1
Saturday 19 Mar 2016 19:04

ڈاکٹر محمد علی نقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہو اس پیڑ کو پانی دیتے ہیں

ڈاکٹر محمد علی نقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہو اس پیڑ کو پانی دیتے ہیں
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88@gmail.com

ظلم، عدل کی ضد ہے۔ کسی بھی چیز کی پہچان کا ایک طریقہ یہ کہ اس کی  ضد کو سمجھا جائے۔ لہذا اس بناء پر ضروری ہے کہ ظلم کی تعریف سے پہلے عدل کی تعریف کی جائے۔ کسی بھی چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنا عدل کہلاتا ہے، جبکہ ظلم یعنی کسی بھی چیز کو اس کے مناسب مقام و منصب سے ہٹا دینا ہے۔ انسان نہ تو فطرتاً ظلم کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی اسے قبول کرتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب و مسالک میں چاہے وہ آسمانی ہوں یا غیر آسمانی ظلم قبیح مانا جاتا ہے۔ اسی طرح آج پوری دنیا ظلم کے خلاف مقاومت میں مصروف نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی انسانیت سے خارج تنظیموں کا بھی بظاہر یہی نعرہ ہے کہ ہم دنیا سے ظلم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان انسان سوز گروہوں اور ان کے پشت پناہوں نے ملکر آج اسلام کے ایک مقدس پہلو "جہاد" کے نام پر پوری دنیا میں قتل و غارت، درندگی، عصمت دری، ڈر و خوف اور ویرانیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ قرآن کی اس آیت کا مصداق قرار پائے ہیں "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فتنہ و فساد نہ پھیلاو، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنیوالے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ خبردار یہی لوگ مفسد ہیں، لیکن اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔"

یاد رہے کہ قتل و غارت کا نام جہاد نہیں بلکہ جہاد مادہ جھد سے ہے کہ جس کے معنی محنت و کوشش کرنے کے ہیں۔ لفظ مجتہد بھی اسی سے ہے۔ لہذا معنی و مفہوم کے لحاظ سے جہاد ہر اس محنت و کوشش کو کہیں گے کہ جو اس کے متعلقہ نظریے، تنظیم و مکتب کا دفاع کرے۔ دنیا کا ہر نظام اور ہر ادارہ اپنے اصولوں کے دفاع کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے۔ مگر آج داعش، لشکر جھنگوی اور ان جیسے دیگر درندہ صفت گروہ اسلام کے اصولوں کا دفاع نہیں کر رہے، بلکہ حقیقت میں یہ اپنے آقاؤں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری سعودی عرب کا دفاع کر رہےہیں اور ان کو ان کے آقاؤں کی طرف سے دی گئی تھیوری کے مطابق اسلام کو بدنام کرنا، ان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی جہاد کے نام پر جو درندگی و حیوانیت پھیلائی جا رہی ہے، اسکا اسلام و جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت جہاد کے نام پر معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے، جبکہ موجودہ صورت حال میں جہاد کو اس کے اصلی معنی و مفہوم سے ہٹا کر دیگر معنوں میں لے جانا ہی ظلم کی بہت بڑی مثال ہے۔

آج حقیقت میں دنیا سے ظلم کے خاتمے کے لئے پہلے ہمیں مفہوم ِ ظلم کو سمجھنے، اپنے زمانے کے ظالم کو پہچاننے اور پھر اس کے خلاف عملی اقدام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج ظلم کے چھوٹے چھوٹے مصادیق سے اجتناب کرنے سے کل ایک ظلم سے پاک معاشرہ تشکیل پائے گا۔ آج ہمارا معاشرہ پوری طرح سے ظلم و جبر کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ معلوم ہو کہ جس طرح کسی بے گناہ کا قتل کرنا ظلم ہے، بالکل اسی طرح ہی رشوت لینا، اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دینا، کرپشن، مجرموں کے ساتھ تعاون، میرٹ کی بجائے سفارش کا عام ہونا، بڑے و امیر لوگوں کا قوانین سے بری ہونا، نوجوانوں کی بے راہ روی، معاشرے میں نشہ و غیر اخلاقی اقدار کا عام ہونا اور اس پر افراد کی مکمل خاموشی، بدکردار و بدمعاش حکمرانوں کا انتخاب کرنا، امریکہ کی پاکستان میں مداخلت اور اسی طرح سعودی عرب کی پاکستان میں بدمعاشیاں، یہ سب ظلم کی مثالیں ہیں۔ آج پھر ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی سیرت پر پر چلتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جس نے  پہلی مرتبہ "مردہ باد امریکہ" کا نعرہ لگا کر سرزمین پاکستان پر ظلم و استبداد کو للکارا۔

محمد علی نقوی وہ بابصیر انسان تھے کہ جن میں ظلم کے مفہوم سمجھنے، زمانے کے ظالم کو پہچاننے اور اس کے خلاف عملی اقدام کرنے کی ہمت رکھتے تھے۔ شہید ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ امریکہ مردہ باد سیاست نہیں بلکہ ظلم کے خلاف میدان عمل میں آنے کا نام ہے۔ جس طرح کل کربلا میں یزیدیت مردہ باد اسلام کا دفاع تھا، بالکل بعینہ اسی طرح آج امریکہ مردہ باد سیاست نہیں، عین دین اسلام کا دفاع ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق مسلمانوں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ تو وہ زمانے کے ظالم کو پہچان پاتے ہیں اور نہ ہی مبارزے کے لئے میدان عمل میں آتے ہیں، بلکہ پوری زندگی  گذشتہ زمانے کے طاغوت سے بیزاری میں گزار دیتے ہیں۔ جیسا کہ فرعوں کے زمانے کے لوگ موجودہ ظالم فرعون کے بجائے گذشتہ کردار شدّاد کو ظلم گردانتے، یزید کے زمانے کے لوگ یزید کو چھوڑ کر فرعون و شداد کو مفسد فی الارض سمجھتے۔ آج پھر مسلم دنیا کا یہی حال ہے کہ اپنے زمانے کی موجودہ یزیدیت و طاغوت، امریکہ و اسرائیل اور تکفیریوں کی پشت پناہی کرنیوالے آل سعود کو چھوڑ کر ایک مردہ یزیدی کردار سے اظہار نفرت میں لگی ہے۔

ہر سال حج پر جانے والے حاجی اپنے زمانے کے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بجائے پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارنے پر اکتفاء کرتے ہیں، جبکہ شہید ڈاکٹر نے 1988ء میں حج کے دوران اپنے زمانے کے شیطان کے خلاف آواز اٹھائی اور 16 مئی کو سرزمین پاکستان پر یوم مردہ باد امریکہ منا کر اپنی بصیرت و ظلم کے خلاف عملی میدان میں آنے کا ثبوت دیا۔ ڈاکٹر کا یہ نظریہ تھا کہ جس معاشرے میں عدل طاقتور کا سہارا بن جائے تو وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف شہید ڈاکٹر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے اتحاد کے بھی داعی تھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ پورا عالم اسلام یک جان ہوکر ظلم و ظالم کے خلاف میدان عمل میں آئے۔ فکرِ شہید ڈاکٹر یہ تھی کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر ظلم ہو تو تمام ملت اسلامیہ کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ جیسا کہ عراق و افغانستان جنگ کی مذمت کرنا، لبنانی و فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی مذمت کرنا، 1992ء میں کشمیر و فلسطین کانفرنس منعقد کروانا، اسی طرح نعرہ "برائت از مشرکین" کے کے جرم میں 1987ء میں سعودی عرب کا ایرانی  حجاج پر گولیاں چلانے پر،حج سیمینار منعقد کروانا۔ یہ سب شہید ڈاکٹر کی ظلم سے برائت کی واضح مثالیں ہیں۔

شہید ڈاکٹر بقول اقبالؒ "خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کرے" ملت و قوم میں آنیوالے تباہی کے طوفاں سے آشنا تھے۔ لہذا ان کی زندگی حرکت و اضطراب سے پْر تھی۔ وہ قوم کو آنیوالی تباہی سے بچانے کے درپے تھے اور ان کے مطابق ظلم کے خلاف میدان عمل میں آنا ہی اس تباہی کو روک سکتا ہے۔ شہید ڈاکٹر کے دشمن  کے مقابلے میں جذبات کچھ یوں تھے "اے دشمن اگر ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے میرے ہاتھ چلے بھی گے تو پاؤں سے لڑؤں گا اور اگر یہ بھی نہ رہے تو زباں سے یہ فریضہ انجام دوں گا اور اگر اس نے بھی وفا نہ کی تو حتماً آنیوالی ہر سانس سے ظلم کے پرچم کو سرنگوں کروں گا اور اگر سانس بھی نہ رہی تو یہ نہ سمجھنا کہ ظلم کے خلاف آواز دب گئی، بلکہ یاد رکھو کہ میرے خون کا جو قطرہ بھی زمین میں جذب ہوگا اور اس سے اگنے والا اناج تاقیامت جو نسل کھائے گی، وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جس راہ پر انھوں نے قدم رکھا ہے، اس کا یقینی انجام موت ہے، مگر ڈاکٹر کی نظر میں منزل کچھ اور تھی۔ بقول شاعر
شاہد ہے ادائے میثم بھی ہم ہیں وہ علیؑ کے دیوانے
جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہو اس پیڑ کو پانی دیتے ہیں 
خبر کا کوڈ : 528460
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش