0
Friday 14 Jan 2011 02:11

انقلاب یا انتشار

انقلاب یا انتشار
 تحریر:آر اے سید
ہم جب جوان تھے اور کرکٹ کا جنون ہماری تعلیمی اور سماجی مصروفیات کو بری طرح متاثر کر رہا تھا تو اس وقت کرکٹ کے آسمان پر عمران خان کا سورج تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ عمران خان نے بقول انکے شکست خوردہ پاکستانی ٹیم کو نصرت فتح علی مرحوم کی گائی گئی قوالی دم مست قلندر علی علی سنا کر ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا کر ورلڈ کپ جتایا۔ ورلڈ کپ کی فتح کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر قائم کردہ کینسر ہسپتال شوکت خانم ہسپتال پر روز و شب صرف کئے اور ایک بڑے فلاحی منصوبے کو کامیابیوں کی منزل تک پہنچایا۔ اسکے بعد انکی سیاسی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے، جس میں اہم موڑ پرویز مشرف کے دور میں انکے وزيراعظم بننے کی افواہیں تھیں، تاہم اس دوران انہوں نے ایم کیو ایم سے بھی ایک "پنگا" لیا، جو انکی سیاسی اور نجی زندگي کی موشگافیوں کا باعث بنا۔
 ایم کیو ایم کے منہ پھٹ رہنماؤں اور ہر طرح کی سیاسی، سماجی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا قتل عام کرنے والے الطاف بھائی کے جیالے کارکنوں نے عمران خان کے اسکول کے زمانے سے سیاست تک آنے کے تمام ادوار کا اس تفصیل سے جائزہ لیا کہ اس زمانے کے ٹی وی ٹاک شوز کو "صرف بالغوں کے لئے" کے ٹائیٹل کے ساتھ پیش کیا جاتا تو بہتر تھا۔ عمران خان پر کراچی جانے پر پابندی لگ گئی‏ تھی درمیان میں کس نے صلح صفائي کرائی، ہمیں اس کی اطلاع نہیں، تاہم گزشتہ منگل کے دن انہوں نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا پاکستان میں انقلاب آ رہا ہے اور یہ انقلاب اسی سال آئے گا۔ البتہ پنجاب کے وزيراعلی شہباز شریف بھی کئی بار خونی انقلاب کی نوید سنا چکے ہیں۔ عمران خان نے جذبات میں آ کر یا صحافیوں کے اکسانے پر یہ جملہ کہا ہے یا انہوں نے واقعا" سوچ سمجھ کر اور تمام جہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنی بڑی بات کی ہے۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے انقلاب اور پاکستانی سیاست کو ون ڈے میچ سمجھ رکھا ہے، ورنہ انقلاب صرف اخباری بیانات سے نہیں آتے۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر نے بھی عوام سے انقلاب لانے کی اپیل کی تھی، انہوں نے تو چین، فرانس، ایران سمیت مختلف انقلابوں کا ذکر کر کے پاکستانی عوام کو انقلاب کے لئے تیار قوم قرار دیکر انقلاب کے کچھ بنیادی "نسخے" بھی اپنے کالم میں ذکر کئے تھے۔ البتہ یہاں پر ان افراد کا یہ تبصرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے نام پر یہ کالم کوئی "سید" صاحب لکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب تو بس دستخط فرمانے کی زحمت کرتے ہیں۔
بہرحال حقیقت یہ کہ ان دونوں شخصیات کا پاکستان میں بڑا احترام ہے، دونوں عمران خان اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان عوام میں ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ دونوں اپنے ماضی کی غلطیوں کا اگر اعادہ نہ کریں تو پاکستان کے لئے عملی میدان میں بھی ایک سہارا اور غریب اور پسی ہوئی پاکستانی قوم کے لئے امید کا پیغام بن سکتے ہیں۔
انقلاب کیسے آتا ہے؟ کیوں آتا ہے؟ کون لاتا ہے؟ کہاں سے آتا ہے؟ اور کس معاشرے میں آتا ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان اور عبدالقدیر خان اتفاق سے دونوں "خان " ہیں، ان "خانوں " کی سوچ کے مطابق پاکستان کا معاشرہ ایک فوری انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن کیا یہ تیاری بلکہ قومی زبوں حالی انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے یا انتشار و افتراق کی طرف۔ حقیقی انقلاب جب کامیاب ہوتا ہے تو ترقی و خوشحالی لاتا ہے، البتہ ناکام ہونے کی صورت میں اسے بغاوت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ناکام انقلاب انتشار اور افراتفری میں تبدیل ہو کر پہلے سے بھی بدتر صورتحال کو جنم دیتا ہے۔
اس میں ذرا برابر شک نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق جب انارکی، عدم برداشت، تشدد، کرپشن اور خود غرضی حد سے زيادہ بڑھنے لگتی ہے تو انقلاب کے لئے راستے ہموار ہونا شروع ہو جاتے ہیں، تاہم حکمرانوں کی نظر میں اس کو بغاوت کہتے ہیں، جی ہاں جب افراتفری انتہا کو پہنچتی ہے تو بغاوت بھی دروازے پر دستک دینا شروع کر دیتی ہے اور اگر یہ بغاوت باہدف، بامقصد اور مستقل مزاج قائدین کی رہنمائی میں انجام پا رہی ہو تو اس کو انقلاب کا نام دیتے ہیں۔
پاکستان میں متوقع انقلاب جسکا عمران خان، اے کیو خان اور شہباز شریف و غیرہ بارہا ذکر کر چکے ہیں،کس نوعیت کا ہو گا؟کیا یہ انقلاب ووٹ کے ذریعے یا اکھاڑ بچھاڑ، مار دھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے آئے گا؟واضح نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کو ایک حقیقی انقلاب کی ضرورت ہے، لیکن اس انقلاب کے طریقہ کار اور اسکی نوعیت کا طے کرنا اشد ضروری ہے۔ عملی میدان میں اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نہ تو کسی فرد یا تنظیم کے پاس انقلاب کا کوئی ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا گروہ تیار ہے، جو انقلاب کے لئے پہلی قربانی بننے کے لئے تیار ہو۔ 
دنیا کے تمام انقلابوں میں پہلی ٹیم کو بہرحال دوسروں سے زیادہ قربانیاں دینا پڑتی ہیں، آئیے پاکستانی سیاست میں فعال اور سرگرم مختلف سیاسی مذہبی اور سول سوسائیٹی کے گروہوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں سے کون انقلاب کی پہلی قربانی کے لئے تیار ہے۔
پاکستان میں اس وقت سرگرم عوامی گروہوں کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی، سیاسی اور سماجی گروہ یا پارٹیاں۔ مذہبی گروہوں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کا ماضی انتہائی تاریک اور سو فیصد ذاتی تنظیمی اور عارضی مفادات کے حصول پر متمرکز نظر آتا ہے۔ مذہبی گروہ اندرونی یا بیرونی عناصر کے بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی طرح شعوری یا لاشعوری ایجنٹ یا آلہ کار نظر آئے ان کے پاس اپنا کوئی مستقل، آزاد، خودمختار یا طویل المدت ایجنڈا موجود نہیں ہے۔
 دوسرا گروہ سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا ہے، ان کے لئے موجودہ نظام ہی بہتر ہے، وہ اس میں تبدیلی کے قائل ہی نہیں، وہ صرف زبان سے انقلاب کی بات کرتے ہیں، وہ انقلاب لانے پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ایک حقیقی انقلاب کے بعد ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بنتی۔
پاکستان میں ایک تیسرا گروپ جو حال ہی میں سول سوسائیٹی کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور اسکو ججوں کی بحالی کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں شہرت ملی، بہت کم عرصے میں اپنی حیثیت کو کھو رہا ہے۔ اتنے بڑے اقدام کے بعد اس بڑے عوام اور سماجی حلقے کو مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے غیر محسوس طریقے سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے، البتہ اس میں سول سوسائیٹی کے نام پر سامنے آنے والے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کا بھی برابر کا ساتھ ہے، جو اپنے بچگانہ اور جذباتی فیصلوں اور اقدامات سے اتنی بڑی طاقت کو انتہائی معمولی مسائل میں الجھا کر ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔ ( جاری ہے )
" مضمون کی طوالت کے پیش نظر ان تین بنیادی حلقوں کا جو انقلاب کا باعث بن سکتے ہیں اگلی قسط میں تفصیل سے تجزيہ پیش کریں گے ۔"
مصنف : ڈاکٹر آر اے سید
خبر کا کوڈ : 50421
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش