0
Thursday 25 Feb 2016 02:44

عرب اسرائیل اتحاد اور فلسطین خطرے میں!!

عرب اسرائیل اتحاد اور فلسطین خطرے میں!!
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مسلم دنیا کس قدر بدقسمت ہے کہ اپنے قبلہ اول پر غاصبانہ صیہونی تسلط کے خاتمہ کے لئے آج تک موثر اقدام نہ کرسکی، بدقسمتی کہوں یا اسے عرب دنیا کے حکمرانوں کی جانب سے شیطان بزرگ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی چاپلوسی یا پھر کاسہ لیسی کہوں، بہرحال خلاصہ تو یہ ہے کہ مسجد اقصٰی پر غاصب صیہونی اسرائیلی افواج کے حملے جاری ہیں اور پوری کی پوری مسلم دنیا خاموش خواب خرگوش میں ہے۔ یقیناً اس گہری نیند کا فائدہ جہاں نیند کرنے والے لے رہے ہیں، وہاں اس نیند سے اسرائیل بھی مستفید ہو رہا ہے۔ مسلم امہ کی بے حسی اور سستی و کاہلی کے سبب آج اسرائیل نے نت نئے انداز سے نہ صرف بیت المقدس کو یہودیانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے بلکہ پورے فلسطین کو ہڑپ کر جانا چاہتا ہے اور اسرائیل جو کہ روز اول سے ایک غاصب اور ناجائز ریاست رہا ہے، اب اس نے اپنے لئے سامان تیار کر لیا ہے کہ کس طرح خود کو تسلیم کروانا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی مظلوم ملت پر گذشتہ 67 برس سے انسانیت سوز مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ ان مظالم پر دنیا صرف نظر کر لے، اور دنیا کی بات بھی کیا کریں کہ عالمی برادری تو پہلے ہی عالمی استعماری قوتوں کی غلام بن چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک مظلوم فلسطینی صیہونی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے تمام تر گناہوں کو دھونے کا پروگرام بنا لیا ہے اور اس پروگرام میں عرب حکمرانوں کی بھرپور مدد حاصل کی جا رہی ہے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہوچکی ہے کہ آخر کیوں خطے کی عرب بادشاہتیں اسرائیل کے ساتھ دوستی میں فخر محسوس کر رہی ہیں۔

اسرائیل اس مرتبہ ایک نئے انداز سے وارد ہوا ہے اور بالخصوص 2006ء میں لبنان، 2008ء، 2012ء اور 2014ء میں غزہ میں شکست کھانے کے بعد اور خاص طور سے شام میں اپنی منصوبہ بندیوں کی ناکامی کے بعد غاصب صیہونی اسرائیل نے ایک نیا انداز دوستی متعارف کروایا ہے، جس کا مقصد دراصل پوری مسلم دنیا کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر مزید تقسیم کرنا اور فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے، اسرائیل کے اس نئے ہتھکنڈے میں مشرق وسطٰی میں موجود عرب حکمرانوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ سنی مسلمان ہیں اور اسرائیل کی سنی مسلمانوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے، اسرائیل سنی مسلمانوں کا دوست ہے، ماضی قریب میں ہی اسرائیل کے ایک اعلٰی عہدیدار نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل سنی مسلمانوں کا دوست اور خیرخواہ ہے اور حالیہ دنوں اسرائیل نے یہی کام لبنان میں سنی مسلمانوں کے ساتھ انجام دیا ہے اور انہیں باور کروانے کی کوشش بھی کی ہے، جبکہ اسی تسلسل میں ایک اسرائیلی ویب سائٹ پر نشر ہونے والی خبر میں پاکستان کے معروف علماء کے نام شائع کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ اسرائیل ان علماء پر بھروسہ کرتا ہے۔ اسی تناظر میں اب اسرائیل عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر سنی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا یہ کہ شام کی فوج کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ شامی حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتا ہے۔

اسرائیلی اور عرب ذرائع ابلاغ ایک ہی جیسی بیان بازیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے ذرائع ابلاغ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں بھی کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے اور خاص طور پر یہ رحجان سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں زیادہ پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے موجودہ صورتحال میں خود کو دنیا بھر میں بالخصوص عرب دنیا میں سنی مسلمانوں کا خیر خواہ کہلوانا شروع کر دیا ہے اور یہی کچھ انہوں نے لبنان کے سنی مسلمانوں کے ساتھ مل کر کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اسی طرح اسرائیل نے کوشش کی ہے کہ لبنان اور فلسطین کے عیسائیوں کو یقین دلوائے کہ اسرائیلی عیسائیوں کا دوست ہے، حتٰی فلسطینی دروز قوم کو بھی اسی طرح کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے۔ غاصب صیہونی اسرائیل خود کو عرب اتحادی اور سنی مسلمانوں کا دفاع کرنے والا دوست بن کر پیش ہو رہا ہے اور اس بات کو کچھ عرب ممالک میں تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں عرب حکومتیں خود اپنے ہی عوام کا استحصال کر رہی ہیں۔ دراصل اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ مسلمانوں کے مابین کمزور نقاط کو دبایا جائے، تاکہ امت مسلمہ کبھی بھی متحد نہ ہونے پائے اور اس کے بر عکس شیطان بزرگ امریکہ اور بالخصوص اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ناپاک عزائم پروان چڑھتے رہیں۔

اگر اسرائیل خود کو سنی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار دے بھی رہا ہے تو حیرت اس بات پر ہے کہ کیا ہمارے عرب مسلمان حکمرانوں کی عقلوں پر بھی پردہ پڑ چکا ہے؟ یا یہ کہ پھر اسرائیل نے ان عرب حکمرانوں کو ایران کے خلاف اتنا اکسا دیا ہے کہ ماضی کی عرب اور عجم کی دشمنی بھی شاید کم پڑ گئی ہے اور عرب بادشاہوں نے ایران کو تو اپنے لئے خطرہ تسلیم کر لیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل جیسی خونخوار اور دہشت گرد ناجائز ریاست کو بھی اپنا دوست تسلیم کر لیا ہے۔ اس صورتحال میں ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر ان عرب نام نہاد سنی حکمرانوں سے کہ جنہوں نے اسرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست قرار دے دیا ہے۔ اے نام نہاد سنی عرب (اسرائیلی اتحادیوں) کیا تم گوارہ کرتے ہو کہ ایک ایسے دشمن کو اپنا دوست قرار دو کہ جس نے خود سنی سرزمین ''فلسطین'' پر نہ صرف غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے، بلکہ وہاں لاکھوں سنی مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا ہے؟ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اکیس سالہ نوجوان لڑکی صیہونی فوجیوں کی گولیوں سے تڑپ تڑپ کر سڑک پر جان دے رہی ہے؟ کس طرح کوئی سمجھ دار شخص ان سنی عرب ریاستوں میں اسرائیل جیسے خون خوار اور خطرناک دشمن کو اپنا دوست اور خیر خواہ تصور کرسکتا ہے؟

تم سب کے سب آزاد ہو کہ تم ایران کو اپنا دشمن سمجھو، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اسرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست قرار دو اور اسرائیل جیسی غاصب اور دہشت گرد ناجائز ریاست کو عرب اتحادی تصور کرو؟ حتٰی اسی صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے قبلہ اول پر تسلط قائم کیا ہے، مسجد اقصٰی جو تمھارے نزدیک سنی مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے حالانکہ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس پر صیہونی اسرائیل آئے روز حملے کرتا ہے اور تم اسرائیل کو کیسے سنی مسلمانوں کا دوست قرار دے کر عرب اتحادی بنا کر پیش کر رہے ہو؟ یقیناً یہ عرب حکمران کینہ پرور، جاہل اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ اگر عرب اس سرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست اور عرب اتحادی تسلیم کرتے ہیں تو یہ یاد رکھا جائے کہ پھر سنی ریاست فلسطین بھی اسرائیل کی سنی دوستی میں شامل ہوگی اور فلسطینی مظلوم ملت کی جدوجہد بھی نقصان اٹھائے گی۔ یعلون اور نیتن یاہو مسلسل خود کو سنی اور عرب ریاستوں کا خیر خواہ اور دوست اور ایک عرب اتحادی کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری اس طرح کے ہتھکنڈوں اور منفی حملوں کے مقابلے میں مسلم امہ کے علماء اور اکابرین اپنا کردار ادا کریں اور نکل کر میدان میں آئیں اور اسرائیل کی جانب سے جاری اس گھنائونے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کریں کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے اور مسلمانوں کے مابین تقسیم اور فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتا ہے، تاہم مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں، اسرائیل کے سنی دوستی کے جھانسوں میں نہ آئیں اور اسرائیل کی جانب سے سنی مسلمانوں کی دوستی کے اس جھوٹے اور مکارانہ فعل کو مسترد کریں، ورنہ بصورت دیگر فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا، قبلہ اول کو یہودیا لیا جائے گا اور پھر امت شاید ہاتھ ملتی رہے۔
خبر کا کوڈ : 523502
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش