0
Saturday 16 Apr 2016 11:11

گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات، ووٹوں کی قیمت کروڑوں تک پہنچ گئی، حکمران جماعت خائف

گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات، ووٹوں کی قیمت کروڑوں تک پہنچ گئی، حکمران جماعت خائف
رپورٹ: کے پی این

گلگت بلتستان کونسل کی چھ نشستوں کیلئے ہونے والے انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے، گلگت بلتستان کے ہوٹلوں اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ان انتخابات میں کونسا رکن اسمبلی اپنا ووٹ فروخت کرکے راتوں رات کروڑ پتی بنے گا۔ ذرائع کے مطابق بعض ممبران اسمبلی جن میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں، نجی محفلوں میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اسمبلی کی رکنیت میں کیا رکھا ہے، اس سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ اپنا ووٹ فروخت کرکے راتوں رات کروڑ پتی بن جاﺅ اور کیش کرو۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے تو ایک محفل میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پارٹی مجھے اسمبلی رکنیت سے فارغ بھی کرتی ہے، تب بھی نقصان کا سودا نہیں ہے۔ اگر میں پانچ سال رکن اسمبلی رہا تو تنخواہ کی مد میں پانچ سال میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر لاکھ کما سکتا ہوں، جبکہ یہاں راتوں رات ایک ووٹ کے بدلے ایک کروڑ روپے ملتے ہیں اور ایک کروڑ روپے نقد وصول کرکے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دینا نقصان کا سودا نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت تین شخصیات جو کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، وہ ممبران اسمبلی پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں، تاکہ کونسل کے الیکشن میں یہ ممبران انہیں ووٹ دیدیں۔

ذرائع کے مطابق ان تین شخصیات میں سرفہرست گلگت بلتستان کے بہت بڑے کاروباری شخص علی حیدر ہیں، جو کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ علی حیدر کے مجلس وحدت مسلمین سے معاملات طے پا گئے ہیں، جس کے بعد نہ صرف مجلس وحدت مسلمین کے تینوں ممبران اسمبلی کے ووٹ علی حیدر کو پڑیں گے بلکہ ایم ڈبلیو ایم کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ قائد حزب اختلاف شاہ بیگ جنہیں ایم ڈبلیو ایم نے اس شرط پر قائد حزب اختلاف نامزد کیا تھا کہ وہ کونسل کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کے حمایت یافتہ امیدوار کی حمایت کریں گے، بھی علی حیدر کو ووٹ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس طرح علی حیدر نے ایک اور رکن اسمبلی کی حمایت حاصل کی ہے اور انہیں الیکشن میں کامیابی کا مکمل یقین ہے۔ دیامر سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم شخصیت سابق رکن کونسل سید افضل جو جوڑ توڑ کے حوالے سے پورے علاقے میں مشہور ہیں، بھی دوبارہ کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سید افضل کا کونسل کے الیکشن ووٹ کا ہدف پانچ نہیں بلکہ سات ووٹ ہیں۔

گذشتہ الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کے موقع پر جب ریٹرننگ آفیسر نے سید افضل کی چھ ووٹوں سے کامیابی کا اعلان کیا تو سید افضل بے ساختہ بول پڑے تھے کہ جناب میرے سات ووٹ ہیں، کہیں آپ کو غلطی ہوئی ہوگی، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایک رکن اسمبلی نے سید افضل سے بھاری رقوم وصول کرنے کے باوجود ووٹ نہیں دیا تھا۔ سید افضل نے اس رکن اسمبلی سے رقم کی وصولی کیلئے کئی دفعہ جرگہ کیا تھا، مگر اس کے باوجود رقم وصول نہ ہوسکی۔ اس مرتبہ سید افضل کے رکن اسمبلی نواز خان ناجی اور راجہ جہانزیب سے معاملات طے پاگئے ہیں، یہ دونوں ووٹ پکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سید افضل مزید پانچ اراکین اسمبلی سے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سید افضل کے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران جن کا تعلق اسکردو اور دیامر سے بتایا جاتا ہے، سے معاملات طے کرنے کیلئے مذاکرات فائنل مرحلے میں چل رہے ہیں۔ اس طرح سید افضل نے اسلامی تحریک کے بلتستان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران سے بھی رابطے تیز کر دیئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم کاروباری شخصیت حاجی فدا حسن جو گذشتہ سال اسمبلی کے انتخابات میں ہار گئے تھے، بھی گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیر، ایک رکن اسمبلی اور گلگت ریجن سے تعلق رکھنے والی ایک نامی گرامی خاتون رکن اسمبلی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے، مگر فدا حسین کو پارٹی ٹکٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے، مگر اس کے باوجود حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض ممبران اور دیگر پارٹیوں کے ممبران سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑی کاروباری شخصیت محبوب علی عباس بھی کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ کونسل کے انتخابات میں ووٹوں کی بولی لگنا تو کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ سب کے علم میں ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے اور مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کی قیادت بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے اور اراکین اسمبلی کو ایک ووٹ کے بدلے بھاری رقوم کی آفر ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ نون کی قیادت کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض اراکین اسمبلی بھاری رقوم کے عوض اپنی وفاداری تبدیلی کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلٰی حافظ حفیظ الرحمٰن اس بات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ گورننس آرڈر میں ترمیم کے ذریعے کونسل کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ تبدیل کرکے شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ ہو، تاکہ ممبران اپنی وفاداری تبدیل نہ کرسکیں۔ اس وقت گلگت بلتستان کی عوام یہ چاہتی ہے کہ ان کے منتخب ممبران اسمبلی قابل فروخت نہ ہوں، یا کم از کم ایسا طریقہ کار طے کیا جائے کہ ممبران اسمبلی اپنا ووٹ فروخت نہ کرسکیں، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان پیپلز پارٹی جس کا کوئی امیدوار بھی اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا ہے۔ کونسل کے انتخابات میں ووٹنگ شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کی نہ صرف شدید مخالفت کر رہی ہے بلکہ خفیہ رائے شماری کے سابقہ طریقہ کار میں تبدیلی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پی پی کے صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کونسل کے امیدوار سید افضل کے مسلسل رابطے میں ہیں۔ سید افضل نے پی پی کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا ووٹ ان کے حق میں کاسٹ کرے، جس پر پی پی کی قیادت نے شرط عائد کی ہے کہ وہ پی پی میں شامل ہو جائیں گے۔ سید افضل خفیہ رائے شماری میں کامیاب ہوئے تو انہیں کریڈٹ ملے گا۔

اسی طرح اسلامی تحریک نے بھی پی پی سے رابطہ کیا ہے اور کہا کہ ان کے پاس چار ووٹ موجود ہیں اور اسلامی تحریک نے گذشتہ انتخابات میں عمران ندیم سمیت دیگر امیدواروں کے حق میں اپنے امیدوار دستبردار کرا دیئے تھے، جس کی وجہ سے عمران ندیم الیکشن میں جیت گئے۔ اس لئے اب پی پی اپنا ووٹ اسلامی تحریک کے کونسل کے امیدوار کو دے، تاکہ اسلامی تحریک کا امیدوار کامیاب ہوسکے، جس پر پی پی کی قیادت نے کہا کہ آپ کے چار ووٹوں سے ایک ووٹ فروخت ہوچکا ہے۔ اس لئے آپ پہلے اپنے چاروں ووٹوں کی وفاداری کنفرم کر لیں، اگر اسلامی تحریک اپنے چار ووٹ یقینی بناتی ہے تو پی پی بھی اپنا ووٹ اسلامی تحریک کے امیدوار کو دے گی، بصورت دیگر نہ صرف اسلامی تحریک کے تین ووٹ ضائع ہونگے بلکہ پی پی کا ووٹ بھی بے مقصد ہوگا۔ ذرائع کے مطابق آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں بڑے بڑے امیدوار تجوریوں کے منہ کھول دیں گے اور کئی ممبران اسمبلی کی وفاداری کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق کونسل کے گذشتہ انتخابات میں ایک ووٹ پچاس لاکھ روپے میں فروخت ہوا تھا، مگر اس مرتبہ ایک ووٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے، اب کھیل آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اگلے چند دنوں میں معلوم ہوگا کہ کونسل کے انتخابات میں کون کس قیمت پر کامیاب ہوا اور کونسا رکن اسمبلی کتنی رقم کے عوض فروخت ہوا، کون کون رکن اسمبلی بنا کروڑ پتی، اس کا جواب 18 اپریل کو معلوم ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 533626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش