0
Sunday 17 Apr 2016 18:41

یمنی بھی اللہ کی مخلوق ہیں

یمنی بھی اللہ کی مخلوق ہیں
تحریر: سید اسد عباس

انسان شیعہ ہو یا سنی، زیدی ہو یا اباضی، مسلمان ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا لامذہب اللہ کی مخلوق ہے۔ کسی بھی انسان کو پیدا کرتے ہوئے خدا نہیں دیکھتا کہ یہ میرا بندہ دنیا میں جا کر میری فرمانبرداری کرے گا یا نافرمانی یعنی پیدا ہونے، زندہ رہنے، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر انسان کو بلاتفریق مذہب و فرقہ حاصل ہے۔ خدا کے بہت سے نافرمان بندے دنیاوی آسائشوں سے مالا مال ہیں، ان کے پاس نعمات کی کوئی کمی نہیں۔ یہ سنت الٰہی ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو اس کے مسلک، مکتب اور فرقے کی بنیاد پر محروم نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے نافرمان بندے دنیا کے محروم ترین افراد ہوتے۔ ہم انسانوں نے نہ جانے کیوں انسانوں کو مسلک، مکتب اور مذہب کی عینک سے دیکھنا شروع کیا ہے اور اسی بنیاد پر ہم اس کے زندہ رہنے یا نہ رہنے کے فیصلے کرتے ہیں۔ عام انسان اگر اس نظر سے کسی کو دیکھیں تو ان سے شکوہ نہیں، تاہم نبی خاتم (ص) کی امت کے افراد جب ایسا کریں تو اس سے غمناک کوئی اور بات نہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم بالعموم ایسے ہوچکے ہیں۔ مصیبت میں گھرے ہوئے کسی بھی انسان کی شناخت کا آغاز اس کے مکتب سے کرتے ہیں۔

کون مرا؟ دیوبندی تھا، بریلوی تھا، شیعہ تھا، اہل حدیث تھا، عیسائی تھا، یہودی تھا یا ہندو تھا۔ اگر ہم میں سے نہ تھا تو ہماری بلا سے۔ کسی کو خوراک نہ ملے، کوئی بھوک سے ایڑیا ں رگڑے، کوئی دوا نہ ملنے کے سبب بستر پر تڑپے، کسی پر بمب برسائے جائیں، کسی کی آبادیوں میں دھماکے ہوں، کسی کا بدن بارود سے ریزہ ریزہ ہوجائے، ہمارا پہلا سوال یہی ہے کہ تھا کون؟  کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہم نے اپنے پروردگار کا کیسے سامنا کرنا ہے؟ کیا وہ ہم سے نہیں پوچھے گا کہ جب میں نے مکتب، مسلک اور دین کے عنوان سے لوگوں میں تفریق نہیں کی تو، تو کیونکر لوگوں کو اس بنیاد پر تقسیم کرتا رہا۔ ہماری یہ تقسیم ہمارے درجہ معرفت کی بھی آئینہ دار ہے۔ یہ تقسیم ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کس قدر خدا شناس ہیں، ہمارا تصور دین کس سطح کا ہے اور ہمارا انجام کیسا ہوگا۔؟ آئے روز ہونے والے واقعات پر غور کریں۔ کچھ گروہوں کی سطح تو اس قدر پست ہوچکی کہ وہ انسانوں کو ان کے دین و مکتب کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان کی زندگی و موت کے فیصلے کرتے ہیں۔ یمن کے لوگ چونکہ رافضی ہیں، لہذا ان پر حملے، ان کی آبادیوں پر بارود کی بارش، ان کی مساجد کی تباہی، ان کے بچوں اور خواتین کا قتل سب جائز ہے۔

کیا بے گناہ انسانوں، خواتین، بچوں اور معذوروں کا قتل اسلام کی نظر میں عظیم گناہ اور جرم نہیں ہے۔ کس قانون میں روا ہے کہ جنگوں کے دواران بے گناہوں کو قتل کرو اور پھر ان کے قتل پر شادیانے بھی بجاؤ کہ خس کم جہاں پاک۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ گذشتہ ایک سال سے یمن آگ و خون کی لپیٹ میں ہے، اس ملک کے عوام جو جنگ سے پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے، اب ایک سالہ جنگ کے بعد کس حالت سے دوچار ہوں گے، اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جو اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ جنگیں، قتل و غارت، ظلم و بربریت ہمیں چونکاتا ضرور ہے، تاہم پھر وہی سوال ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے کہ یمنی ہیں کون۔؟ یمنی زیدی ہیں، یمنی رافضی ہیں، لہذا بھلے قتل ہوں ہماری بلا سے۔ ایسے ہی شام، عراق، افغانستان اور دنیا بھر میں انسان روز قتل کئے جاتے ہیں، تاہم ہم خاموش ہیں۔ ظالم ہماری اسی خاموشی سے شہ لیتا ہے۔ اگر ہم ظلم کو شناخت کریں اور ظالم سے نفرت کریں، جس کا علم ظالم کو بھی ہو جائے تو کبھی بھی وہ اس جرات سے قتل و غارت نہ کرے، جس ڈھٹائی سے آج وہ ایسا کر رہا ہے۔

مگر ہماری آنکھیں تو مکمل طور پر بند ہیں، جب ہم بے جرم و خطا مرنے والے کا نسب نامہ کھول لینے میں آر نہیں محسوس کرتے تو ان مرنے والوں کے لئے بات کرنے والا بھلا ہمارے اس تعصب سے بھلا کیونکر محفوظ رہے۔ آپ یمن کے مظلومین کے حق میں آواز اٹھائیں، آپ بھی رافضیوں کے ہمدرد ہیں، جس کے جواب میں حلب و حمص کے قصے بیان کئے جائیں گے کہ چونکہ وہاں وہ ظلم کرتے ہیں تو یہاں یہ ظلم روا ہے۔ ظلم کہیں بھی ہو، اسے ظلم کہنا چاہیے، یہی دین مبین کا درس ہے۔ کوئی ظلم کسی دوسرے ظلم کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اگر شام، عراق، افغانستان، بحرین، قطیف، نائجیریا، صومالیہ غرضیکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بے گناہ انسان قتل ہو، تو قاتل یقیناً اس جرم کے لئے خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں مرنے والے انسانوں کا لہو رائیگاں نہیں ہے، وہ گروہ جو ان انسانوں کے قتل کا سبب بنتے ہیں، سبھی کو اپنے اپنے کردار کے مطابق جواب دینا ہوگا۔

26مارچ 2015ء سے سعودی افواج اپنے عرب اتحادیوں کے ہمراہ یمنی سرحدوں کا مقاطع کئے ہوئے ہیں، ہر روز عرب طیارے یمنیوں کی آبادیوں کو مسمار کرتے ہیں، آخر کیوں؟ کیا یہ افواج صرف کمزوروں کے خلاف ہی استعمال ہوسکتی ہیں۔؟ یہ فضائیہ کبھی اسرائیل کی جانب تو نہیں گئی، جس کے فلسطینیوں پر مظالم روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ عربوں کو معلوم ہے کہ یمنی افواج ان حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ جنگی ہتھیاریوں سے لیس افواج کے مقابلے میں چھوٹے ہتھیاروں سے لڑنے والے یمنی گذشتہ ایک سال سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ طاقت کے نشے میں چور عرب افواج اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور یمن کے عوام کو اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرنے کی اجازت دیں۔؟

مسلم دنیا گذشتہ چند برسوں سے ایک نئی مشکل کا شکار ہے، ضرورت اس امر کی ہے ہر مسلمان ریاست اور اس کے ذمہ داران اس نئی مشکل کے پیدا کرنے میں اپنے کردار کا جائزہ لیں۔ ہمارا دشمن جو گذشتہ دہائی میں ہم پر شد و مد سے حملہ آور تھا، آج سکون سے بیٹھ کر ہمارے باہمی اختلافات کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ حسب ضرورت وہ ان جنگوں میں ایندھن بھی ڈالتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے وہ مسائل جو گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے، اب پس پردہ جا چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے مسائل نے لے لی ہے۔ آج کہیں تذکرہ نہیں کہ فلسطین میں آئے روز صہیونی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی اسی طرح داخل دفتر ہوچکا ہے۔ پروردگار عالمین سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو بصیرت، اسلامی شعور اور حق کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 533944
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش