0
Friday 22 Apr 2016 17:59

امریکا اور خلیجی تعاون کاؤنسل کی مشترکہ کامیابیاں؟

امریکا اور خلیجی تعاون کاؤنسل کی مشترکہ کامیابیاں؟
تحریر: عرفان علی

ایک اور مرتبہ خلیج فارس کے عرب شیوخ نے امریکی صدر اوبامہ کو مشکل کشائی کے لئے پکارا۔ ایک اور مرتبہ امریکی سامراج اپنی طفیلی عرب ریاستوں کی پکار پر مدد کے لئے دوڑا چلا آیا۔ یہ تبصرہ ہے امریکی صدر باراک اوبامہ کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں کہ جہاں خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی تنظیم المعروف GCC کا سربراہی اجلاس ہوا۔ میزبان خائن حرمین بے شرمین سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز تھے اور انہی کی درخواست پر سب جمع ہوئے تھے۔ ایک اور مرتبہ ذرائع ابلاغ میں اپنے گھس بیٹھیوں کے ذریعے یہ غلط تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، جیسے سعودی بادشاہت اور امریکا ایک دوسرے سے ناراض ہیں، ان کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوچکا ہے اور یہ دورہ ناکام ہوجائے گا۔ لیکن یہ سربراہی اجلاس طلب ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ پچھلے سال خیمہ داؤدی (کیمپ ڈیوڈ) امریکا میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد سے جو کامیابیاں امریکا اور اس کی طفیلی ریاستوں نے حاصل کی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے۔ با الفاظ دیگر اس کا جشن منایا جائے۔

اس کے باوجود اس سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کے ایک جملے نے مکر و فریب کی بنیاد پر قائم کئے گئے اس اتحاد کے عملی کردار پر خط نسخ پھیر دیا۔ یہ ایک جملہ ان کی تمام تر کامیاب چالبازیوں کا وہ جواب ہے کہ جسے خود انہی کی خدمت میں پیش کیا جانا چاہیئے اور بار بار پیش کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ خطے کے موجودہ مسلح یا پرامن تنازعات کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ یہ تنازعات صرف اور صرف سیاسی اور پرامن طریقوں سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ دیگر ممالک کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنا، تنازعات زدہ معاشروں میں سبھی پر مشتمل حکمرانی، اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق انسانی کی پابندی بھی لازمی ضرورت ہے۔ اس مشترکہ اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حالات کی اس تشریح کا درست اطلاق نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کا من چاہا اطلاق کرنے پر مصر ہیں۔ ورنہ شام کی خود مختاری کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی نہ کرتے اور شام کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرتے۔ ان کا یہ کہنا کہ بشار الاسد کے بغیر شام میں عبوری سیٹ اپ لایا جائے، یہ خود شام کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ اس طرح وہ خود اپنی ہی کہی ہوئی بات پر عمل کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

اگر وہ اپنی اس بات پر خود ہی عمل پیرا ہوتے تو پھر خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں غیر وہابی سنی اور شیعہ مسلمانوں کے حقوق انسانی پامال نہ کر رہے ہوتے۔ سعودی عرب میں آیت اللہ شیخ باقر النمر کا عدالتی قتل نہ ہوتا۔ مقامات مقدسہ پر غیر وہابی سنی و شیعہ مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اعمال انجام دے رہے ہوتے، زیارت سے مشرف ہوتے، توسل کر رہے ہوتے اور ان پر بدعت و شرک و کفر کے لغو اور جھوٹے الزامات نہ لگ رہے ہوتے۔ لیکن ان طلفیلی ریاستوں کے امریکا سمیت دیگر سرپرست ممالک کو اس بات سے کوئی غرض نہیں، کیونکہ ان کی نظر میں مسلمانان عالم کے حقوق کیڑے مکوڑوں اور کتوں اور بلیوں سے بھی کم تر ہیں۔ وہاں اگلے صدارتی الیکشن کی ابتدائی مہم میں ممکنہ صدارتی امیدوار کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے، یا اگر داخلے کی اجازت ہو تو خصوصی پولیس اہلکاروں کو ان کی نگرانی پر مامور رکھا جائے۔ وہاں مسلمان پہلے سے ہی لوگوں کی نظروں میں ولن بنا دیئے گئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے نکولس کرسٹوف نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو اس کا اصلی سبب خود سعودی عرب ہے، جس نے دنیا بھر میں اسلام کے نام پر ایک تنگ نظری اور تعصب کو فروغ دیا ہے۔

خیر! یہ حکمران جشن منانے جمع ہوئے تھے۔ یہ جشن تھا صہیونی اہداف پر کامیابی سے عمل کا۔ جعلی ریاست کی راہ کے سارے کانٹے صاف کرنے کا جشن۔ امریکی صدر عرب طفیلی ریاستوں کے شیوخ کی خدمات کا اعتراف کرنے گئے تھے۔ طفیلیوں نے انہیں بتایا اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ایران پر پابندیوں کے ذریعے اس کی ایسی کی تیسی کر دی گئی ہے اور اب معاہدہ پر اس طرح عمل کریں گے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل کو جواز بناکر اس کے خلاف نئی پابندیاں لگاکر اسے مزید سزا دیں گے۔ حالانکہ وہ ایران سے چاہتے ہیں کہ عالمی قوانین کے تحت ان طفیلی ریاستوں کے ساتھ رویہ اچھا کرے، جبکہ عالمی قوانین ہی ایران کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کنونشنل اسلحہ کو بنائے یا جمع کرے، جس میں بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔ ایران کو سزا دیتے رہنا اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف موقف سے باز آجائے اور صہیونی ناجائز وجود کے خلاف مزاحمت کرنے والے گروہوں کی مدد نہ کرے۔ انہوں نے جشن منایا کہ جعلی ریاست اسرائیل کے لئے لبنان میں موجود خطرے یعنی حزب اللہ کے خلاف اقدامات پر عمل سے لبنان کی سرزمین کو بھی ترنوالہ بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے جشن منایا کہ شام اب کیا فلسطین و لبنان کی مدد کرسکے گا، وہ تو خود اپنی مدد کے لئے ایران اور روس پر انحصار کرتا رہے گا اور ایک مستقل عذاب میں مبتلا رہیگا۔

امریکی صدر اور امریکا کی طفیلی عرب ریاستوں کے شیوخ نے مشترکہ جشن میں پچھلے ایک سال کی کامیابیوں کا تذکرہ کرکے اطمینان کا اظہار کیا۔ طے یہ پایا کہ امریکا مزید اسلحہ ان ممالک کو فروخت کرے گا۔ ان ممالک کی سکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرے گا۔ مارچ 2017ء میں مشترکہ فوجی مشقیں کرے گا۔ کامیابیوں کے سالانہ جائزے کے لئے سربراہی اجلاس ہوا کرے گا۔ واشنگٹن میں ان طفیلی ریاستوں کی تنظیم کو دفتر کھولنے کی اجازت ہوگی۔ ان کے وزراء سال میں دو مرتبہ امریکا سے مزید احکامات لیں گے۔ امریکا ان کی اقتصادیات کی بھی اصلاح کرے گا، یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں کسے گا۔ یہ طفیلی حکمران اس شرط پر حکومت کرتے رہیں گے کہ ان سے جعلی ریاست اسرائیل کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ یہ مسلمان ممالک میں شام، عراق، لیبیا کی طرح مزید تکفیری گروہوں کو بھیج کر انہیں بھی اتنا ماریں گے کہ وہ بھی مردہ باد امریکا و اسرائیل نامنظور کا نعرہ لگانا بھول جائیں گے۔

اوبامہ کے دورے سے پہلے امریکا میں نائن الیون حملوں میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے سے متعلق خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے اور نائن الیون کے متاثرہ امریکیوں کو سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت دینے سے متعلق ایک مجوزہ بل امریکی سینیٹ میں پیش کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ وہ امریکا میں لگایا ہوا اپنا سرمایہ نکال لے گا۔ امریکی تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ اس سے زیادہ چین نے امریکا میں سرمایہ لگا رکھا ہے، اور جب امریکا چین کے بارے میں کوئی پالیسی بنانے سے نہیں ڈرتا تو سعودی عرب کے خلاف پالیسی پر بھی اسے ڈرنا نہیں چاہیے، لیکن امریکی تجزیہ نگار فراموش کرگئے کہ چین مشرق وسطٰی میں نہیں اور سعودی عرب جعلی ریاست کا پڑوسی ہے اور اگر سعودی عرب واقعاً اسرائیل مخالف پالیسی بنائے یا مقاومت کرنے والے گروہوں کی اسلحے سے مدد کرے تو بھی جعلی ریاست کا خاتمہ مہینوں میں ممکن ہوسکتا ہے۔

لیکن آل سعود کو معلوم ہے کہ ان کا عقیدہ اور صہیونیت اور سرمایہ داریت ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ اس لئے بیان بازی کی حد تک انہوں نے امریکا کو دھمکی دی، لیکن امریکی صدر کے دورے میں اس موضوع پر کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ دوسری جانب امریکا کی سپریم کورٹ نے ایران کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ انہوں نے امریکا میں منجمد ایرانی اثاثوں کو ان امریکیوں میں تقسیم کرنے کا حکم سنا دیا ہے کہ جن کے عزیز 1983ء میں لبنان اور 1996ء میں خبر ٹاورز سعودی عرب میں مارے گئے تھے۔ ان امریکیوں کی موت کا الزام ایران یا ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر لگایا جاتا رہا ہے۔ یہ ثابت ہوا کہ الفاظ کی جنگ کی حد تک آل سعود اور امریکا ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوسکتے ہیں، لیکن عملی طور پر یہ دونوں ایران کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ دونوں کا ہدف ایران ہے اور دونوں صہیونیت اور جعلی ریاست اسرائیل کے آگے سرنگوں ہوچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 534746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش