0
Monday 18 Apr 2016 21:10

انٹرنیٹ ۔۔۔۔۔۔ فوائد بے شمار مگر نقصانات بے انتہاء

انٹرنیٹ ۔۔۔۔۔۔ فوائد بے شمار مگر نقصانات بے انتہاء
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com


موجودہ دور میں اگر کسی سائنسی پیشرفت کا بول بالا ہے تو وہ یقینی طور انٹرنیٹ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقولہ زبان زدِ عام و خاص ہے کہ موجودہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ انٹرنیٹ بھی اب تک کی محیرالعقول سائنسی ایجادات میں سے ایک ایجاد ہے۔ پوری دنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں انٹرنیٹ کا کلیدی کردار ہے۔ پیغامات اور معلومات کی ابلاغ و ترسیل ہو یا اس کا حصول انٹرنیٹ سے ہر کام نہ صرف آسان سے آسان تر ہوگیا ہے بلکہ اس میں روز بروز کافی سرعت بھی آگئی ہے۔ نیٹ کا مطلب جال ہے اور اس غیر مرئی جال کی لپیٹ میں پوری دنیا آچکی ہے۔ جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ اس زمانے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا شائد ہی کوئی شعبہ ہو، جس میں انٹر نیٹ کا عمل دخل نہ ہو۔

یہ مقولہ تو زبان زد عام و خاص ہے کہ موجودہ زمانہ کافی تیز گام ہے، حالانکہ وہی روز و شب ہیں، وہی ماہ و سال ہیں۔ آفتاب و مہتاب کی وہی راہ و روش ہے۔ لحظوں، منٹوں اور گھنٹوں کی رفتار میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ دراصل انٹرنیٹ جیسے ذرایع سے ہی عصر حاضر نے یہ تیز رفتاری مستعار لے رکھی ہے۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ کارآمد ترین ایجاد ہے۔ لیکن قاعدہ کلیہ کے مطابق جو چیز جس قدر کارآمد ہوا کرتی ہے، وہ کئی گنا زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہر ایجاد کی طرح انٹرنیٹ سے بھی سوءِ استفادہ ہو رہا ہے۔ جس سے یہ کارآمد چیز عالمی سطح پر انسانی معاشرے کیلئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ خاص طور سے نوجواں اور بچے اس کے مضر اثرات کا شکار ہو رہے ہیں۔

اثرات بھی ایسے جو ہمہ جہت ہیں۔ ان مضر اثرات سے انسان کا دینی جذبہ سرد پڑ رہا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو رہی ہیں۔ اخلاقی اور تہذیبی ڈھانچہ شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ انسان کا سماجی رویہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے، اس کا میل جول جو اب تک ایک مانوس معاشرے تک ہی محدود تھا، اب انٹرنیٹ کی بدولت کافی حد تک اس کے روابطہ میں وسعت آگئی ہے۔ وہ کچھ ایسی منفی سوچ اور غلط راہ و روش سے آشنا ہوا ہے، جو اس کے معاشرتی اور مذہبی نقطہ گاہ سے ناپسند و نامناسب ہے۔ جس سے وہ نفسیاتی کشاکش سے دو چار ہوا ہے۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر جو مواد ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے، اس کا بڑا حصہ جنسی حس کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ متحرک اور غیر متحرک فحش تصویریں جابجا دکھائی پڑتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کوئی لاکھ دامن بچانا چاہے، ان شیطانی پھندوں سے اس کا ضرور بہ ضرور واسطہ پڑتا ہے۔

یہاں تک کہ مذہبی معلومات او روحانی حض حاصل کرنے کے لئے بھی چند ایک نا زیبا مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر کس و ناکس کو اس اخلاق سوز مواد تک رسائی حاصل ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں کہیں پر نگرانی اور پابندی کا فی زمانہ کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جس کو جو دل میں آگیا، وہ اس کو اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہاں ضابطۂ اخلاق ناپید ہے۔ نیز بندھے ٹکے اصول و قوانین سے اس شتر بے مہار کو لگام دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ لہذا ہم استعاراً کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک بڑا کوڑے دان ہے کہ جس میں بہت سی انمول اور کارآمد چیزیں بھی ہیں، لیکن ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ گلی سڑھی اور زہریلی اشیاء بھی اس میں ڈال سکتا ہے۔

لندن اسکول آف اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں تقریباً 57 فیصد بچے انٹرنیٹ پر بلا جھجک فحاشی و عریانیت مواد دیکھتے رہتے ہیں اور ان کے والدین ان کی اس حیا سوز حرکت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جو بچہ اوائل عمری میں ہی انٹرنیٹ کی بھول بھلیوں میں کھو جائے، وہ نوجوانی میں ماں باپ کے ہاتھ کہاں آسکتا ہے اور جس کی معصوم نگاہیں حیا سوز مناظر سے بچپن میں ہی آلودہ ہوچکی ہوں، اس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ آگے چل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سعید فطرت اور پاکباز ہوگا۔ اس میں اعلٰی اقدار و کردار کا پایا جانا غیر ممکن ہے۔ جس کا بچپن اس دام فریب میں گرفتار ہو جائے، اس سے جوانی میں اگر غیر متوقع افعال صادر ہوں تو اچھنبے کی بات نہیں ۔
دل سوز سے خالی ہے نگاہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے
(علامہ اقبال)

اس وقت نوجوان طبقے میں جو اخلاقی بگاڑ اور مذہبی بیزاری کا عنصر سر ابھار رہا ہے۔ اس میں انٹرنیٹ بھی ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ نے بے شک دوریاں کم کر دی ہے، لیکن یہ دوریاں انٹرنیٹ کی مصنوعی دنیا میں کم ہوئی ہیں۔ اصل اور حقیقی دنیا میں اس سے ایک خلا پیدا ہوا ہے، جو روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی زندہ مثال سوشل نیٹ ورک میڈیا کی دنیا میں گم نوجوان بلکہ ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا انسان ہے، جو آٹھ پہر سوشل نیٹ ورکنگ Social Networking کی مختلف ویب سائٹوں میں مگن اپنے یاس، پڑوس، اپنے گھر بار حتٰی کہ اپنے والدین اور اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے غافل ہے۔ ایک بچہ بظاہر ماں باپ کی نگاہوں کے سامنے بیٹھا ہوا ہے، لیکن اپنے موبایل یا پرسنل کمپیوٹر کی مدد سے وہ کہیں اور پہنچ چکا ہوتا ہے۔ گویا اسکے وجود کو کیمپیوٹر یا موبائل نے جذب کرکے کسی دوسری دنیا میں روانہ کر دیا ہے۔

زیادہ واضح بیانی سے کام لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ صرف جسم والدین کے روبرو ہے اور روح انٹرنیت کی دنیا میں سرگرداں اور پریشاں ہے۔ اس معاملے میں والدین کی نگرانی اور ناظروں کی نظارت میں ایک اور پیچیدگی سامنے آجاتی ہے، وہ یہ کہ اگر اصل دنیا میں ایک بچہ آوارہ گردی اور بدچلنی کا مظاہرہ کرے تو اس کو سماج کی آنکھ ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی والدین اس کی غلط روی سے زیادہ دیر تک ناواقف رہ سکتے ہیں۔ مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں آوارہ گردی بغیر کسی کھٹک کے ہوتی ہے۔ یہاں نظارت و نگرانی کا کوئی اہتمام ہی نہیں۔ آپ کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں، کچھ بھی دکھا سکتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی میل جول بڑھا سکتے ہیں۔ کسی بھی ان دیکھے شخص کیساتھ رشتہ استوار کرسکتے ہیں۔ اس خوف کے بغیر کہ کوئی میری حرکتوں کو دیکھ رہا ہے اور کسی کے سامنے میری جواب دہی ہے۔

موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے، جس سے ہماری بات پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے۔ اس وقت دنیا علی الخصوص مسلم دنیا کو دہشت گردی کا عفریت منہ پھیلائے نگلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے بھی اسی انٹرنیٹ سے کافی حد تک استفادہ کیا ہے۔ حتٰی کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے بھی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں کی مدد سے مرد حضرات کو جہاد کے نام پر اور خواتین کو جہاد النکاح کے نام پر بالترتیب اپنی طاقت اور عزت و ناموس پیش کرنے پر آمادہ کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنہوں نے یورپ کے عیش پرستانہ ماحول کو تج کر داعش میں شمولیت اختیار کی ہیں۔ ان کے بارے میں ان کے اقربا، ہمسایہ اور دیگر دوست و احباب بھی اس طرح کے اقدام کی توقع نہیں رکھتے تھے۔

ان کی ظاہری زندگی میں شدت پسندی کا کوئی عمل دخل نہیں پایا گیا تھا۔ لیکن اس غیر مرئی دنیا یعنی انٹرنیٹ کی دنیا میں انہوں نے اپنی حقیقی زندگی کے برعکس خفیہ طور پر ایک ایسی صورت اختیار کی تھی۔۔ جس کا وہم و گمان تک نہیں کیا جا سکتا تھا اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ان کے اپنوں کو اس بات کی بھنک تک نہ ملی۔ اس حقیقت کے پیش نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر انٹرنیٹ کے ذریعے آپ غیروں سے مراسم استوار کرتے ہیں، لیکن آپ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے سماج، مذہب، تہذیب و تمدن، افکار و خیالات سے بھی خفیہ طور بہت دور جا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے عائلی اور ازدواجی زندگی میں بھی زہر گھول دیا ہے۔ چند دن قبل راقم الحروف نے ایک اخبار کی یہ سرخی پڑھی کہ ’’سمارٹ فون کے غلط استعمال نے ایک ہنستا بستا گھر برباد کر ڈالا ہے۔‘‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اجمیر شریف میں ایک گھر گرہستی والے شخص نے سمارٹ فون خریدا اور اس پر فحش فلمیں دیکھنے لگا، جس کا اثر یہ ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کے نام یہ فرمان جاری کر دیا کہ وہ بھی فحش اداکاراووں کی نقالی کرکے حیا باختہ اور غیر اخلاقی حرکات کرے۔ باحیا بیوی کے انکار کرنے پر اس بد طینت شخص نے اسے اس قدر مارا پیٹا کہ بیچاری کو ہسپتال داخل کروانا پڑا۔ خاتون نے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد پولیس کو بتایا کہ میرا شوہر کپڑے رنگنے کا کام کرتا ہے۔ ہماری تیرہ سالہ ازدواجی زندگی خوش و خرم گزری، لیکن سمارٹ فون کی وجہ سے اس میں زہر گھل گیا۔ نتیجتاً خاتون نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر لی۔

محولہ بالا رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کی غیر حقیقی دنیا پر حقیقی دنیا قربان ہو رہی ہے۔ فرضی کرداروں کے سانچے میں حقیقی کرداروں کو ڈھالنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ سچے اور آشنا دوستوں پر فرضی اور نامعلوم دوستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کبھی کبھار یہ صورت حال تمام تر حدود پار کر جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میسومہ سرینگر میں آج سے قریباً سات آٹھ سال قبل پیش آمدہ وہ واقعہ چشم کشا ہے، جس میں ایک نوجوان نے اس بات پر اپنے ہی ایک دوست کا خفیہ طور پر قتل کر دیا کہ اس نے فیس بک پر اپنے ہی دوست کی کسی غیر ریاستی اور نامعلوم خاتون دوست کے ساتھ چیٹنگ کے ذریعے روابط استوار کئے تھے اور جس کی خاطر قتل ہوا، اس کے حالات و کوائف دونوں دوستوں کے لئے مبہم تھے۔ اس کے بارے میں یقنی طور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کون تھا نیز آیا وہ واقعی کوئی لڑکی تھی یا کوئی مرد ہی اپنے آپ کو عورت ظاہر کر رہا تھا۔

موجودہ دور کے انسان کو جو احساسِ تنہائی نے آ گھیرا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مصنوعی دنیا میں ہزاروں دوستوں کے جھرمٹ میں کھو گیا ہے اور اس کے پاس حقیقت کی دنیا میں کسی کے ساتھ آشنائی پیدا کرنے کے لئے وقت ہی نہیں۔ پہلے پہل جب کوئی رشتہ داری، آشنائی یا دوستی کے ناطے کسی کے یہاں مہمان بن کر جاتا تھا تو افرادِ خانہ مہمان کے ساتھ مل بیٹھ کر آپسی گفتگو میں محو ہو جاتے تھے۔ مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ مہمان کمرے میں ہے، افرادِ خانہ اس کے سامنے بیٹھے ہیں، لیکن سب اپنے اپنے موبائل، سمارٹ فون، لیپ ٹاپ کے ساتھ مگن ہے، کسی کو مہمان کے ساتھ بات چیت میں کوئی دلچسپی ہی نہیں! نہ صرف مہمان کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں بلکہ افراد خانہ کا آپسی رویہ بھی اس معاملے میں کچھ مختلف نہیں ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے، ایک ہی گھر میں زندگی گزار رہے، افراد میں قربت مفقود ہے۔ نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان تو نسلی بُعد (Generation gap) تو ہوتا ہی ہے، لیکن انٹرنیٹ کے بے تحاشہ استعمال نے اس بُعد میں کافی اضافہ کر دیا ہے۔

نفسیاتی اعتبار سے بھی انٹرنیٹ نے آج کے انسان کو کافی حد تک مضمحل کر دیا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات نفسیاتی خلفشار میں مبتلا انسان کے ہاتھوں معرض وجود میں آتے ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال مختلف نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ بعض افراد اپنے وقت کا 40 سے 80 فیصد حصہ انٹرنیٹ کی نذر کرتے ہیں اور کبھی کبھار یہ دورانیہ 20 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر افراد دنیائے انٹرنیٹ کے گم کردہ راہی ہیں۔ یعنی وہ کسی خاص مقصد اور مقررہ وقت کیلئے اس کا استعمال نہیں کرتے ہیں، اس پر تصرف اور کنٹرول حاصل کرنے کے بجائے اپنا کنٹرول کھو کر اپنے آپ کو ہی اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی پیچ در پیچ راہوں سے صحیح سلامت لوٹ آنا کافی مشکل ہے۔ کچھ نہیں تو کم از کم اپنی قیمتی شئے یعنی وقت کی بربادی تو طے ہے۔

انٹرنیٹ کا بلا ہدف اور بے جا استعمال ایسا ہی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر کہ کوئی شخص اپنے سفر کے ہدف و مقصد کا تعین کئے بغیر ہی آمد و رفت کے ذرائع بدلتا رہے اور دوسرے الفاظ میں اسے تو کہیں نہیں پہنچنا ہے، مگر پھر وہ کبھی بس، کبھی ٹیکسی، کبھی آٹو اور کبھی ٹرین وغیرہ میں مصروف سفر رہے۔ اس حالت میں کہ اپنی پوری متاع زندگی لٹاتا رہے۔ کیا اس مسافر کو ذہنی بالیدگی، قلبی طمانیت اور نفسیاتی آسودگی بہم ہوسکتی ہے؟ بھارت، چین اور امریکہ جیسے ملکوں میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انٹرنیٹ نے نشہ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الکوحل اور ڈرگز کے بعد انٹرنیٹ کی لت تیسرے درجے پر آتی ہے۔ لت کسی بھی چیز کی ہو، ہرگز اچھی نہیں ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں لاکھوں افراد اس لت کا شکار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 534115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش