصل تھی، اور اندرونی مدد کرنے والے عناصر اتنے قوی اور بااثر ہیں کہ ان کی جانب تاحال کسی نے انگلی تک نہیں اٹھائی۔ سانحہ اٹک کی تحقیقات تین ادارے اپنے اپنے طور پر الگ الگ کر رہے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی اور پولیس، تینوں اداروں نے ابھی تک اپنی رپورٹس پیش نہیں کی ہیں، جس کا پاکستان کے امن پسند عوام کو شدت سے انتظار ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پلانٹڈ بم دھماکے کے مقابلے میں خودکش حملے کی کارروائی کو نمٹانا اور کیس کی فائل کو داخل دفتر کرنا، انتہائی سہل ہوتا ہے۔

علاقہ:۔
سانحہ اٹک کے بعد سکیورٹی اداروں نے اٹک، حضرو، حسن ابدال اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا، جو کہ شائد بہت پہلے کرنا چاہئے تھا۔ شہید خانزادہ نے انسداد دہشتگردی کے محکمہ کو باقاعدہ طور پر اس بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔ صوبہ پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے ایک اہلکار کے مطابق صوبے بھر میں کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کے جاری آپریشن کو تیز کرنے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کو دھمکیاں زیادہ ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ حملے سے قبل جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں کالعدم تنظیم کے رہنما ملک اسحاق اور دیگر تیرہ افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کو مزید محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اہلکار کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ نے اپنے آبائی علاقے میں کالعدم تنظیموں کے متحرک ہونے کے بارے میں بھی انسداد دہشت گردی کے محکمے کو آگاہ کیا تھا۔ جس کے بعد محکمے کے ذمہ داران افراد نے اس علاقے میں کارروائی کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس علاقے میں شہید خانزادہ پر حملہ ہوا ہے، اس پٹی میں دیگر ہونے والے حملوں میں بھی کالی بھیڑوں کا کردار سامنے آیا تھا۔ 2004ء میں اٹک میں ہی سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا تھا، جس وقت وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران جلسہ سے خطاب کرکے گاڑی کی جانب آرہے تھے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری القاعدہ کے ایک غیر معروف گروہ نے قبول کی تھی۔ اس حملے کی رپورٹس میں بھی یہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کو اداروں کے اندر سے ہی کچھ مدد حاصل تھی۔

2012ء میں اٹک سے تھوڑی ہی دور کامرہ ائیر بیس پر دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کرکے پاکستان کے سرویلنس طیاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ گرچہ اس حملے میں دہشت گرد اپنے مذموم عزائم حاصل کرنے میں سو فیصد کامیاب نہیں ہوئے تھے، تاہم طیاروں تک پہنچ جانا ہی انتہائی خطرے کی علامت سمجھا گیا۔ اس حملے کی جاری ہونیوالی رپورٹس میں بھی یہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ حملے میں اندرونی عناصر کی مدد دہشتگردوں کو حاصل تھی۔ کامرہ میں ہونے والے حملے اور شہید خانزادہ پر ہونے والے دونوں حملوں کی ذمہ داری بھی احسان اللہ احسان نے قبول کی۔ صوبائی وزیر داخلہ کے آبائی گاؤں شادی خان کے مین داخلی چوک کے اوپر ہی کالعدم جماعت کا جھنڈا علاقے میں کالعدم تنظیم کی موجود گی کا شدت سے احساس دلاتا ہے۔ شہید خانزادہ کے گاؤں کے قریبی علاقوں میں متعدد مدارس موجود ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر مدارس کے اندر کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ایک طرف پورے ملک کے اندر دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور دوسری جانب پنجاب میں شدت پسند کالعدم تنظیمیں بھی پوری آزادی کے ساتھ متحرک ہیں۔ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے اندر تاحال دہشت گردوں کو کوئی ایسی چھتری میسر ہے، جس کے نیچے وہ خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں۔

ذمہ داران
شہید خانزادہ پر حملے کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں پیش کی گئیں، اور پنجاب اسمبلی میں ان کی خدمات کو سراہا گیا اور دہشتگردوں کے خلاف سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اراکین اسمبلی کے جذبات قابل تحسین سہی، مگر اس کے اگلے ہی دن صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب اسمبلی پر حملے کے الرٹس موجود ہیں، اور اس کے اگلے دن ہی یہ خبر میڈیا کی زینت بنی کہ پانچ خودکش لاہور میں داخل ہوچکے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک صوبائی وزیر قانون کے بیان میں خدشے سے زیادہ تنبیہ موجود تھی۔ کرنل (ر) شہید شجاع خانزادہ پر حملے سے چند روز قبل پانی و بجلی کے موجودہ وزیر عابد شیر علی کے والد چوہدری شیر علی نے فیصل آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر الزام لگایا کہ رانا ثناء اللہ 20 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے پاس سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل تاجک کا موبائل پیغام محفوظ ہے، جس میں انہوں نے بیس افراد کے قتل میں رانا ثناء اللہ کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اب اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ چوہدری شیر علی کے بیان کے دو روز بعد ہی ایک ایسے وزیر کی شہادت کا سانحہ رونما ہوگیا، جس کے صوبائی وزیر قانون سے تعلقات بہتر نہیں تھے۔ بعض میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ رانا ثناء اللہ نے ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت، اور بعض دہشت گردوں کی رائیونڈ میں روابط کے منظر عام پر آنے کے بعد شہید خانزادہ سے ہتھ ہولا رکھنے کی بات کی تھی۔ جسے خانزادہ نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔ ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد میڈیا رپورٹس، انٹیلی جنس رپورٹس، یہاں تک کہ شہید خانزادہ نے بذات خود سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا، مگر ان سب کے باوجود کرنل شجاع خانزادہ کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا، بلکہ وزیراعلی پنجاب نے ایک اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا کہ پنجاب کے وزیر داخلہ وہ خود ہیں۔

یہ تمام حالات و واقعات اس امر کے غماز ہیں کہ حکمران جماعت، سرکاری اداروں کے اندر ایسے افراد موجود ہیں، جن کے نہ صرف دہشتگردوں سے روابط استوار ہیں، بلکہ انہی روابط و تعلقات کی بنیاد پر حکمرانوں پر ان کا اثر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف مدعی، گواہ موجود ہونے کے باوجود بھی انکے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز پر ماضی میں تواتر کے ساتھ الزامات لگتے رہے کہ طالبان کیلئے یہ جماعت نرم گوشہ رکھتی ہے، جبکہ صوبائی وزیر قانون پر اس سے بھی زیادہ سنگین الزامات عائد ہوئے۔ شہید خانزادہ نے اپنے دور وزارت میں دہشت گردوں کے خلاف انتہائی جرات کے ساتھ جو جنگ لڑی، اس سے کسی حد تک یہ تاثر زائل ہونے میں مدد ملی تھی۔ تاہم ان کی شہادت اور حملے کے واقعات نے ایک مرتبہ پھر پنجاب حکومت اور اس کے چند وزراء کے خلاف کئی سوالات ثبت کر دیئے ہیں، جو کہ دامن پر پڑے دھبوں کی مانند ہیں، جن کو صاف کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومت وزیر داخلہ کے طور پر کسی ایسی شخصیت کا تقرر کرے، جو کہ نہ صرف شہید خانزادہ کی طرح دہشت گردی کے خلاف انتہائی واضح موقف رکھتی ہو، بلکہ قومی ایکشن پلان کی کامیابی کیلئے اسی طرح سکیورٹی اداروں کے ساتھ ملکر جرات مندانہ کردار ادا کرسکے، جس طرح شہید خانزادہ کر رہے تھے۔ صوبائی و مرکزی حکومت آئی بی، آئی ایس آئی، اور پولیس کی سانحہ سے متعلق رپورٹس کو یکجان کرکے حملے کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف انتہائی سخت تادیبی کارروائی کرے۔ چاہئے وہ کالعدم جماعت کے ہرکارے ہوں یا ایوان اقتدار کی کرسیوں پر براجمان قاتل، یونیفارم میں ملبوس کوئی گماشتہ ہو یا مدرسے میں موجود دہشت و انتشار کی علامت۔ قاتلوں و دہشتگردوں سے کسی بھی قسم کی وابستگی کی بنیاد پر برتی جانیوالی نرمی، اس ملک اور اس کے عوام کو امن و استحکام سے مزید دور کرے گی، جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑیگا۔
خبر کا کوڈ : 486628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش