1
0
Wednesday 23 Dec 2015 17:39

داعش مخالف عرب و غیر عرب اتحاد کی حقیقت

داعش مخالف عرب و غیر عرب اتحاد کی حقیقت
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان


حالیہ دنوں داعش کے خلاف بنائے جانے والے 34 ممالک پر مبنی ایک عربی و غیر عربی ممالک کے مشترکہ اتحاد کا بہت چرچا ہے، لیکن اس اتحاد کی اصل حقیقیت کیا ہے؟ کیا کسی نے بھی اس اتحاد کے بارے میں حقائق بیان کرنے کی کوشش کی یا جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ اتحاد جسے داعش اور ہر قسم کے دہشت گرد گروہوں کے خلاف بنائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے اور پاکستان کو بھی اس میں دھنسایا گیا ہے، نہ جانے اس کے کیا عزائم ہوں گے اور پھر اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔؟ داعش کے خلاف بنائے گئے اس نئے عربی اور غیر عربی اتحاد کی خاص بات تو یہ ہے کہ اس کو بنانے میں سرگرم عمل سعودی عرب کے حکمران ہیں، جنہوں نے 2011ء سے لے کر 2015ء تک صرف شام میں ایک منتخب حکومت کو گرانے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر نہ صرف اسی داعش کے وجود کو جنم دیا تھا بلکہ شامی حکومت کا تختہ دہشت گردی کے راستے الٹنے کے لئے اسی داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ کو مالی، مسلح اور افرادی قوت بھی فراہم کرنے میں یورپ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سرفہرست تھا۔ داعش کی مدد کرنے والوں میں بھی ستر ممالک شامل تھے، جن میں مغربی اور عربی و خلیجی ممالک سب کے سب شامل تھے جبکہ اس موقع پر اگر کوئی شام کے لئے سہارا بن کر آیا تھا تو وہ یا تو اسلامی جمہوریہ ایران تھا یا پھر لبنان میں موجود حزب اللہ کہ جس نے نہ صرف غاصب اسرائیل کو متعدد مرتبہ شکست کا مزہ چکھایا ہے، اب اس نے داعش کی کمر توڑنے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

ستر ممالک بشمول مغربی و یورپی اور عربی و خلیجی ممالک کی جانب سے وجود میں لایا جانے والا تکفیری دہشت گرد گروہ جب شام میں اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور چار سالہ طویل عرصے میں صرف اس تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے معصوم انسانوں کا قتل عام کے سوا کچھ نہ کیا تو پھر اس گروہ کو انہی ستر ممالک کی جانب سے عراق میں داخل ہونے اور وہاں پر نیا محاذ کھولنے کے لئے سبز جھنڈی دکھا دی گئی۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب داعش کے تکفیری دہشت گردوں نے جنہیں نہ صرف امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی بلکہ سعودی عرب، ترکی، قطر اور دیگر خلیجی ممالک کی مدد بھی حاصل تھی، ان کو عرا ق میں بھی بدترین شکست کا سامنا رہا اور عراق میں بسنے والی تمام اکائیاں متحد ہو کر اس خطرے کے خلاف نبرد آزما ہوگئیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر داعش کے موجدین ستر ممالک ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ امریکہ اور یورپی ممالک فضائی کارروائی کریں گے۔ اس مرتبہ بھی بظاہر نعرہ لگایا گیا تھا کہ داعش کے خلاف فضائی کارروائی ہوگی، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان مغربی اور یورپی ممالک نے نہ صرف شامی افواج کے ٹھکانوں کو نقصان پہنچایا بلکہ داعش کے ٹھکانوں پر مدد کے طور پر اسلحہ اور ضروری اشیاء بھی فراہم کی جاتی رہیں۔

امریکہ اور مغرب کی اس دوہری پالیسی کے باعث خطے کی دیگر قوتوں بشمول ایران، روس، چین، عراق اور حزب اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب داعش کے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مکمل کمر توڑنے کے لئے روس فوجی کارروائی کا آغاز کرے اور پھر روس سمیت چین، عراق اور ایران کے بننے والے چار جمع ایک اتحاد نے داعش کے خلاف موثر کارروائی کا آغاز کر دیا، جو کہ گذشتہ دو ماہ سے جاری ہے۔ زمینی حقائق اب یہ بتا رہے ہیں کہ روسی جنگی طیاروں نے داعش نامی اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی مکمل کمر توڑ دی ہے اور مسلسل ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور زمینی سطح پر شامی افواج بھی بھرپور کارروائیاں انجام دے رہی ہیں، داعش کے خلاف جاری اس موثر کارروائی کو پہلی مرتبہ داعش کے ایک اور بڑے حمایتی ترکی نے روس کے ایک طیارے کو نشانہ بنا کر اس کارروائی کو سبوتاژ کرنے کی مکمل کوشش کی، لیکن ترکی اس میں بری طرح ناکام رہا۔

اس تمام تر صورتحال کے بعد جسے مختصر بیان کیا گیا ہے، اب سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر نئے انداز سے اپنے آپ کو خطے کے معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے وارد کیا ہے، تاکہ مغربی ایشیاء کے اندر اپنی بالادستی قائم کرسکے، کیونکہ اس سے قبل سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کرکے دس ہزار سے زائد معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا اور دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ اب سعودی عرب اکیلا ہی خطے میں راج کرسکتا ہے اور باقی تمام عرب اور خلیجی ریاستوں کو اس کا معاون اور مددگار بن کر رہنا ہوگا۔ لیکن یمن پر حملہ سعودی عرب کی حماقت ثابت ہوا اور خود سعودی عرب محدودیت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، تاہم اب ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کی یہ کوشش ہے کہ داعش کے خلاف ایک اتحاد بنا لیا جائے، تاکہ خطے میں اس کی بالادستی قائم ہوجائے۔ جہاں تک داعش کے خلاف بنائے جانے والے 34 ممالک کے اتحاد کی ہے تو اس میں اکثریت ایسے عرب ممالک کی ہے کہ جو 2010ء اور 2011ء میں داعش کا وجود بنانے اور اس کی مدد کرنے والے تھے۔

سعودی قیادت میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کے بارے میں صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ سعودی عرب خطے میں بالادستی کے ساتھ ساتھ اپنے ان بنائے گئے تکفیری دہشت گرد گروہوں داعش، جبہة النصرة، طالبان، القاعدہ اور دیگر کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ شام میں روس، چین، عراق، ایران اور حزب اللہ کے اتحاد نے ان دہشت گردوں کے لئے زمین تنگ کر دی ہے اور انہیں واصل جہنم کر رہے ہیں۔ تاہم اب خود امریکہ اور اسرائیل سمیت سعودی عرب کی یہ خواہش ہے کہ دنیا کی توجہ ایک مرتبہ پھر منحرف کی جائے اور ایسے ممالک کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، بشمول پاکستان، ملائیشیا اور دیگر ان سب کو اپنے ساتھ اس اتحاد کا حصہ بنا لیا جائے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے بھی حماقت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اب یا تو یہ حماقت ہے یا پھر سعودی پالیسی کی طرح ایک حکمت عملی ہے، کیونکہ پاکستان میں بھی ان تمام تکفیری دہشت گرد گروہوں بشمول القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر کا وجود موجود ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان بھی سعودی عرب کی ایماء پر ان تمام دہشت گردوں کو پاکستان میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس نام نہاد اتحاد کا حصہ بن گیا ہے اور اگر واقعاً ایسا ہے تو پھر یقیناً یہ حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے ان ستر ہزار شہداء کہ جن میں معصوم بچے، معماران پاکستان، ڈاکٹرز، علماء، زعماء، انجیئنرز اور پاکستان کے ہونہار افواج، پولیس اور سکیورٹی اداروں کے جوان شہید ہوئے ہیں، ان سب کے خون کے ساتھ دھوکہ، خیانت اور غداری ہوگی، جبکہ افواج پاکستان کی جانب سے جاری دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن \'\'ضرب عضب\'\' کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے داعش کے خلاف بنائے گئے 34 ممالک پر مبنی اتحاد پر ویسے تو درجنوں سوالات اٹھ رہے ہیں، لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کل تک یہی سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر شام میں حکومت کو گرانے کے لئے انہی دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہا تھا اور آج ان کے خلاف مسلمان ممالک کو اکٹھا کر رہا ہے۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ شام میں جو ان دہشت گردوں نے ایک لاکھ سے زائد معصوم انسانوں کا قتل عام کیا، اس سب کی ذمہ داری اب سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے ساتھ اتحاد میں شامل دیگر ممالک بھی کیا اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیں گے؟ دوسری اہم بات جو اس اتحاد کے بارے میں سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ سعودی قیادت میں بننے والا یہ داعش مخالف اتحاد جن ممالک پر مشتمل ہے، ان میں وہ دو ممالک تو موجود ہی نہیں ہیں کہ جو داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کے لاکھوں شہری اسی تکفیری دہشت گرد گروہ کے سفاک اور امریکی و اسرائیلی و سعودی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ جی ہاں عراق اور شام تو اس اتحاد میں موجود ہی نہیں؟؟؟ اسی طرح ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل نہ کرکے سعودی عرب نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ داعش کو مکمل طور پر تباہ نہیں بلکہ تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔

ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں آج سعودی عرب سمیت ان تمام 34 ممالک کے سربراہان مملک سے ایک ہی سوال کرتا ہوں کہ آخر مسلم دنیا کب قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لئے کوئی اتحاد بنائے گی؟ یا یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے والے یہ عرب حکمران پوری مسلم دنیا کو صیہونی دہشت گردوں کے سامنے سرتسلیم خم کرواتے رہیں گے؟ یقیناً انڈونیشیا جیسے ایک بڑی مسلم آبادی والے ملک کی جانب سے اس دھونسلے میں نہ آنے پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئیے اور پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کے مفاد کی خاطر کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہئیے کہ جس کے بنانے والوں کے ہاتھ مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگیں ہوں یا پھر ان کا مقصد اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں کاتحفظ کرنا ہو۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
خبر کا کوڈ : 507355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

NISSAR AHMAD BANKA
India
GOOD WELAN GOOD
ہماری پیشکش